حضرت خالد بن ولید ؓ کا تعلق قریش کے ایک نمایاں خانوادے سے تھا۔ ابتدا ہی سے ان کی شناخت ایک جرأت مند اور زیرک سپاہی کی تھی۔
قبول اسلام سے قبل مسلمانوں کے خلاف میدان اُحد میں وہ قریش کے گھڑ سواروں کے دو دستوں میں سے ایک کی سربراہی کر رہے تھے، جب کہ دوسرا دستہ عکرمہ کی سربراہی میں تھا۔ اُحد میں جب لشکر اسلام کے تابڑ توڑ حملے کے سامنے قریش کی پیادہ فوج کے قدم اکھڑ رہے تھے تو خالد دور سے میدان کا جائزہ لے رہے تھے اور موقعے کی تلاش میں تھے۔
اسی وقت اس جنگی حکمت کار کی نگاہوں نے دیکھا کہ عقب میں گھاٹی سے مسلمانوں کے تیر انداز میدان میں اپنی برتری دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن چھوڑ گئے ہیں۔ نبیﷺ نے ان تیر اندازوں کو اس مقام پر جمے رہنے کی تاکید کی تھی لیکن یہاں موجود چند تیر اندازوں کے علاوہ دیگر اس فرمان سے روگردانی کے مرتکب ہوئے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو میدان میں پہلی مرتبہ پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت خالدؓ جنگی حکمت عملی کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے اور قبول اسلام کے بعد کئی جنگوں میں وہ اسلامی لشکر کی برتری کا سبب بنے۔
خالدؓ بن ولید حضرت عمر کے قرابت دار اور بچپن کے دوست تھے۔ قریش نے جب اپنے اتحادیوں کے ساتھ تیسری مرتبہ مدینہ کے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں جنگِ خندق کا معرکہ ہوا تو رسول اکرمﷺ کی جنگی حکمت کے سامنے عددی برتری ہونے کے باجود قریش کو شکست ہوتے دیکھ کر ان کا دل اسلام کی جانب مائل ہوا۔ غور و فکر کے بعد اہلِ قبیلہ کے سخت ردعمل کے خدشات کے باوجود انھوں نے اپنے دل کی آواز سنی اور 31 مئی 629 عیسوی کو نبیﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کر لی۔
ایک جنگی حکمت کار کے طور پر حضرت خالدؓ تاریخِ اسلام کی بے بدل شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس دور میں جنگی سالار صرف اپنی ذہانت ہی سے منصب پر قائم نہیں رہتے تھے بلکہ انھیں قوتِ بازو سے حریفوں کو زیر کرنا ہوتا تھا۔ کئی جنگیں صرف میدان میں اتارے گئے سورماؤں کے بل پر جیتی جاتی تھیں کئی میں اسی بنا پر شکست ہو جایا کرتی تھی۔ حضرت خالدؓ کئی جنگوں میں شدید زخمی ہوئے۔ حنین کے بعد شدید زخموں کی پروا کیے بغیر حضرت خالدؓ نے بنو سلیم پربرتری حاصل کی۔
حضرت خالدؓ کا شمار عشرۂ مبشرہ اور سابقون الاولون میں نہیں ہوتا۔ تاہم ان کی جنگی مہارت کی بنا پر انھیں کئی مہمات میں اہم ذمے داریاں سونپی گئیں۔ موتہ میں انھوں نے سالار لشکر کی شہادت کے بعد کمان سنبھالی اور ایک خونیں شکست سے لشکر کو بچا کر واپس لائے۔ یہ مسلمانوں کی کسی جنگ سے پسپائی اختیار کرنے کی پہلی مثال تھی اس لیے اکثر مسلمان اس حکمت عملی سے ناخوش تھے، لیکن رسولﷺ نے حضرت خالد ؓ کوسیف اﷲ کا لقب عطا فرما کر اس حکمت عملی کی تائید فرمائی۔ نبی اکرمﷺکے مقرب اصحابؓ نے بخوشی حضرت خالدؓ کی سربراہی میں کئی معرکوں میں شرکت کی۔
نبی اکرمﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اپنے تشکیل دیے گئے 11بڑے دستوں میں سے حضرت خالدؓ کو سب سے اہم اور بڑے لشکر کا سالار مقرر کیا اور اسلام کے خلاف منظم ہونے والی قوتوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔
حضرت ابو بکرؓ کی رحلت کے بعد حضرت عمر ؓ خلیفہ بنے۔ حضرت عمرؓ نے بوجوہ حضرت خالدؓ کی تنزلی کرکے انھیں کمانڈر سے ایک عام سپاہی بنا دیا تھا۔ اس حوالے سے کئی چہ مہ گوئیاں ہوتی ہیں لیکن حضرت عمر ؓ ایک مثال بھی قائم کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا تھا کہ ان کی جنگی کامیابیاں حضرت خالدؓ کی مرہون منت ہیں، اس تصور کی اصلاح کے لیے بھی حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کیا۔ حضرت خالدؓ اپنی جگہ کمانڈر بننے والے ابو عبیدہ الجراح ؓ کے ساتھ خدمات انجام دینے لگے۔
بازنطینی سلطنت کی افواج کا سامنا یرموک کے مقام پر مسلمانوں سے ہوا۔ بازنطینی فوج مکمل طور پر مسلح 2لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھی اور مسلمانوں کی تعداد ان سے 8کے مقابلے میں ایک بنتی تھی۔ حضرت ابو عبیدہؓ کو اندازہ ہوگیا کہ ان حالات کا وہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انھوں نے بلا جھجک سپہ سالار کی ذمے داریاں حضرت خالدؓ کے سپرد کردیں۔ حضرت خالدؓ نے مسلمان فوج کی از سر نو صف بندی کی اور گھڑ سواروں کو ایک طرف رکھا۔ دریائے یرموک کے نزدیک یہ لڑائی اگست 636ء کے چھے دنوں تک جاری رہی۔ یہ مقام اب شام و اردن اور شام و اسرائیل کی سرحد کے پاس بحر جلیلی کے مشرق میں واقع ہے۔
چھٹے دن حضرت خالد نے حضرت ضرار کی قیادت میں گھڑ سواروں کا حملہ شروع کروایا۔ یہ ایک فیصلہ کُن فتح ثابت ہوئی جس نے شام سے بازنطینی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مسلمانوں کی اس عظیم کامیابی کا سہرا حضرت خالد ؓ کے سر ہے۔ میجر جنرل جے ایف سی فلر نے اپنی کتاب میں اسے جنگی حکمت عملی کی اعلیٰ مثال قرار دیا ہے۔ حضرت خالد ؓ نے ان حالات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا ایک بار پھر منوایا اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابو عبیدہؓ کی بصیرت کا اعتراف کرنا بھی لازم ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھی کی جنگی صلاحیتوں کا درست وقت پر ادراک کرکے صرف مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ان کے حق میں ذمے داری سے دست بردار ہوگئے۔
کیا ہمارے سیاست دان کبھی اس تاریخ سے سبق حاصل کریں گے؟ حضرت عمرؓ نے بھی کمان کی اس تبدیلی پر حضرت ابو عبیدہؓ کی کوئی سرزنش نہیں کی۔ بلکہ اس کے بعد کسی شہر کے فتح ہونے تک حضرت خالد کو فوج کی کمان دی جاتی اور کام یابی کے بعد حضرت ابو عبیدہ قیدیوں اور مال غنیمت کی نگرانی کرتے تھے۔ جنگ یرموک میں جہاں حضرت خالدؓ کی جنگی مہارت ثابت ہوئی وہیں حضرت ابو عبیدہ ؓ نے جس طرح وقت کی نزاکت کو بھانپ کر بروقت قیادت ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اس نے بھی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔
حضرت خالدؓ بن ولید نے 41بڑی جنگوں میں شرکت کی۔ 15سال وہ میدان میں رہے اور اپنی زندگی کے صرف آخری سات برسوں میں 35معرکوں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے کسی عہدہ و منصب کے بغیر بھی اپنے فرض کی ادائیگی اور نظم و نسق کی پابندی کی ایک ایسی روشن مثال قائم کی ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
ہماری فوج کی طاقت بھی اسی نظم و ضبط کی بنیاد پر قائم ہے۔ ملک کے قیام کے ساتھ ہی ہم نے اس کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن آج کچھ عناصر اس ادارے کی جڑیں کمزور کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے بعض سادہ لوح لوگ ایسے عناصر کے آلہ کار بن گئے ہیں۔ ہمارے ملک کو انیسویں صدی کے اواخر کے جرمنی کی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ جب تک نظم و ضبط کو ہر شے پر ترجیح دینے کے لیے حضرت خالدؓجیسی مثال ہمارے پیش نظر رہے گی، کوئی اس ملک کی جانب میلی نگاہ بھی نہیں اٹھا سکتا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ )