بھارت 1947اور چین 1949میں آزاد ہوا۔ ان دونوں نومولود ریاستوں کے مابین 1962میں ایک غیر حل شدہ سرحدی تنازعے کے باعث جنگ ہوئی۔ ایک آسٹریلین صحافی، نیوائل میکسول جو دہلی میں نمایندہ خصوصی کے طور پر کام کررہے تھے انھیں اس جنگ میں بھارت کی شکست سے متعلق خفیہ معلومات تک براہ راست رسائی حاصل ہوئی۔ 1970میں ان کی کتاب "انڈیاز چائینا وار" شایع ہوئی جسے آج بھی 1962کی چین بھارت جنگ کے بارے میں حوالہ تسلیم کیاجاتا ہے۔ بھارت نے نہ تو ان حقائق کو کبھی تسلیم کیا اور نہ اس شکست سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی۔
چین بھارت سرحدی تنازعے کے تاریخی پس منظر اور موجودہ بھارت کے بارے میں باریک بینی سے تجزیے کے بعد میکسول نے کچھ نتائج اخذ کیے ہیں۔ ان کے مطابق رد عمل کی نفسیات رکھنے والا بھارت کا حکمران طبقہ خود کو برطانوی استعمار کا جاں نشین تصور کرتا ہے اس لیے اس نے اپنے ایک امن پسند پڑوسی ملک کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ بدترین صورت حال یہ ہے کہ آج بھی بھارت کا یہ چلن برقرار ہے۔
بھارتی فوج نے مشرق میں مک ماہن لائن عبور کی اور چین کے تبتی علاقے میں مداخلت کی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چین کی جانب بار بار مذاکرات اور دوطرفہ مفاہمت کی پیش کش کو ٹھکرایا۔ بھارت کا رویہ نہ صرف متکبرانہ تھا بلکہ غیر لچکدار بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت نے چین کے سامنے ان علاقوں پر اپنے دعوے سے دستبردار ہونے جیسی مضحکہ خیز شرط رکھی جہاں وہ مداخلت کا مرتکب ہوا تھا۔ اس اشتعال انگیزی کے جواب میں چین کے سرحدی گارڈز کو اپنے تحفظ کے لیے پیش قدمی کرنا پڑی اور 2ہزار میل کے علاقے سے بھارت کو مار بھگایا۔
اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو ردعمل کے شکار اس مقتدر طبقے کا حصہ تھے۔ یا کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جارحیت پسندوں کے مشوروں پر کان دھرا۔ دوسری جانب نہرو "بھارت چین بھائی بھائی" کا عوامی تاثر دیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی رائے بھی یہی تھی کہ بھارت برطانوی استعمار کی رخصت کے بعد اس کے زیر تسلط تمام علاقوں کا وارث ہے اور اسے وہ تمام علاقے حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی قوت ہندوستان میں پھیلتی رہی اور ہمالیائی خطے پر اپنا تسلط جمانے تک یہ توسیع جاری رہی۔ انیسویں صدی کے آخری نصف اور بیسویں صدی کے شروع سے برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں برصغیر کی حیثیت کا تعین اس خوف نے کیا کہ روس برطانوی ہندوستان کی سرحدوں تک پہنچ سکتا ہے، اسی لیے روسیوں کو ہندوستان سے دور رکھنے کے لیے کئی بفر زون بنائے گئے۔ اس کے ایک جانب برطانیہ سے دوستی رکھنے والے افغانستان کے فرماں روا کو مغرب میں رکھا گیا اور برطانوی ہند کے شمال مشرق میں بھی یہی حکمت عملی اختیار کی گئی۔
شمالی سرحدوں پر سکم اور بھوٹان وغیرہ جیسی چھوٹی ریاستوں اور جاگیروں کو برطانیہ نے افغانستان ہی کی طرح استعمال کیا۔ شمال مغرب اور شمال مشرق میں ایسی ریاستوں یا جاگیروں کا وجود نہیں تھا اس لیے وہاں برطانیہ نے چین کے ساتھ سرحدی معاملات طے کرنے کی کوشش کی۔ اس میں انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی اور انھی غیر حل شدہ مسائل نے بعدازاں بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعے کی شکل اختیار کرلی۔
میکسول نے ایک دل چسپ نکتہ بیان کیا ہے کہ ہمالیہ میں وجہ نزع بننے والے علاقے تک بھارت کے مقابلے میں چین کو بہ آسانی رسائی حاصل ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سرحدیں اس انداز سے ترتیب دینی چاہییں کہ ان علاقوں تک رسائی اور ان کا دفاع دونوں آسان ہوں۔ اس استدلال کو بنیاد بنایا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر تک بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی رسائی زیادہ آسان ہے۔ میکسول کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چین اور بھارت کے مابین متنازعہ سرحدی علاقوں کی آبادی اگرچہ بہت کم ہے لیکن یہاں بسنے والے لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے بھارت کے بجائے چین سے زیادہ قربت اور مطابقت رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پریہ دو علاقے متنازعہ ہیں۔ شمال مغرب میں اکسائی چن ہے جو چین کے خود مختار خطے شنجیانگ کا حصہ ہے۔
دوسری جانب مک ماہن لائن کے شمال کا علاقہ ہے جسے ماضی میں شمال مشرقی فرنٹیئر ایجنسی(نیفا) کہا جاتا تھا اور اب یہ اروناچل پردیش کہلاتا ہے۔ اپریل 2013میں بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) میں چینیوں نے اس کے زیر انتظام علاقے میں 19کلو میٹر پیش قدمی کرتے ہوئے دولت بیگ اولدی کے مقام پر کیمپ بنالیا ہے۔
دونوں ملکوں کی فوج نے اس علاقے میں دو بدو پڑاؤ ڈالے رکھا اور مئی میں دونوں افواج کے پیچھے ہٹنے سے کشیدگی ختم ہوئی۔ 2014میں ایل اے سی پر دونوں ممالک پھر اس وقت آمنے سامنے آئے جب سرحدی گاؤں دمچوک میں چینی شہریوں نے فوج کے تعاون سے بھارتی مزدوروں کے نہر تعمیر کرنے پر احتجاج کیا۔ 2017میں چین نے متنازعہ علاقے میں سڑک کی تعمیر شروع کی تو ڈوکالا وادی کے نزدیک ڈوکلام کے علاقے میں ایک بار پھر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔
اگست میں یہ کشیدگی بھی اس وقت ختم ہوئی جب بھوٹان نے چین کی حمایت کی اور بھارت نے یہ بیان جاری کیا کہ ڈوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک نے فوری طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رواں سال مئی کے آغاز سے دونوں ممالک پھر اسی خطے میں آمنے سامنے ہیں۔ فوجیوں کے مابین ہاتھا پائی کے بعد ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں دونوں ممالک کے مذاکرات ہوئے اور چین نے 60مربع کلو میٹر کا وہ علاقہ دوبارہ حاصل کرلیا جس پر کچھ عرصے پہلے بھارتی فوجی گشت کرنے لگے تھے۔ بظاہرتو اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ کا خطرہ ٹل گیا لیکن درپیش مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے یہ ضرور کہا ہے کہ ملاقات کے بعد اس علاقے میں دونوں ممالک کے اعلیٰ کمانڈرز نے تنازعے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے پر اتفاق کیا ہے تاہم یہ بیان سفارتی لیپا پوتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لداخ کی جس گلوان وادی پر بھارت اپنا حق جتاتا ہے وہ اب بھی چین ہی کے زیر انتظام ہے اور چینی فوج کسی صورت یہ علاقہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت صرف حقیقت سے نظریں چرا رہا ہے۔ استعماری دور کی جارحانہ پالیسوں کا زمانہ گزر چکا اور عالمی طاقتوں کے تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہوگئی۔
دوسری قوتوں کی طرح چین دنیا کی بادشاہی کا خواب بھی نہیں دیکھتا۔ بھارت کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ عالمگیریت کے اس عہد میں مسائل حل کرنے کے لیے مخالفین کا مؤقف سننا اور تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ممکن ہے کہ مودی کی حکومت اور بھارتی افواج چین کے خلاف میدان میں اترنے کی غلطی دہرانے سے گریز کریں لیکن بی جے پی اور نوکر شاہی کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس جنگ پسند سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری نے اپنی فوج کی طاقت کی دھاک بٹھانے کے لیے اپنے عوام کے دل و دماغ میں جو تصویر جمائی ہے، اس کے بعد بھارت میں خاص وعام چین کے خون کے پیاسے ہوئے بیٹھے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ وہ فلموں کی طرح حقیقت میں بھی چینیوں کو ان علاقوں سے اٹھا پھینکیں گے۔ لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ بھارت نے 1962 کی غلطی دہرائی تو اسے ایک بار پھرمنہ کی کھاناپڑے گی۔
(اکرام سہگل سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں جب کہ معاون مضمون نگار ڈاکٹر بیٹینا روبوٹکا برلن کی ہمبلوٹ یونیورسٹی کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سربراہ رہ چکی ہیں )