مہر گڑھ سنگی دور (Stone Age)کی ایک معروف آثاریاتی سائٹ ہے، جو موجودہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بولان پاس کے دامن میں واقع ہے۔ مہر گڑھ شمال مغربی برصغیرکی قدیم ترین Neolithicسائٹ تصور کی جاتی ہے، جہاں کاشت کاری (گندم اور جو)، چرواہوں (مویشی، بھیڑ اور بکریاں) اور دھات کاری کے ابتدائی ثبوت ملتے ہیں۔
اس کا زمانہ تقریباً 7000 سے 2600 قبل مسیح ہے۔ یہ تاریخی سائٹ موجودہ افغانستان اور وادی سندھ کی درمیانی راہ گزر پر واقع ہے۔ یہ راستہ مشرق وسطی اور برصغیر کے درمیان ہزار سال قبل قائم ہونے والے تجارتی رابطے کا مستند حوالہ ہے۔
معروف ماہر آثار قدیمہ ژاں فرانکوئس پاکستان کے محکمہ آثاریات کی مدد سے 1975 تا 1985 ابتدائی کھدائی کرنے کے بعد1997 میں مہرگڑھ واپس آئے۔ اس بار کھدائی کا سلسلہ 2000 تک جاری رہا۔ آثاریاتی مواد چھ ٹیلوں میں پایا گیاتھا۔ اس مقام سے تقریباً 32، 000 نمونے اکٹھے کیے گئے۔ مہر گڑھ میں سب سے قدیم بستی 7000تا 5500 قبل مسیح کا ایک چھوٹا سا زرعی گاؤں تھا۔
یہ گاؤں495 ایکڑ پر محیط سائٹ کے شمال مشرقی کونے میں واقع تھا۔ ان نتائج کی بنیاد پر یہ تصور جنم لیتا ہے کہ مہر گڑھ جنوبی ایشیا کے ان قدیم ترین آثاریاتی مقامات میں سے ایک ہے، جہاں سے ہمیں کھیتی باڑی اور گلہ بانی کے شواہد ملتے ہیں۔ یہ بستی موئن جو دڑو سے قدیم ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب مہرگڑھ تہذیب کا خاتمہ ہوا، تو اس کے باسیوں نے سندھ کی طرف ہجرت کی اور انڈس تہذیب کی بنیاد رکھی۔
ماہرین آثاریات مہر گڑھ کے زمانے کو آٹھ ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ مہر گڑھ کا دور اول (7000 قبل مسیح تا 5500 قبل مسیح) نیا سنگی دور تھا، جہاں ابھی مٹی کے برتنوں کا استعمال رائج نہیں ہوا تھا۔ اس علاقے میں اولین کاشت کاری نیم خانہ بدوش افراد نے شروع کی۔ وہ گندم اور جو جیسی فصلیں کاشت کرتے اور بھیڑ، بکریاں اور مویشی پالا کرتے تھے۔
یہ بستی کچی اینٹوں سے بنی عمارتوں پر مشتمل تھی، جن میں سے بیش تر چار ذیلی حصوں میں منقسم تھیں۔ یہاں سے مختلف نوعیت کے مدفن ملے ہیں، جن میں ساز و سامان جیسے ٹوکریاں، پتھر اور ہڈیوں کے اوزار، چوڑیاں، لاکٹ، اور کبھی کبھار جانوروں کی قربانی اور مردوں کی تدفین کی باقیات بھی ملتی ہیں۔ عورتوں اور جانوروں کے سادہ مجسموں کے علاوہ یہاں سے سمندری خول، چونا پتھر، فیروزہ، سنگ لاجودر اور پتھر کے زیورات بھی ملے ہیں۔ دور درازکے ساحلوں سے آنے والے خول اور موجودہ بدخشاں (افغانستان) جتنے فاصلے سے آنے والے سنگ لاجودر کی موجودگی مضبوط تجارتی روابط کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک مدفن سے پتھر کی کلہاڑی دریافت ہوئی، اور چند ایک بالائی سطح سے ملیں۔ 2001 میں ماہرین آثاریات نے مہر گڑھ سے ملنے والے نو افراد کی باقیات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پایا کہ اس تہذیب کے باسی دندان سازی کے ابتدائی فن سے واقف تھے۔ اپریل 2006 میں سائنسی جریدے نیچر میں یہ انکشاف شایع ہوا کہ مہر گڑھ میں انسانی دانتوں کی باقیات کے قدیم شواہد ملے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان دریافتوں کے وسیلے اس خطے کی اولین تہذیبوں میں proto-dentistry (ابتدائی دندان سازی)کے رواج کا اشارہ ملتا ہے۔
مہر گڑھ کے دوسرے دور (5500 تا 4800 قبل مسیح) اور تیسرے دور (4800 تا 3500 قبل مسیح) میں یہاں کے باسی مٹی کے برتن اور تانبے کے اوزار استعمال کر رہے تھے۔ مینوفیکچرنگ سرگرمیوں کے شواہد بھی واضح ہیں۔ یہاں جدید تکنیکوں کا استعمال کیا گیا۔ چمکدار موتیوں کی مالائیں تیار کی گئیں، مجسمے مزید تفصیل کے ساتھ بننے لگے۔ خواتین کے مجسموں کو پینٹ سے سجایا جانے لگا تھا۔ ان میں بالوں کی تراش خراش اور زیورات کا تنوع ملنے لگا۔
مہرگڑھ سے ملنے والی مہریں گارے اور ہڈیوں سے تیار کی گئی تھیں اور جیومیٹرک ڈیزائن پر مشتمل تھیں۔ انھیں بنانے میں پتھر اور تانبے کی مشقیں، بھٹے اور تانبے کے پگھلانے والے سانچے استعمال ہوئے تھے۔ دوسرے دور میں دور دراز علاقوں سے ہونے والی تجارت کے مزید شواہدملتے ہیں، جیسے سنگ لاجودر کے موتیوں کی دریافت، جو بدخشاں (افغانستان) سے تجارت کی سمت اشارہ کرتی ہیں۔
بہ ظاہر یوں لگتا ہے کہ 2600 تا 2000 قبل مسیح، پانچ میل دُور واقع بڑے اور قلعہ بند قصبے نوشہرو کے حق میں مہرگڑھ کو اس وقت ترک کر دیا گیا، جب وادی سندھ کی تہذیب ترقی کے وسطی مراحل میں تھی۔ ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ تقریباً 2500 قبل مسیح کا واقعہ ہے۔
تحقیق کے مطابق مہر گڑھ کے ابتدائی باسی گارے کی اینٹوں سے بنے مکانوں میں رہتے تھے، اناج کو گھروں میں ذخیرہ کرتے، مقامی تانبے سے تیار کردہ اوزار بناتے اور زیر استعمال ٹوکریوں کو بٹومین (اسفالٹ) سے استر کیا کرتے تھے۔ انھوں نے گیہوں اور گندم، عناب اور کھجور کی کاشت کی اور بھیڑ بکریاں اور مویشی پالے۔ بعد کے باسیوں نے، جن کا زمانہ 5500 قبل مسیح سے 2600 قبل مسیح پر محیط ہے، انھوں نے دست کاری کے میدان میں ترقی کی۔ مہرگڑھ جنوبی ایشیا میں اس ثقافت اورفن کا ابتدائی معلوم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔
اس خطے میں قدیم ترین مجسمے اِسی بستی سے ملے۔ یہ ظروف سازی سے بھی پہلے کا واقعہ ہے۔ یہ مجسمے سادہ نوعیت کے تھے اور ان میں فن کی پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں نفاست در آئی۔ چار ہزار سال قبل مسیح کے آس پاس ہمیں ان میں بالوں اور جسمانی خدوخال کا مخصوص انداز نظر آنے لگا۔ اس دور تک کے تمام مجسمے خواتین کے تھے، مردوں کے مجسمے ہمیں بہت بعد کے ادوار میں نظر آئے اور پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ مٹی کے برتنوں کے شواہد 5500 قبل مسیح سے ملنا شروع ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ مٹی کے برتنوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی، جس کی بنیادی وجہ کمہار کے پہیہ کاایجاد ہونا تھا، جس کی وجہ سے پیچیدہ ڈیزائن اور جانوروں کے نقش بھی نظر آنے لگے۔ عورتوں کے مجسمے کی خصوصیات 3500 کے آس پاس نمایاں ہونے لگیں۔
ان مجسموں میں نفاست، پیچیدگی اورپیپل کے پتوں کے ڈیزائن نظر آنے لگے۔ مہر گڑھ کو آباد کرنے اور اس تہذیب کو تشکیل دینے والوں سے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ جدید سائنس انسانی باقیات کے جینیاتی پول کا تجزیہ کرتے ہوئے ایرانی اور مشرق وسطی کے تعلق کا تذکرہ کرتی ہے۔ سچ جو بھی ہو، مہرگڑھ انسانی تہذیب کے اس ابتدائی مرحلے میں بھی انسانی روابط کی تصدیق کرتا ہے۔ سن 2000 میں یہاں کھدائی کا کام ختم ہوا۔ تب سے اس سائٹ کی حالت مخدوش ہے۔ یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی غفلت ہے، بارشوں نے بھی سائٹ کومتاثر کیا۔ آس پاس کی بستیوں اور نوادرات کی چوری کی وجہ سے مزید بگاڑ آیا۔
(فاضل کالم نگار، دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کاراور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)