رواں سال 10مئی کو کشیدگی اس وقت عروج پرپہنچ گئی جب حماس نے ردعمل میں غزہ سے ہزاروں راکٹ داغے اور اسرائیل نے اس کا جواب شدت کے ساتھ دیا جس کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں سمیت 240فلسطینیوں کی جانیں گئیں۔ جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی کارروائیوں سے میڈیا بھی محفوظ نہیں رہا۔ اسرائیل نے اس عمارت کو نشانہ بنایا جہاں ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ سمیت کئی عالمی میڈیا گروپس کے دفاتر تھے۔ غزہ کی پٹی سے ملحقہ سرحد پر اسرائیل نے یہ ظاہر کرنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کیے کہ اسے زمینی حملے کا خطرہ درپیش ہے۔
کیا تیسراانتفادہ شروع ہوسکتا ہے؟ نامعلوم شدت کے ساتھ برآمد ہونے والے نتائج کے ساتھ مجھے اس کا امکان نظر آتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ عربوں اور اسرائیل کے مابین بڑھنے والے روابط کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوگا۔ اسرائیل اور عربوں کے مابین تعلقات کی بہتری میں متحدہ عرب امارات پیش پیش ہے اور بحرین سمیت دیگر ممالک بھی تجارتی و سفارتی تعلقات میں بہتری کے اس راستے پر چل رہے ہیں۔ یہ دوستی بڑھانے میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور چار نکات سے فریقین کو قائل کیا تھا۔
اسرائیل اندر اور باہر سے حریف قوتوں میں گھرا ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی بقا کے مسائل درپیش ہیں۔ تیسرا اہم پہلو یہ تھا کہ امریکا خطے میں اسرائیل کے تحفظ کا ضامن ہے اور چوتھا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ مغرب کسی صورت چین اور روس کو مشرقِ وسطی کے تیل اور بحرہند تک رسائی نہیں دینا چاہتا۔ بدقسمتی سے تیسرا انتفادہ اسے ناممکن بناسکتا ہے۔
امارات دوراہے پر آکھڑا ہوا ہے۔ تیسرے انتفادے سے ممکنہ طور پر ابراہام اکارڈ کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ کسی بھی وقت یہ مزاحمت ایک محدودجنگ کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کے نتیجے میں یہ معاہدہ تحلیل ہوسکتا ہے۔ جیرڈ کشنر نے مسئلہ فلسطین کی اہمیت گھٹانے کے لیے اسے بمشکل زمین جائیداد، کا تنازع قرار دیا تھا۔ امارات نے جرات مندانہ مگر نپا تلا فیصلہ کیا تھا لیکن اب اس کی گرمجوشی بھی کم ہوتی جارہی ہے کیوں کہ حالات اس کے قابو سے بھی باہر ہوسکتے ہیں۔
امریکا میں یو اے ای کے سفیر میرے بہت اچھے دوست یوسف العتیبہ جو امریکا سے قربت بڑھانے کے لیے کوشاں تھے یقینا جزبز ہورہے ہوں گے۔ کشنر کی زمین جائیداد، کے بیان سے ابراہام اکارڈ کی اہمیت ہی متاثر ہوئی کیوں کہ اسے یہ عنوان دینے سے اس تنازع کا ہزاروں سالہ مذہبی اور عسکری پس منظر بیان نہیں ہوتا۔
عرب ممالک جب غیر عرب دنیا سے تعلقات کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں تو امارات اس بات کا متحمل نہیں کہ ان کوششوں سے لاتعلق رہے۔ وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جو چینی وزیر اعظم نے پاکستان کی مدد سے چین کا خفیہ دورہ کرنے والے ہنری کسنجر سے کہے تھے کہ یہ مت بھولیے کہ آپ جس پل سے گزر کر آئے ہیں، آپ کو اس سے دوبارہ بھی گزرنا پڑ سکتا ہے"۔
فلسطین اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے مظالم کی حمایت کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ صورت حال بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے۔ تاہم ستم رسیدہ فلسطینیوں کے مصائب دور کرنے کے لیے کوئی قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا۔ 2003میں میری جن بھی اسرائیلیوں سے ملاقات ہوئی ان میں سے اکثر نے یہ تسلیم کیا کہ دوسرا انتفادہ اسرائیلی قبضے کے خلاف عالمی رائے عامہ کو بیدار کرنے میں بہت کامیاب رہا۔ اس کے برعکس نو گیارہ حملوں کے بعد ہونے والے خود کُش حملوں پر دنیا کا مخالفانہ ردعمل سامنے آیا اور ان سے اسرائیل کو ان بمباروں سے تحفظ کے لیے کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کرنے کا جواز تراشنے کا موقعہ مل گیا۔
اگر اسرائیل چاہتا ہے کہ اسے بالاتفاق موجودہ دنیا کا حصہ تسلیم کرلیا جائے تو اسے فلسطینیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول بھی ماننا پڑیں گے۔ اسی طرح اگر فلسطینی اپنی الگ ریاست اور اپنی زمینیں واپس چاہتے ہیں تو بندوق کے زور پر وہ یہ مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔ یہ تاریخی المیہ ہے کہ جب کلنٹن حکومت اپنے آخری سانس لے رہی تھی تو یاسر عرفات ایک جامع معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے۔ آج کی شرائط اس وقت ہونے والے معاہدے کے پاسنگ بھی نہیں ہیں۔ اسرائیل کی وزارتِ خارجہ میں سفارت کاروں نے2003میں مجھے بتایا تھا کہ فلسطینیوں نے مذاکرات کی میز پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
ہولوکاسٹ ایک حقیقت ہیں۔ ہٹلر اور اس کے کارندوں نے یہودیوں کے ساتھ جو سفاکانہ مظالم روا رکھے مسلمانوں کے عقائد میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ مزید برآں مسیحیوں نے بھی اسپین میں صدیوں یہودیوں کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ اس خطے میں یہود اور مسلمان اعلان بالفور سے قبل امن و آشتی کے ساتھ رہا کرتے تھے لیکن اس معاہدے نے ان دونوں کے درمیان بقول کشنر کے زمین جائیداد کا مسئلہ بنادیا۔ اس وقت سے مسلمانوں میں یہودیوں کی مخالفت شدت اختیار کرتی آرہی ہے۔ یہ بات کس قدر آسانی سے فراموش کردی گئی کہ یہود پر مسیحیوں نے مظالم کے پہاڑ توڑے تھے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
مئی 2018میں مجھے ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کی بورڈ میٹنگ میں شرکت کے لیے اُردن جانے کاموقع ملا جہاں چیئرمین روز پیروٹ نے بورڈ کے ارکان کی شاہ عبداللہ سے ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ میں نے اس ملاقات میں اردن کے استحکام کے لیے 1970میں پاکستان کے کردار کا تذکرہ کیا جب فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور پی ایل ایف (پاپولر فرنٹ فور لبریشن آف فلسطین) نے عمان پر قبضہ جمالیا تھا۔ اردن پر شام نے بھی فوج کشی کردی تھی۔
اردن میں تعینات تھرڈ آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل قاسم مطاع نے بغاوت کردی تھی۔ ہمارے فوجیوں نے اہم مقامات پر کمانڈ اپنے ہاتھ میں لی اور کئی شاہی تنصیبات کو بچایا اور اس کے ساتھ شاہِ اردن اور ان کے خاندان کو تحفظ فراہم کیا۔ اس دوران فلسطینیوں اور پاکستانیوں کے درمیان ایک گولی بھی نہیں چلی۔
میں بلا شبہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کرتا ہوں جن کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو جمع تفریق کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ یہ اس عالمی تصور کے تحت ہونا چاہیے جس میں رنگ و مذہب اور نام نصب کی تمیز کے بغیر یکجائی کو ترجیح دی گئی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ نگار ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر ان کا یہ انگریزی مضمون جریدے نیریٹیو، میں شایع ہوچکا ہے)