ٹرمپ کے 2016میں صدر منتخب ہونے سے پہلے بھی یہ سوال بحث کا موضوع تھا کہ آیا عوامی عہدوں پر آنے والوں کے لیے کوئی شخصی یا نفسیاتی معیار بھی ہونا چاہیے یا نہیں۔
ٹرمپ کے دور صدارت میں الگ ہی رنگ ڈھنگ رہے۔ وہ جس طرح صدر بننے سے پہلے جارح، اکھڑ مزاج اور خود پسند تھا، صدارت ملنے کے بعد بھی ویسا ہی رہا۔ یعنی ٹرمپ نے صدر بن کر بھی وہی کیا جو وہ ساری عمر کرتا آیا تھا۔ ٹرمپ کے اکثر مخالف اسے دماغی طور پر غیر متوازن قرار دیتے ہیں جو کسی بھی وقت کوئی خطرہ کھڑا سکتا ہے۔
کیا یہ کوئی واقعی طبی مسئلہ ہے یا ان باتوں میں کوئی حقیقت بھی ہے؟ صدارتی انتخابات کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار اور اپنے حامیوں کو ہنگامے پر اکسانے والی ٹرمپ کی تقریر کے نتیجے میں کیپٹل ہل پر ہجوم چڑھ دوڑا۔ امریکا کے ایوان نمایندگان میں ٹرمپ کے موأخذے کی تحریک منظور ہوچکی ہے اور اب سینیٹ میں صدر کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
تاہم سینیٹ میں ریپبلکن کی اکثریت ہے اور ان کے لیڈر مچ مک کونل نے پہلے ہی یہ عندیہ دے دیا ہے کہ ٹرمپ کے دور صدارت کے باقی ماندہ چند دنوں میں مؤاخذے کے الزامات پر کارروائی مکمل نہیں ہوسکتی۔ ٹرمپ کے خلاف موأخذے کی کارروائی سے بائیڈن کے سو دنوں کا ایجنڈا بھی متاثر ہوگا۔
کسی دماغی عارضے اور رویے میں شدت کے مابین بہت باریک فرق ہوتا ہے جس کا تعین کوئی ماہر نفسیات ہی کرسکتا ہے، اس کا فیصلہ صحافیانہ اور سیاسی پلیٹ فورم پر نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی قاتل کے ارتکاب جرم سے متعلق ماہرین نفسیات اور قانونی طور پر اس کے اسباب کے تعین کرنے والوں کی آرا واضح طور پر مختلف ہوتی ہیں۔ ٹرمپ کی مثال نے کسی بھی اعلیٰ ترین منصب کے امیدواروں کے حوالے سے نفسیات، قوت فیصلہ اور قائدانہ صلاحیتوں کی بحث کو مزید اہم بنا دیا ہے۔ تاحال واضح نہیں کہ اس تناظر میں امیدواروں سے متعلق اہلیت کا تعین کیسے کیا جاسکتا ہے۔
امریکی ایوان نمایندگان کی اسپیکرنینسی پلوسی نے 6جنوری کو کیپٹل بلڈنگ پر یلغار کے فوری بعد امریکا کے چیئرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے رابطہ کیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ ٹرمپ کے اس رویے کے ساتھ انھیں جوہری ہتھیاروں کے کوڈ تک رسائی حاصل ہے اور وہ اس حوالے سے اختیارات رکھتے ہیں۔ جنرل ملر نے فوری افواج کو ایک واضح پیغام بھیجا کہ ہم "آئین کے وفادار" ہیں۔
امریکی صدر میں یہ اہلیت اور صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ موصول ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے نتائج و اثرات پر غور و فکر کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچے۔ فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے تندرستی کا معیار کسی شخص کی کام کرنے کی اہلیت اور اس کی اپنی صحت و سلامتی سے بھی تعلق رکھتا ہے۔
کسی کام کو کرنے کے لیے نفسیاتی نااہلی کا مطلب دماغی مرض نہیں، یہ کوئی طبی حالت نہیں جس کا علاج بھی کیا جاسکے۔ کسی بھی فرد کی شخصیت بچپن سے لے کر اس کی زندگی کے حالات سے تشکیل ہوتی ہے۔ بہت سے شخصی خواص موروثی بھی ہوسکتے ہیں اور سماجی ماحول پر بھی منحصر ہوتے ہیں جن میں اس کی پرورش ہوئی ہو۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کسی عہدے کے لیے کوئی شخص ناموزوں قرار پائے اور بعد میں خود کو یکسر تبدیل کرلے۔
امریکا میں پیدا ہونے والے حالیہ ڈرامائی صورت حال سے اس پہلو پر غور و فکر شروع ہونا چاہیے کہ پراگندہ دماغ رکھنے والا شخص کسی منصب کے لیے منتخب ہوکر کس طرح سیاسی نظام اور ریاست کے نظم و نسق میں بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔ دہائیوں سے سیاسی نظام کی کمزوریوں سے گزرتے پاکستان میں کئی اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہمارے کئی سیاست داں اب ذمے داریوں کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں۔ موجودہ حکومت سیاسی نظام کی تنظیم نو کے مرحلے سے گزر رہی ہے اس لیے انتخابی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے "اہلیت" کی شرائط متعین کرسکتی ہے۔
اس جانچ پرکھ کا تعلق طبی پیمانوں سے ہٹ کر شخصیت، کردار اور قائدانہ صلاحیت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔ نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) بڑی تعداد میں منتخب ہونے والوں کی اہلیت کا ہر کچھ عرصے بعد جائزہ لے سکتا ہے۔ اپنی سماجی حیثیت کی بنا پر انتخابی کام یابی حاصل کرنے والے مختلف جماعتوں میں شامل "الیکٹ ایبلز" کے کردار اور شخصیت کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ مذہبی رہنماؤں کو قبائلی سرداروں کے مانند وراثت میں منصب مل جاتا ہے، امیر اور باثروت لوگ اپنی دولت کے بل پر قیادت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ سیاسی قیادت کا وارث ہونے کے لیے کوئی پیمانہ نہیں اس لیے کسی بھی خاندان، فرقے یا قبیلے میں بھائیوں، بہنوں اور بھتیجوں کی اجارہ داری رہتی ہے۔ اس لیے نظام اقتدار کی بہتری کے لیے کوئی تو پیمانہ متعین ہونا ہی چاہیے۔
حکومتی مناصب سے عادی جھوٹوں اور فریب کاروں کو دور رکھنے کے لیے افواج یا سی ایس ایس طرز کی کڑی جانچ پڑتال ضروری ہے۔ افواج پاکستان میں افراد کے انتخاب کے لیے متعین پیمانوں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ انٹر سروسز سلیکشن بورڈ (آئی ایس ایس بی) میں امیدواروں کی آئی کیو کو کمپیوٹر کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے ساتھ تجزیاتی سیشن کروائے جاتے ہیں جس میں مقررہ وقت کے اندر تحریری امتحان بھی دینا ہوتا ہے جس میں جملے مکمل کرنے، لفظ جوڑنے کی آزمائش اور تصاویر پر مختصر کہانیاں لکھوا کر زورتخیل کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
امیدواروں کو ایک مختصر نوٹ میں اپنی خوبیاں اور خامیاں بیان کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات امیدواروں کے ذاتی پس منظر اور ان آزمائشوں کی روشنی میں شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ فوج کے لیے مطلوب دیانت داری، جرات مندی، قائدانہ صلاحیت، عزم اور سنجیدگی کے پیمانوں پر پرکھنے کے بعد ہی انتخاب کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سی ایس ایس کے امیدواروں کو بھی کم و بیش انھی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی منفی انداز فکر یا نفسیاتی خلل رکھنے والے شخص کو انھی پیمانوں کی مدد سے ان شعبوں میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ قومی و صوبائی سطح پر نمایندگی کے خواہش مند افراد کے لیے بھی جانچ پرکھ کا ایسا ہی کوئی جامع نظام ہونا چاہیے تاکہ پاکستان میں کسی "ٹرمپ" کا اقتدار کے ایوانوں میں داخلہ ممکن نہ رہے۔
بدقسمتی سے ایسی جانچ پرکھ کے نظام نافذ ہونے کے باوجود اس میں فریب کاری کی راہیں موجود رہیں گی۔ اس کے لیے دیانت دار اور سیاسی طور پر غیر جانب دار افراد کا انتخاب ضروری ہوگا۔ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس مسئلے کو مزید محدود کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی جمہوریت میں نااہلی کے ایسے کسی فیصلے پر نظر ثانی کا راستہ موجود ہوتا ہے۔ پھر فوج یا سول سروس کے ضابطے "الیکٹ ایبلز" کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے پوری طرح موزوں نہیں ہیں۔ اس کے لیے مشتبہ معاملوں پر توجہ مرکوز کرنا ہی مناسب ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے ایک ماڈل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں ایسے کسی نظام کی ضرورت بہت زیادہ ہے کیوں کہ اس طرح ہمارے ہاں کتنے ہی عادی جھوٹے اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد سے نظام کی تطہیر ممکن ہوجائے گی۔ قانون محض کتابوں میں لکھی عبارت نہیں بلکہ اس کی حقیقی روح زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں ٹرمپ کی مثال سے عبرت پکڑتے ہوئے امریکا اور دنیا میں جمہوریت کی بقا کے لیے ایک قدم آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔)