کئی ممالک کے لیے اگست میں طالبان کا دوبارہ برسرِ اقتدار آنا حیرت کا باعث ہوگا اور اسی لیے انھیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ موجودہ صورتِ حال میں کیا طرز عمل اختیار کریں۔
خطے میں خرابی کی روک تھام کے لیے چین، روس اور پاکستان نے افغانستان کی صورت حال پر ایک مربوط ردعمل ظاہر کیا جس کی تصدیق حال ہی میں روسی وزیرِ خارجہ لاوروف نے بھی کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائنز میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ چین، پاکستان اور امریکا افغانستان کے معاملے پر ایک صفحے پر ہیں۔
افغانستان میں پیدا ہونے والی بے یقینی کی صورتِ حال نے پاکستان کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کی از نو تشکیل کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ افغانستان میں امریکا کی مہم جوئی میں پاکستان کو بطور شراکت دار تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان خود متاثرین میں شمار ہوتاہے۔ خطے میں تعاون بڑھانے کی وجہ سے اسے مزید مشکلات کا سامنا ہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں سفارت کاروں سے ملاقات میں مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سبھی افغانستان کی صورت حال میں مدد فراہم کرنے پر پاکستان کی حکومت کے معترف تھے۔ اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، کے پی کے اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کی تعریف سننے کو ملی۔
اکثر سفارت کاروں نے اعتراف کیا کہ پاکستانی حکام چوبیس گھنٹے مستعدی کے ساتھ مدد فراہم کرتے رہے۔ سرحد کی دونوں جانب پختون آبادی اور لینڈ لاک ملک ہونے کی وجہ سے افغانستان پاکستان پر منحصر ہے۔ جغرافیائی اور تاریخی حقائق کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کا مستقبل جس طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہے اس کی خطے میں دوسری مثال نہیں ہے۔ اس لیے ہم افغانستان میں پیدا ہونے والی کسی ممکنہ کشیدگی یا خلفشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
سی پیک کی وجہ سے ہم چین کے قریب ہوئے تو ادھر روس اور چین دونوں ہی کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں کشیدگی بڑھنے لگی۔ اس صورت حال نے پاکستان کے لیے کئی آپشن پیدا کردیے ہیں جن کے بارے میں دوبرس قبل سوچنا بھی محال تھا۔ اس کے علاہ چین کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات نے ہماری خود اعتمادی میں بھی اضافہ کیا۔ اس کی وجہ سے امریکا پر ہمارے انحصار میں بتدریج کمی ہوگی اور خطے کی بدلتی صورت حال میں ہمارا کردار ایک بار پھر اہم ہوجائے گا۔
افغانستان کی طویل ترین جنگ میں امریکا کی معیشت اور سماج بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ افغانستان میں ناکامی پر امریکیوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ طالبان کے ساتھ ٹرمپ کے مذاکرات نے امریکا کو افغانستان سے محفوظ راستہ فراہم کیا۔ ان مذاکرات سے طالبان صرف جنگ جو گروہ نہیں رہے بلکہ ان کی سیاسی حیثیت کو بھی تسلیم کرلیا گیا۔
بائیڈن نے افغانستان سے انخلا کو مئی سے ستمبر 2021ء تک موخر کیا۔ اس عرصے میں طالبان نے افغان نیشنل آرمی کی نااہلی کا فائدہ اٹھایا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ اپنے ہم وطنوں سے لڑائی کی وجہ سے افغان فوج کے حوصلے پست ہوتے گئے اور انھیں امریکا کے انخلا کے ساتھ اپنی تنخواہیں بھی ہاتھ سے جاتی نظر آرہی تھیں۔ طالبان نے افغان فوج کو پرامن طریقے سے ہتھیاروں کی حوالگی اور جنگ سے دست برداری پر مائل کیا۔
طالبان امریکا سے ہونے والے معاہدے کے بل پر کابل میں داخل نہیں ہوئے البتہ جب اشرف غنی اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدے داروں نے فرار کا راستہ اختیار کیا تو امریکا نے امن و امان خراب ہونے سے بچانے کے لیے شہر کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ طالبان ایک بھی گولی چلائے بغیر دارالحکومت میں داخل ہوگئے۔ میڈیا میں ہونے والی کڑی تنقید کے باوجود حالات و عواقب کاجائزہ لیتے ہوئے امریکا نے طالبان سے کسی تصادم کے بغیر کام یابی سے انخلا مکمل کیا۔
نیٹو اور یورپ افغانستان میں امریکا کی جانب دیکھتے تھے لیکن امریکا نے تنہا فیصلے کیے اور جس پر ان اتحادیوں میں سخت غصہ بھی پیدا ہوا۔ حال ہی میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ ہونے والے دفاعی سودوں میں امریکا نے فرانس کو اندھیرے میں رکھا۔ یہ چین سے متعلق ان ممالک کی پالیسیوں میں بھی ایک بڑی تبدیلی تھی۔ ان اقدامات کے بعد نیٹو میں امریکا کے بغیر یورپی سلامتی کے لیے اقدامات کی پالیسی از نو تشکیل دینے کا رجحان نظر آتا ہے۔
افغانستان میں قیام امن خطے کے تمام ممالک کی اولین ترجیح ہے جس کی وجہ سے حکومت میں تمام افغان فریقین کی شرکت توجہ کا محور بنی ہوئی ہے۔ عالمی قوتیں خواتین کو نظامِ حکومت کا حصہ دیکھنا چاہتی ہیں۔ غیر ملکی تسلط کے بیس برس کے دوران افغانستان کے شہری علاقوں میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بے پناہ کوششیں کی گئی ہیں۔ اس لیے یہ خواتین سے متعلق شہری و دیہی تصورات کا تصادم ہوگا۔
یہ مسائل پوری افغان آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان مرکزیت رکھنے والا گروپ نہیں بلکہ اس میں کئی گروہ شامل ہیں۔ ان گروپس میں خواتین کے سیاسی و سماجی کردار سے متعلق اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے۔ پھر ایک قبائلی معاشرے میں جہاں صدیوں سے خواتین محدود رہی ہیں فوری طور پر تبدیلیاں اتنی بہ آسانی قابل قبول نہیں ہوں گی۔ رویوں کو بدلنے میں دیر تو لگتی ہے۔
کسی بھی سوسائٹی کو بدلنے میں وقت لگا ہے لیکن وقت نہ طالبان کے پاس ہے اور نہ ہی دنیا کے پاس۔ تمام فریقوں کی نمایندگی اور شرکت افغانستان میں استحکام کی کلید ہے لیکن اس کی جانب بتدریج بڑھنا چاہیے۔ مطالبات پر اصرار سے تو کایا کلپ نہیں ہوجائے گی۔ بات ماننا پڑے گی کہ طالبان نے کسی بڑے خون خرابے کے بغیر افغانستان پر اقتدار حاصل کیا ہے۔
طالبان حکومت نے سبھی پڑوسیوں کو یقین دہانی کرائی ہے وہ کسی پر حملہ نہیں کریں گے اور نہ ہی رقبے یا سرحدوں سے متعلق کوئی دعویٰ رکھتے ہیں۔ یہ عندیہ پاکستان کے لیے خوش آیند ہے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کے قضیے کا بھی حل کرلینا چاہیے۔ حال ہی میں امریکا نے اقوام متحدہ میں یقین دلایا ہے کہ افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کی اجازت برقرا رکھی جائے۔ یہ درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
ہمیں افغانستان سے متعلق توقعات یا ان کے ماضی کے فیصلوں کی وجہ سے ان کی مخالفت دونوں ہی میں توازن برقرار رکھنا چاہیے۔ طالبان کی کابل واپسی کے بعد انسانی حقوق کا ایسا واویلا کیا گیا جس کی وجہ سے ہنر مند اور پیشہ ورانہ مہارتیں رکھنے والے گھبرا کر ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو افغانستان کی تعمیرِ نو کیسے ہوگی۔
ایسے افراد جو ملک چھوڑنے میں کام یاب رہے ہیں انھیں بھی افریقہ جیسے کسی ملک میں بیٹھ کر مدتوں ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بننے کے لیے ویزے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ویزا اور رہائش کی اجازت ملنے کے باوجود ملک چھوڑنے والے یہ افغان ان معاشروں میں سب کی نگاہوں میں ہوں گے جہاں یہ ترک وطن کرکے جارہے ہیں۔ پناہ دینے والے ممالک میں انھیں اپنی مہارت اور قابلیت سے کم درجے کی ملازمتیں بھی کرنا پڑیں گی۔
جرمنی میں اشرف غنی کی حکومت کے ایک وزیر کی پزا ڈیلیوری کرنے کی ویڈیوز تو سامنے آہی چکی ہیں۔ طالبان اس حد تک تو تبدیل ہوئے ہیں کہ انھوں نے مذاکرات کے بعد انخلا میں امن برقرار رکھنے کا وعدہ پورا کیا ہے۔ کچھ کمی بیشی کے ساتھ وہ آیندہ بھی اپنا یہ کردار برقرار رکھ سکتے ہیں۔
طالبان سے انسانی حقوق کے جس مغربی تصور کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ان میں سے بہت سے خیالات و افکار افغانستان کی ثقافتی روایات سے متصادم ہے۔ اس لیے ان پر اصرار کرتے رہنے اور طالبان کے ساتھ تعلقات کو ان سے مشروط کرنے کے بجائے پہلے افغانستان میں انسانی جانوں اور زندگی سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت بہت کم ہے اور پاکستان سے زیادہ ان کا ادراک خطے میں کوئی اور نہیں رکھتا۔
(کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کونسل فور فارن افیئرز کے چیئرمین اور قائد ہاؤس میوزیم میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ کے بورڈ آف مینجمنٹ کے نائب چیئرمین بھی ہیں۔)