بین الاقوامی شمالی، جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) کی ابتدا روس، ایران، بھارت اور آذربائیجان کے درمیان ایک بین الحکومتی معاہدے سے ہوئی۔ اس کے بعد 13 ممالک (بشمول پاکستان) اس معاہدے کی توثیق کر چکے ہیں۔
یہ راہداری بالآخر شمالی یورپ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک پھیلے گی۔ اس کوریڈور کو جنوری 2016 میں ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹانے کے ساتھ نئی تحریک ملی۔ 2018 میں 11 ملین ٹن سامان لے جانے والے اس کوریڈور کو تین اہم محرکات کی بدولت اب 20 سے 30 ملین ٹن کے درمیان سالانہ صلاحیت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
مرکزی محرک ممبئی اور سینٹ پیٹرزبرگ کے درمیان 7، 200 کلومیٹر طویل راہداری ہے، جو کیسپین کے روسی ساحل (استراخان، اولیا، اور ماخچکالا) اور ایرانی بندرگاہوں (بندرانزالی، نوشہر، اور بندر امیرآباد) کے درمیان فیری روابط پر مبنی ہے۔ بھارتی اشیا کو خلیج فارس میں بندر عباس کی ایرانی بندرگاہ پر پہنچایا جائے گا، پھر یہ سامان بحری جہازوں میں بحیرہ کیسپین پار کرے گا، وہاں سے ریل یا سڑک کے ذریعے روس اور مشرقی یورپ تک پہنچے گا۔ انڈین فیڈریشن آف فریٹ فارورڈرز ایسوسی ایشنز نے سوئز روٹ کے مقابلے میں اس روٹ پر 30 فی صد لاگت اور 40 فی صد ٹرانزٹ ٹائم میں کمی کا تخمینہ لگایا ہے۔
2014 اور 2017 کے درمیان کیے گئے ڈرائی رن کا ایک اندازہ لگایا گیا تو اس میں 2، 500 ڈالر فی 15 ٹن کارگو کے حساب سے ممکنہ بچت ظاہر کی گئی ہے، جب کہ سوئز کے راستے 40 سے 60 دنوں کے مقابلے میں ٹرانزٹ ٹائم کو 25 سے 30دن تک کم کیا جا سکتا ہے۔ ممبئی اور ماسکو کے درمیان کا راستہ طے کرنے میں صرف 19 دن لگیں گے (32 سے 37 کے برعکس)، یعنی فاصلہ تقریباً 16، 112 کلومیٹر (8، 700 سمندری میل) سے تقریباً 7075 کلومیٹر ہو جائے گا، یعنی نصف سے تھوڑا کم فاصلہ کم ہو جائے گا۔
اسی طرح، 45 دن کے مقابل میں ہندوستان اور فن لینڈ کے درمیان ترسیل کے لیے صرف 21دن لگیں گے۔ یاد رہے کہ ممبئی کو ایرانی بندرگاہوں سے جوڑنے والی فیری وقت میں 10 دن کا اضافہ کرتی ہے اور مال برداری کی لاگت میں بھی تقریباً 25 فی صد اضافہ کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں بھارتی ہٹ دھرمی اور کشمیری عوام پر نہ ختم ہونے والے مظالم نے پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کو کشیدہ بنا دیا ہے، اس سے بھارت نہ صرف پاکستان کے پار ایران اور افغانستان تک زمینی رسائی سے محروم ہوا، بلکہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں یوریشیائی ممالک تک معکوس رسائی سے بھی محروم ہوا۔
2005 میں INSTC معاہدے میں آذربائیجان کے الحاق نے دوسرے محرک کے اضافے کی راہ ہموار کی جو بحیرہ کیسپین کے مغرب میں چلتا ہے۔ یہ محرک بھارت اور روس کو آذربائیجان اور ایران کے ذریعے جوڑے گا۔ تاہم ایرانی ریل نظام میں خامیوں کی وجہ سے کئی رکاوٹیں باقی ہیں۔ استارا (آذربائیجان)-استارا (ایران) سیکشن ابھی مارچ 2018 کے آخر میں کھولا گیا ہے۔
دوسرا حصہ مکمل طور پر ایرانی حدود میں ہے، یہ ایران کے دوسرے بڑے کیسپین ساحلی شہر انزالی کے راستے رشت اور استارا کے درمیان 164 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط ہے، اور یہ 2020 میں مکمل ہونے والا ہے۔ یہ لائن باکو اور نخچیوان کے درمیان سفر کو بھی ممکن بنائے گی، یہاں آرمینیا اور ایران کے درمیان ایک آزری ایکسکلیو سینڈونچ بنا ہے، جس کی وجہ سے آذربائیجان نے اس منصوبے کی مشترکہ مالی اعانت پر اتفاق کیا ہے۔ یہ لائن 2022 تک مکمل ہو جائے گی۔
تیسرا حصہ ایرانی شہروں قزوین اور رشت کو ملانے والی مزید 164 کلومیٹر ریلوے پر مشتمل ہے جس میں 25 کلومیٹر سرنگیں اور 9 کلومیٹر پر مشتمل کئی پل شامل ہیں۔ مارچ 2019 میں اس ریل روڈ کا آغاز کر دیا گیا۔ تیسرا محرک دسمبر 2014 میں قازقستان، ترکمانستان، ایران (KTI) کے 928 کلومیٹر ریلوے کے افتتاح کے ساتھ سامنے آیا جو بحیرہ کیسپین کے مشرق میں چلتی ہے، اور جو ازین، بیریکیٹ اور گورگان کے شہروں کو ملاتی ہے۔ بیریکٹ میں، کے ٹی آئی لائن زار کے زمانے کی ٹرانس کیسپین ریلوے سے جڑتی ہے، جو ترکمانستان سے گزرتی ہوئی ازبکستان اور تاجکستان تک پہنچتی ہے۔
آئی این ایس ٹی سی کے پیچھے بھارت اور روس اہم محرک ہیں۔ بھارت اور ایران اپنا تجارتی ہدف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن رہے اور 2018 میں انھوں نے ہدف کو عبور کر لیا، دونوں ملکوں نے 2025 تک اس ہدف کو 50 ارب ڈالر تک بڑھانے کا عزم کر لیا۔ فروری 2018 میں روس نے بھارت، وسطی ایشیا کے وسیع ہوتے تعلقات کو آشیرباد دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جوڑی اب اس منصوبے کو تیزی سے مکمل کرنے میں دل چسپی رکھتی ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے 2019 کے اوائل میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔
کیا یہ خطے میں پیدا ہوتے جغرافیائی سیاسی حقائق کے پیش نظر ممکن ہو سکے گا؟ امریکی اور یورپی پابندیوں کی زد میں رہتے ہوئے بھی روس INSTC کی پیش روی کے لیے پائیدار سفارتی توانائی رکھتا ہے۔ تہران کے ساتھ مل کر، ماسکو دو سہ فریقی پروسیسز (روس، آذربائیجان، ایران اور روس، ہندوستان، ایران میٹنگز) کے درمیان ایک اہم کڑی کی طرح ہے جو انھیں جوڑتا ہے، یہ سہ فریقی پروسیسز راہداری کے اطلاق کو آگے بڑھانے کے لیے ذمے دار ہیں۔
ماسکو نے RDZ (روسی ریلوے) کے ذریعے ایران کی 495 کلومیٹر طویل ریل لائن کی بجلی کاری کے لیے مالی اعانت فراہم کی، جو ترکمانستان اور اس کے بعد قازقستان تک جاتی ہے۔ ایران کو 2006 سے 2016 تک اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا رہا۔ یہ بھی امریکا کی عائد کردہ پابندیاں تھیں اس لیے بیرونی دنیا سے رابطے بحال کرنا ایران کی قومی ترجیحات میں شامل ہے۔ آئی این ایس ٹی سی روس اور یورپ کے لیے مختصر ترین راستہ ہے۔ اس کے دو بڑے تجارتی شراکت دار اور ایک تیل پیدا کرنے والا ملک اپنی تیل کی آمدن کا ایک فی صد ریلوے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔
اگرچہ پورے ملک میں مطلوبہ تعداد میں لنک تعمیر کرنا مالی طور پر مشکل ہے لیکن ایران کی جغرافیائی پوزیشن اور آئی این ایس ٹی سی میں شامل ممالک سے بہتر تعلقات اسے خطے میں ذرایع رسل و رسائل کا اہم کردار بناتا ہے۔ ملک کے اندر پٹڑیاں بچھانے کے ساتھ ایران اپنی ریلوے کو اپنے علاقے استر سے روس کے دارالحکومت ماسکو اور آذر بائیجان تک ریلوے لائن بچھانے کا ہدف دے چکا ہے۔ 2018 میں ایران، روس اور بھارت کی کانفرس کے بعد ایران نے کسٹمز اور ویزہ کے لیے دستاویزی کارروائی کو سادہ کرنے اور ریلوے کے ذریعے سامان کی نقل و حرکت اور مسافر ٹرینز چلانے پر بھی تیزی سے کام شروع کردیا تھا۔ آئی این ایس ٹی سی مستقبل میں مزید وسعت پذیر ہوکر بصرہ تک بھی جاسکتا ہے۔
ایران سے ترکی تک دو ہزار کلو میٹر کے ریلوے ٹریک کی فزیبلٹی رپورٹ پر بھی کام ہورہا ہے۔ خشکی میں گھرے چھوٹے سے ملک آذر بائیجان کی نظر اب عالمی تجارتی راستوں کا مرکزی پڑاؤ (ٹرانزٹ) بننے پر ہے جس سے اس کے لیے آمد نے نئے ذرایع پیدا ہوں گے۔ باکو اور روس آئی این ایس ٹی سی کے مغربی روٹ پر روس آذر بائیجان اور ترکی کے روٹ پر آمد و رفت بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے لیے وہ باکو، تبلسی اور کارس کے مابین بنی ریلوے کا ہارڈ ویئر استعمال کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ روس کے راستے آذر بائیجان اور چین کے درمیان ٹرانزٹ ٹریفک بنانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، ساتھ ہی اس سے آگے چین سے براستہ روس آذر بائیجان تک نقل و حمل بھی مستقبل کے منصوبوں میں شامل ہے۔ انھی منصوبوں کی وجہ سے آذر بائیجان اور ایران میں قربتیں بڑھی ہیں۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)