تاش کے کھیل رنگ کی ڈبل سر جاری ہے اسے ماں بولی میں دْسّر کہتے ہیں۔ کھلاڑی چھ ماہ پہلے اکٹھے ہوئے تو موسم گرم تھا۔ سو انہوں نے سوچا کہ اس بار گیم کے لیے سات سمندر پار آباد ایک جزیرے کا رخ کیا جائے۔ اس جزیرے کو جزیرہ زمرد کہا جاتا ہے۔ ویسے وہاں کوئی چار پانچ ہزار جزیرے ہوں گے۔ ایک صدی قبل ایشیا کی ایک انتھک قوم جاپانیوں کے ایک مورخ نے اپنی قوم کو مشورہ دیا تھا کہ برطانیہ نے رومن امپائر کے زوال کو غور سے نہیں دیکھا ہے وہ اس عظیم سلطنت کے زوال والی غلطیاں دہرائے گا۔ مورخ نے یہ بات ایک صدی قبل کی تھی اور ایک صدی بعد کا نقشہ کھینچا تھا کہ 2005 میں برطانیہ کہاں کھڑا ہو گا۔ اس نے کہا تھا کہ برطانیہ والی غلطیوں کا اعادہ جاپان کے لیے موت ہو گی۔ عبرت ناک موت۔ برطانیہ اب ایک جزیرے تک محدود ہے۔ جزیرے میں پرتعیش زندگی کے سارے سامان دستیاب ہیں۔ دنیا جہان سے لوگ وہاں جاتے ہیں قیام کرتے ہیں اور دسر کھیلتے ہیں۔
رنگ کی دسر جاری ہے۔ اب اگر کوئی ہم یہ نہیں جانتے کہ برطانیہ میں چار ہزار جزیرے موجود ہیں تو ہمیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہاں دسر کب کھیلی گئی اور پتے کب پینٹھے گئے۔ پینٹھنا آرٹ نہیں ہے اصل آرٹ دسر ہے۔ دسر میں برابر برابر تیرہ تیرہ پتے بانٹے جاتے ہیں۔ اصل پتے باون ہو گئے۔ یعنی ایک سال کے باون ہفتے سمجھیے، آغاز میں ہی سال 2022 گزرا سمجھیے۔ ابتدا یہ ہے تو انتہا کا اندازہ قطعاً مشکل نہیں۔ پانچ پانچ کر کے پتے تقسیم ہوتے ہیں آگے آپ خود سمجھدار ہیں پانچ کی اہمیت کیا ہے۔ یہ پانچ برس بھی ہو سکتے ہیں۔
مارک ٹوئین نے ایسے تو نہیں کہا تھا کہ "اگر آپ کے پاس ہتھوڑا ہو تو ہر چیز کیل لگتی ہے"۔ اسے بابائے امریکی ادب بھی کہا جاتا ہے۔ آج کل اس کے ملک سے سب سے زیادہ قالین اڑتے ہیں۔ جزیرہ زمرد میں قرون اولیٰ میں وہاں خاک بھی نہیں اڑتی تھی۔ قرون وسطیٰ کے گزرنے کی دیر تھی کہ وہاں رنگ لگ گئے۔ مگر ابھی دسر کا رنگ چننے میں بڑا انتظار باقی تھا۔ جب انہوں نے رنگ چنا تو اپنے ساتھیوں کو بھی رنگتے گئے۔ یہ رسم اپنے جانشینوں کو بھی ایسی سکھائی کہ وہ ان جانشینوں کے آگے دم بھرتے ہیں۔ ان کے شہروں میں رہتے ہیں۔ آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ امیر لوگوں کی جنت ہے۔ وہاں ایک کوہ قاف آباد ہے۔ اس میں قالین اڑتے ہیں اور ان قالینوں پر دور دیسوں کے بادشاہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جن کا کوئی ذریعہ آمدنی نہ ہو وہ وہاں دوسرا سانس بھی نہیں لے سکتے۔ جن لوگوں پر یہ قالینوں کا جزیرہ مہربان ہوتا ہے ان کے لیے ملک کے خاص و عام مہربان ہو جاتے ہیں۔ یہاں کبھی رومیوں کی حکومت ہوتی تھی۔ اسی لیے علامہ کو وہاں دلی بہت زیادہ یاد آتی تھی۔
دیارِ رومتہ الکبری میں دلّی یاد آتی ہے
وہی عبرت وہی عظمت وہی شانِ دل آویزی
وہاں اب عظمت ہے یہاں عبرت ہی عبرت ہے
ایک کھرب ڈالر کا قرض اس غریب عوام کے ذمہ ہے چند دن پہلے ستانوے ارب ڈالر تھا۔ صرف برادر ملک چین نے تیس ارب ڈالر دیا ہوا ہے۔ حکم رانوں کے لیے یہ کچھ بھی نہیں۔ تین ارب ڈالر تو ایک دن میں اڑ جاتے ہیں۔ اب مزید قرض ملتا نہیں۔ ہر ملک انکاری ہے کیا انکل سام کیا چین کیا سعودی عرب۔ مگر دسر جاری ہے قالین اڑ رہے ہیں ایک قالین شمالی امریکہ پہنچ چکا ہے۔ ایک قالین سبز زمرد جزیرے سے ایک پہاڑیوں میں آباد شہر میں اتر چکا ہے۔ پریشان نہ ہو پہاڑیوں میں ایک ہی آباد شہر ہے جہاں ایک قالین اتر چکا ہے۔ سب دسر کھیل کا حصہ ہے۔ دو دو جوڑیوں میں پانچ پانچ کر کے تیرہ تیرہ پتے بانٹے جا چکے اور رنگ چننے والے نے حکم کا رنگ چن لیا ہے۔ باقی تینوں کو پتہ چل چکا ہے کہ رنگ چننے والے کے پاس بڑے پتے آئے ہیں یعنی بادشاہ ملکہ اور غلام۔ اس نے بڑا پتہ پھینک کر اندازہ لگا لیا ہے کہ باقیوں کے پاس کس نوع کے پتے ہیں۔ اسے معلوم ہے دسر کے لیے وہ پہلی سر جیت چکا ہے۔ جب تک دسر مکمل نہیں ہوتی کوئی پتہ نہیں اٹھا سکے گا۔
ٹھاپ بھی آ گئی ہے اور سب کے کان کھڑے ہو چکے ہیں۔
اب ہم کہاں کہاں غنیمت کنجاہی کو یاد کریں
ہست جوشِ لالہ ہر سْو در نظر ہا جلوہ گر
یا بحالِ مردمِ دیوانہ صحرا خوں گریست
(یہ ہر سْو لالہ کے سْرخ پھولوں کا جوش نظروں میں جلوہ گر ہے یا کہ دیوانے لوگوں کے حال پر صحرا نے خون کے آنسو بہائے؟)۔
ویسے مقام کنجاہ بھی خوب ہے۔ غنیمت سے امین تک لمبی فہرست ہے۔ کنجاہی کی نسبت اہل کنجاہ کو کیا خوش آتی ہے۔ کنجاہ کے لوگ کہیں چلے جائیں کنجاہی کہلوا کر خوش ہوتے ہیں۔ امین کنجاہی لفظوں کے امین ہیں اور قومی معاملات اپنی شاعری میں خوب نبھاتے ہیں۔ ڈبل سر ان کی تازہ نظم ہے۔ پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی پر بینک دولت پاکستان کے جاری کردہ پچھتر روپے کے نوٹ کے بارے میں یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا کام تو اس کی زیارت کے بغیر بھی چل رہا تھا۔ یہ زحمت کا ہے کی؟
جب تاش کی بازی شروع ہوئی/ پتے جوہمارے ہاتھ لگے
وہ اچھے تھے/ اک یار نے پہلی چال چلی
ہم چار تھے بی بیٹھے بازی پر/ تھے اپنے تئیں ہوشیار بہت
پھر ساتھی نے اک ٹھاپ جو دی/ تو سارے یک دم چونک گئے/میں اپنے ہاتھ کے پتوں کو/دیکھ کے کچھ حیران ہوا
تھا ہاتھ میں رنگ کا اک پتہ/حکم کی اکی کی صورت
اور چال بھی رنگ کی آئی تھی/سو پہلی سر ہی میں وہ/ہاتھ سے میرے نکل گیا/جب سر میں نے ڈبل کیا
تو پان کی ملکہ کی صورت/اک یار نے رنگ سے کاٹ دیا
یہ بازی جیون جیسی تھی/اس بازی میں ہمیں مات ہوئیہم سب کچھ اپنا ہار گئے۔
اے غنیمت کے کنجاہ ہمارے لیے تمہارا دم اب بھی غنیمت ہے۔