اگرچہ کووڈ 19کی دوسری لہر سے عالمی معاشی بحران میں اضافہ ہوا، مگر رواں برس چین اور قازقستان کی سرحد پر واقع"قورغاس " کے ڈرائے پوٹ نے، جو چین کو وسطی ایشیا، روس اور یورپ سے جوڑتا ہے، غیرمتوقع اور شان دار نتائج دیے۔
اپنے آغاز کے فقط پانچ برس بعد، یعنی 6 اکتوبر 2020تک دس ہزار ٹرینیں یہ پورٹ کراس کر چکی تھیں۔ وبائی بحران کے باوجود مال برداری کے حجم کے لحاظ سے رواں برس نئے ریکارڈز قائم ہوئے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق جنوری سے ستمبر تک، قورغاس میں 3243 ٹرینوں سے 4.7 ملین ٹن سے زائد حجم کا تجارتی سامان لایا گیا۔ یہ 2019 کے مقابلے میں 32 فی صد زائد ہے۔
یہ ثابت کرتا ہے کہ Belt and Road Initiative فقط ایک تصور نہیں، بلکہ ایشیا کے مشرق سے یورپ کے مغرب تک پھیلی ایک عملی حقیقت ہے۔ اورسی پیک شمال سے جنوب تک اس کی اہمیت میں اضافہ کرنے والا عنصر، جو چین اوروسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے مڈل ایسٹ اور شمالی افریقا سے جوڑتا ہے۔
ٹرینوں سے ہونے والی مال بردار ی تیز رفتار، مگر انتہائی مہنگے ہوائی راستے کا متبادل ہے۔ سمندری راستہ گو سستا ہے، مگر یہ خاصا وقت لیتا ہے۔ چینی ٹرمینل سے یورپی ٹرمینل تک، ایئرلفٹ کے ذریعے تجارتی سامان منتقل کرنے میں پانچ سے نو دن لگتے ہیں۔ ٹرین کا ون وے ٹرپ15سے18دن پر محیط ہوتا ہے۔ البتہ سمندری راستے سے یہ عمل37 سے50 دن میں مکمل ہوتا ہے۔
ریل ٹرانسپورٹ مہنگی اشیاء کے لیے موثر ہے۔ بحری سفر کی طوالت کے باعث کلائنٹس کو اضافی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ معاشی تناظر میں پروڈکشن سے مارکیٹ تک کاسفر 45 سے 50 دنوں کے بجائے فقط دو ہفتوں پر محیط ہونا سودمند ہے۔
ماحولیاتی نقطہ نگاہ سے بھی یہ ایک سازگار متبادل ہے۔ کیوں کہ ٹرینیں ہوائی جہاز اور ٹرکوں کے مقابلے میں کم کاربن کا اخراج کرتی ہیں۔ Fujitsu and Siemensکے مطابق ان کی چین اور جرمنی کے درمیان چلنے والی گرین ٹرینیں جہازوں کے مقابلے میں 95فی صد کم کاربن مونو آکسائیڈ، نان میتھین ہائیڈرو کاربن اور نائٹروجن آکسائیڈ فضا میں خارج کرتی ہیں۔
یورپ سے، اقتصادی طور پر نزدیک ہونے کے لیے چین کچھ عرصے سے اپنی شمال مغربی مینی فیکچرنگ سہولیاتrelocatکر رہا ہے۔ اسی طرح جنوب مغرب (صوبہ سنکیانگ) کو تیزی سے ترقی دی جارہی ہے۔ اب سے گیارہ برس قبل6 اکتوبر 2008کو پہلی ٹرین چین سے ہیمبرگ (جرمنی) روانہ ہوئی تھی۔ چینی صوبے ہونان کے شہر شیانگتان سے شروع ہونے والا یہ سفر 17دن پر محیط تھا۔
چین سے یورپ جانے والی اس ریل سروس کو 2011 میں روس، قازقستان اور بیلاروس کی تجارتی یونین کی تشکیل سے بڑی تقویت ملی۔ ان ریاستوں کی سرحدوں پر کسٹم کلیئرنس کے عمل کے خاتمے سے دستاویزات اور رسد پر آنے والے اخراجات میں واضح کمی آئی اور چین سے یورپ تک تجارتی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا۔ چینی ریلوے کے اعدا د و شمار کے مطابق چین یورپ مال بردار ٹرینوں میں اگست 2020 میں واضح بڑھوتی ہوئی۔
ماہانہ 1247 ٹرینوں کی تعداد ایک متاثر کن ریکارڈ ہے۔ 2019 کے مقابلے میں یہ 62 فی صد اضافہ ہے۔ ماہ اگست، سال بہ سال جائزے میں، تجارتی حجم میں ڈبل ڈیجیٹ کی بڑھوتی کا متواتر چھٹا مہینہ تھا۔ 2020کے پہلے چھ ماہ میں 7601 مال بردار ٹرینیں یا یوں کہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 44فی صد اضافی ٹرینوں نے یہ سفر طے کیا۔
"ویسٹ باؤنڈ ٹرانس کونٹی نینٹل ٹرینیں "ہر گھنٹے بعد یورپ سے اپنی منزل کی سمت روانہ ہوتی ہیں، جب کہ ایسٹ باؤنڈ ٹرینیں ہر دو گھنٹے بعد چین کی سمت سفر شروع کرتی ہیں۔ اگست 2020 میں ریل شپنگ حجم میں، گزشتہ برس کے مقابلے میں، 66فی صد اضافہ ہوا، جو گیارہ لاکھ تین ہزار TEUs (Twenty-foot equivalent unit:کارگو گنجایش کی اکائی)تک جاپہنچا۔ اس برس کنٹینرز کا حجم شاید دس لاکھ TEUs کو چھو لے۔
اگر آج ہم اِس روٹ پر مال برداری کے انتظامات پر نظر ڈالیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرینوں کی دو تہائی تعداد مغرب، جب کہ صرف ایک تہائی مشرق( چین) کی سمت جاتی ہیں۔ اِس صورت حال میں فوری تبدیلی تو متوقع نہیں۔ البتہ چینی کھپت میں تیزی سے اضافہ مثبت ترین پیش رفت ہے۔ صارفیت میں اضافہ اعلیٰ معیار کے یورپی سامان کی اضافی طلب پیدا کرے گا۔
یورپ میں ترسیل کو فروغ دینے کے لیے بیش تر چینی صوبوں نے اپنے علاقائی ریل نرخوں میں کمی کر دی ہے۔ یورپ کے ساتھ تعلقات کی پائیدار ترقی کومارکیٹ کے میکنزم سے جوڑنے کی ضرورت ہے، سبسڈی کی حد مقرر کرنا لازم ہے۔
چینی میڈیا کے دعوؤں کے مطابق ان سبسڈیز میں بتدریج کمی لائی جائے گی۔ یورپ جانے والے تجارتی سامان پر 2018 میں 50 فی صد سبسڈی دی جارہی تھی، جو اگلے برس کم ہو کر 40 فی صد ہوگئی، جب کہ اس سال یہ 30 فی صد ہے۔ انتظامیہ کو توقع ہے کہ 2022 تک ہر قسم کی سبسڈی ختم کر دی جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق ریل ٹریفک کے حجم کو حکومتی تعاون ختم کرنے کے لیے 1.5ملین TEUsتک پہنچنا ہوگا۔
چین یورپ کی درمیان چلنے والی اِس تجارتی ریل ٹریفک کے بڑھتے حجم کے پیش نظر اس کے مستقبل کا مطالعہ ایک فطری عمل ہے۔ ہمیں اس روٹ سے جڑے ان عوامل کو سمجھنا ہوگا، جن کی وجہ سے مستقبل میں ٹریفک میں اضافہ متوقع ہے۔ ماہرین دو چیلنجز کا ذکر کرتے ہیں۔ پہلا: چین تایورپ اور یورپ تا چین کارگو حجم میں کیسے توازن پیدا کیا جائے؟ دوسرا: بیلا روس۔ پولش کی بارڈر کراسنگ کی محدودیت کو کیسے موثر بنایا جائے؟
جہاں تک پولش بارڈرکا تعلق ہے، چین یورپ ریلوے روٹس کے نقشے سے انداز ہوتا ہے کہ عملی طور پر تمام ٹرینیں بیلا روس کے سرحدی شہر بریسٹ اور پولینڈ کے شہر ماوا شویچا Malaszewiczeکے چیک پوائنٹ سے گزرتی ہیں، کیوں کہ روس سیاسی وجوہات کے سبب یوکرائن کا روٹ استعمال کرنے سے اجتناب کر رہا ہے۔
یہ صورت حال مستقبل قریب تک برقرار رہے گی۔ گو یہ عجیب لگتا ہے، مگر حقیقت ہے کہ یورپین یونین کے ممالک کو اپنے ریلوے نیٹ ورکاور کارگو ہینڈلنگ، دونوں ہی میں مشکلات درپیش ہیں۔ انداز ہوتا ہے کہ یورپی ریلوے نیٹ ورک کا بڑا حصہ متروک ہے اوراس میں کئی رکاوٹیں ہیں، جس کی وجہ اس کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔ لوجسٹک مسائل کی وجہ سے بیلا روس۔ پولینڈ سرحد پر موجود Malaszewicze چین یورپی روٹ میں ایک تنگ راستہ(bottleneck) بن جاتا ہے۔
ایک عام روسی ٹرین میں 71 ویگن یا بوگیاں ہوتی ہیں، جب کہ بیلا روس کی ٹرین میں یہ تعداد 57 سے 65 کے درمیان ہے۔ البتہ یورپین یونین کے قوانین ٹرین کی لمبائی 43 ویگنوں تک محدود کرتے ہیں۔ یعنی پولش شہر Malaszewicze سے یورپ میں داخل ہونے والی ٹرینوں میں 43 سے زائد بوگیاں نہیں ہونی چاہییں۔ تو جب ٹرین پولینڈ کی سرحد کے قریب پہنچتی ہے، تو اسے بریسٹ میں کھول کر 43ویگنوں تک محدود کیا جاتا ہے۔ سامان ان ہی 43 بوگیوں کے ذریعے آگے جاتا ہے، باقی بوگیوں کو اگلی ٹرین کاانتظار کرنا پڑتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کنٹینرز کی مقدار یا حجم مستقبل میں مزید بڑھے گا۔ یوریشین ڈیلویلپمنٹ بینک کے ماہرین کا، موجودہ بنیادی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے یہ تخمینہ ہے کہ چین تا یورپ ریل سے ہونے والی تجارت کا حجم دو ملین TEUs سالانہ تک جا پہنچے گا۔
اس کے بعد یہ طرز تجارت عملی اور سودمند صورت اختیار کر جائے گا اورمال گاڑیوں کا حجم بڑھانے کے لیے ہمیں کم اخراجات کی ضرورت ہوگی۔ البتہ اس ضمن میں انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری، ٹرانسپورٹ اور لوجسٹک سینٹرز کی تعمیر، بارڈر کراسنگ کے عمل کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اسمارٹ کنٹریکٹ ٹیکنالوجی کے ساتھ دستاویزات کوڈیجیٹلائز کرنا، ریگولیٹری قانونی فریم ورک کو معیاری بنانا، شراکت داروں کے درمیان مال برداری کی شرح کو زیادہ موثر انداز میں ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ یقین کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ یوریشین ریلوے انقلاب مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ نئی شاہراہ ریشم کی تعمیر جاری و ساری ہے۔ مندرجہ بالا تکنیکی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ موجودہ روٹس کی وسعت اور نئے روٹس کی تعمیر، بالخصوص چین سے یورپ ازبکستان، ترکمانستان اور کرغزستان سے گزرتا مختصر جنوبی روٹ اِس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
پاکستان کو اس ریلوے نظام کی کامیابی کا مطالعہ کرتے ہوئے خود کو اِس سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ پشاور کراچی ریل لنک کو اپ گریڈ کرنا کافی نہیں۔ ہمیں نئے روٹس بھی تلاش کرنے ہوں گے۔ جیسے1:بلوچستان کی ساحلی پٹی، جس سے پس ماندہ علاقوں کو ترقی ملے، 2:گوادر قندھار ریل کوریڈور، تاکہ ہم وسطی ایشیا سے جڑ سکیں، 3:انڈس کے مغربی کنارے پر ایک متبادل روڈ کی تعمیر، جس سے قومی سیکیورٹی کا مفہوم وابستہ ہے۔
خانہ جنگی کے بعد امریکی ریاست نے ریل کو، بڑے مغربی علاقے کے لیے، تجارتی بنیاد پر استعمال کرکے ہی تیز ی سے ترقی کی تھی۔ اس جدید دور میں ایک تجارتی جست کے لیے ہمیں سوچ کے نئے ڈھب اختیار کرنے ہوں گے، کیوں کہ ہمیں ایک "Revolution in Rail Affairs" (RRA) کی ضرورت ہے۔
(فاضل کالم نگارسیکیورٹی اوردفاعی امور کے تجزیہ کار اور ماہر ہیں۔ )