دنیا بدل رہی ہے، ایک نیا براعظم یوریشیا ہماری آنکھوں کے سامنے وجود میں آیا ہے۔ براعظموں کو "زمین کی مسلسل توسیع" سے تعبیر کیا جا رہا ہے، بندہ سوچ کر حیران ہوتا ہے کہ یورپ اور ایشیا (ایک بہت زیادہ مسلسل زمینی رقبہ ہوتے ہوئے) کو کیوں صدیوں سے دو الگ الگ براعظموں کے طور پر سمجھا گیا۔
ایک بڑی وجہ 18 ویں سے 19 ویں صدی تک کاعرصہ ہو سکتا ہے۔ یوریشیائی زمینی رقبے کا مغربی کنارہ اپنی نشاۃ ثانیہ، سائنسی اور صنعتی انقلابات کے ساتھ ایک بالکل مختلف موڑ لے رہا تھا، اور جدیدیت، اس معاشی، سماجی اور فکری ترتیب کو بنیادی طور پر بدلتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یورپ کو ایک الگ براعظم، سمجھا گیا۔
یورال پہاڑوں کو اس یورپ، اور ایشیا کے درمیان تقسیم کرنے والی لائن بنانا جغرافیہ دانوں کا ایک صوابدیدی فعل رہا ہے۔ 1904 کے اوائل میں ایک برطانوی جغرافیہ دان سر ہالفورڈ میکنڈر نے کہا کہ ان کی رائے میں یورپ اور ایشیا مستقبل میں "تاریخ کا محور" ہوں گے۔
اگرچہ میکنڈر پہلے مغربی سائنس دان تھے جنھوں نے یوریشیا کے تصور اور اس کے بے پناہ امکانات کا خیال پیش کیا، لیکن ہم یہ بھول رہے ہیں کہ روس صدیوں پہلے اپنا یوریشیائی تصور تیار کر چکا تھا اور اس سے کبھی دست بردار نہیں ہوا۔ سائبیریا میں پہلی مکمل روسی نوآبادیاتی مہم 1581 میں کوچم کے خلاف قازق یرماک کی مہم تھی۔
روسی 1639 تک بحر الکاہل تک پہنچ چکے تھے، تاہم شمالی امریکا میں برطانوی علاقوں کے برعکس، سائبیریا کو کالونی نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی روس نے نوآبادیاتی لائنز کے ساتھ اپنے علاقوں کو تقسیم کیا۔ یہ علاقہ ایک اور گورنریٹ کے طور پر توسیع پذیر روسی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا، اور مقامی اشرافیہ روسی ایڈمنسٹریٹو سسٹم میں ضم ہو گیا۔ 1891سے 1916 تک ٹرانس سائبیرین ریلوے کی تعمیر نے سائبیریا کو مغربی روس سے اور قریبی سے جوڑ دیا۔ روسیوں کے درمیان صدیوں سے تشکیل پانے والی والی سوچ میں مغربی روس اور سائبیریا متحد تھے، اور روسی شناخت اتنی ہی یورپی ہے جتنی ایشیائی – حقیقت میں یوریشین۔
یوریشین وژن کو حقیقت بننے میں ایک صدی سے زیادہ (دو عالمی جنگیں اور کمیونسٹ نظام کی شکست) کا عرصہ لگا۔ ان تمام واقعات نے، اگرچہ ان کے بعض پہلو منفی ہیں، عالمگیریت کے عمل کو بہت تیز کیا، جو کہ طاقت کی عالمی تقسیم کے ایک نئے مرحلے کی پیشگی شرط ہے۔
استعمار اور سامراج کے زیر اثر دنیا نے ایک غیر ترقی یافتہ اور زیادہ تر استحصال کی ماری "تیسری دنیا" تخلیق کی۔"دوسرے" نظام یعنی کمیونزم کے خاتمے نے دنیا کو ایک مختصر عرصے کے لیے دو قطبی سے یک قطبی بنا دیا۔ ہم اکیسویں صدی میں اب امریکا کے یک قطبیت کو ٹوٹتے ہوئے اور ایک نیا بین الاقوامی معاشی و سیاسی طاقت کے اشتراک کا نظام وجود میں آتے دیکھیں گے۔
جب یہ واضح ہو گیا کہ مغرب اور نیٹو خود کو روس کے اثر و رسوخ والے علاقے سے دور نہیں رکھیں گے، تو روس نے سلامتی اور معیشت کے لیے نئے اور متبادل بین الاقوامی شراکت داروں کی تلاش شروع کر دی۔ پہلی بار اس نے مشرق اور چین کی طرف دیکھنا شروع کیا، جو نئی آنے والی عالمی طاقت ہے۔
اگرچہ ماضی میں چین اور سوویت کے تعلقات ہمیشہ خراب رہے تھے، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہوئی جب چین اور روس کے درمیان مصالحت شروع ہوئی۔ دونوں ممالک نے 1992 میں اعلان کیا کہ وہ ایک "تعمیری شراکت داری" پر عمل پیرا ہیں اور 1996 میں دونوں ایک "اسٹرٹیجک پارٹنرشپ"کی طرف بڑھے۔ اور پھر 2001 میں انھوں نے "دوستی اور تعاون" کے معاہدے پر دستخط کیے۔
نئے عالمی نظام کے خد و خال پہلے ہی ظاہر ہو چکے ہیں۔ ان خد و خال میں یوریشیا کا اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے پر مبنی اقدام یعنی بی آر آئی (جو زیادہ تر زمین پر مبنی ہے) اور شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) جیسی ایک نئی سیاسی تنظیم شامل ہیں۔ اس تنظیم نے عالمی امور کو صحیح معنوں میں کثیرالجہتی، اور سب کو شامل کرنے کا ایک نیا طریقہ دکھایا۔ پاور شیئرنگ کا یہ نیا نظام چینی فلسفہ تیانکسیا سے متاثر ہے۔
تیانکسیا کا مطلب ہے "آسمان کے نیچے تمام زمین" اور چینی تاریخ میں اس کا منبع ملتا ہے۔ کلاسیکی چینی فلسفے میں تیانکسیا کا تصور تہذیب اور ترتیب سے گہرائی میں جڑا ہوا ہے، اور اسی نے کم از کم پہلی صدی قبل مسیح کے بعد سے چینی لوگوں اور ان سے متاثر ہونے والی اقوام کے عالمی نقطہ نظر کی بنیاد کی تشکیل کی ہے۔ آج "تیانکسیا" کا سب سے اہم معنی اخلاقیات اور سیاسی سائنس ہے۔
شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) 2001 میں قائم ہوئی، یہ یوریشیائی سیاسی، اقتصادی و سلامتی تنظیم ہے۔ ایس سی او چارٹر پر جون 2002 میں دستخط ہوئے، اور پھر یہ تنظیم 19 ستمبر 2003 کو ایک حقیقت بن گئی۔ اس چارٹر کے مطابق یہ تنظیم مساوی شراکت داروں کا ایک فورم ہے جو رکن ممالک کے درمیان اعتماد اور ہمسائیگی کے تعلقات کو مستحکم بناتا ہے، اور سیاست، تجارت، معیشت، ثقافت، تعلیم، توانائی، اور نقل و حمل کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دیتا ہے۔ آج اس نے سیکیورٹی سے متعلق معاملات اور اقتصادی تعاون پر اپنی توجہ کو اور بھی وسیع کر دیا ہے۔
2017 سے پاکستان اور بھارت سمیت اس کے آٹھ رکن ممالک ہیں، چار مبصر ریاستیں ہیں جن میں افغانستان، ایران، منگولیا اور بیلاروس شامل ہیں، اور چھ مذاکراتی شراکت دار ہیں جن میں ترکی، سری لنکا، نیپال، کمبوڈیا، آذربائیجان اور آرمینیا شامل ہیں۔ یہ اگر سب سے بڑی نہیں تو ایک مرکزی یوریشائی تنظیم ہے، جس نے مشترکہ حجم کو متحد کیا، اس کی رکنیت کی ایک اہمیت ہے، اس کی آبادی عالمی آبادی کا ایک تہائی ہے، اور یوریشیائی براعظم کے پانچ میں سے تین خطوں پر مشتمل ہے۔
یوریشیا کا معاشی طاقت کو جمع کرنے اور سیاسی طاقت کو دوبارہ منظم کرنے کا یہ تصور ایک عالمی سطح کی حکمت عملی ہے جو اقتصادی اور سیاسی ربط میں عالم گیریت کی معروضیت کو تسلیم کرتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نئی پیش رفت قومی ریاستوں کی اہمیت کو کمزور کر رہی ہے اور خطوں کی اہمیت اور ان کے ربط کو نمایاں کرتی ہے۔
اس مختلف منظرنامے میں کوئی یک قطبی دنیا یا متحدہ عالمی حکومت شامل نہیں، بلکہ کئی عالمی زون پیش کرتا ہے جو کہ بین الاقوامی سرحدوں والی قومی ریاستیں نہیں ہیں، بلکہ ایک کراس بارڈر اتحاد ہے، جسے براعظمی وفاق یا"جمہوری سلطنتوں " میں از سرنو منظم کیا گیا ہے۔ گلوبلائزیشن کے ایک متبادل یا کثیر قطبی ورژن کی صورت میں یہ یوریشین آئیڈیا فی الوقت ایک بڑے اور بنیادی گلوبل پرسیس کے طور پر عالم گیریت کو قبول کرتا ہے، ایسا پروسیس جو جدید تاریخ کی مرکزی سمت کا فیصلہ کرتا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)