صدر پاکستان کی منظوری اور دستخط کے بغیر نیب آرڈینینس 2022 ملک میں نافذ ہو گیا ہے۔ یہ پاکستان کے ان چند قوانین میں شامل ہے جو صدر پاکستان کی عدم منظوری اور عدم دستخط کے باوجود نافذ العمل ہوئے ہیں۔ صدر پاکستان نے اسے اپنی طرف سے نامنظور کرتے ہوئے، اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ احتساب کی اصل روح کو نظرانداز کر کے بنائے گئے قوانین کی قانونی حیثیت ضرور ہے مگر اخلاقی طور پر وہ قانون Dead ہی تصور ہوتا ہے۔ خود وزارت قانون اور انصاف نے اس بل کے آخر میں اپنے نوٹ میں لکھ دیا ہے کہ
inquiry officer shall not harras any person at the time of investigation and confine his question۔
اسی پر بات ختم نہیں کی گئی بلکہ انکوائری آفیسر کو پابند اور لازم کیا ہے کہ ملزم کو پہلے مطلع کیا جانا بھی ضروری ہے کہ آپ کو انکوائری کے لیے بلایا جانا مقصود ہے۔ یہ ایسی خطرناک شرط لاگو کی ہے جو انصاف کے قتل کے برابر ہے۔ اس کے مضمرات میں یہ بات شامل ہے کہ ملزم کی "اجازت" نہ ملنے پر اس سے ملنا بھی ناممکن ہو گا چہ جائیکہ اس سے کچھ پوچھ گچھ کی جا سکے۔ انکوائری آفیسر اپنے آپ کو اسی خاص کیس یا الزام کے متعلق پوچھنے کا پابند ہو گا۔ دیگر ضروری معلومات تک اس کے دائرہ اختیار سے بارہ پتھر کر دیے گئے ہیں۔ نیشنل اکاونٹبلٹی آرڈی نینس۔ نیب میں وہ ترامیم جن کا شور و غوغا سنتے آ رہے تھے، منظور ہو کر اب حکومت پاکستان کا قانون بن گیا ہے۔ جسے نیشنل اکاونٹابلٹی 2022 ایکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ فوراً نافذ العمل ہو گا اور مذکورہ آرڈینینس 1999کے ساتھ نافذ العمل ہو گا۔ یعنی یہ ترامیم تو اب کی جا رہی ہیں مگر اس 1999 سے ہی لاگو سمجھا جائے گا۔
یعنی جو کام ن لیگ اور پیپلز پارٹی عمران کے ساڑھے تین سالہ دور میں نہ کروا سکے وہ اپنی حکومت کے ساڑھے تین ماہ میں کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وہ پھانس جو ان کا سانس بند کر رہی تھی ختم ہو گئی ہے۔ سیکشن پانچ میں ترمیم کے بعد نیب پچاس کروڑ سے کم رقم کا کیس نہیں سن سکے گا۔ 1999ء کے اصل قانون میں ایک شق گیارہ تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ جرمانہ کی رقم اس خرد برد کی گئی رقم سے کسی صورت کم نہ ہو گی۔ یہ خرد برد یا غیر قانونی ذرائع سے حاصل رقم خواہ ملزم کے نام ہو یا اس کے کسی رشتہ دار یا ساتھی کے نام پر ہو۔ اس نئے ترمیم شدہ قانون کی اس شق کو سرے سے ختم کر دیا ہے۔
نیب کیس وہاں دائر کر سکے گا، جہاں جرم ہوا ہو گا۔ ریفرنس اس وقت دائر ہو گا جب مکمل تفتیش ہو چکی ہو گی۔ کسی قسم کا سپلیمنٹری ریفرنس دائر نہیں ہو سکے گا اور وہ بھی مجاز عدالت کی اجازت کے بعد ممکن ہو سکے گا۔ جس شق کے مطابق پچاس کروڑ سے زیادہ کی رقم نیب کا اختیار رہ گیا ہے، کی وجہ ہے کہ دو دن قبل کئی ریفرنس واپس کر دیے گئے ہیں۔ شق نمبر گیارہ کے مطابق ملزم کو کسی الزام یا جرم کے بارے بتایا جائے گا کہ کیا آپ حضور نے یہ جرم کیا بھی ہے یا نہیں۔ اور اس کو ڈیفنس کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔ اور اس طریقے سے اسے آگاہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔ جو رقم پلی بارگین میں ملزم نے آفر کی ہو اسے وہ ملزم بعد میں دوبارہ کورٹ کو رجوع کر سکتا ہے کہ مجھ پر دباؤ ڈال کر پلی بارگین کی ہے اور وہ اسے منسوخ کروایا جا سکتا ہے۔
سیکشن 31 بی کے مطابق چئیرمین نیب کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کیس کسی وقت بھی ختم کر سکتا ہے۔ وہ عدالت میں دائر ریفرنسں کیمطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کارروائی منسوخ کر دے گا جو بلا جواز ہو۔ ریفرنس دائر کرنے کے بعد چیئرمین نیب کو لگے کہ ریفرنس بلا جواز ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتا ہے۔ چارج فریم کرنے سے قبل ایسا ہونے کی صورت میں ملزم کو جرم سے ڈسچارج کر دیا جائے گا جبکہ چارج فریم ہونے کے بعد ایسا ہونے پر ملزم کو جرم سے بری کر دیا جائے گا۔
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے جمع ہونیوالے فنڈز اور اخراجات میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھتے ہوئے 6 اہم سفارشات پیش کردی ہیں۔ فلڈ فنڈز میں شفافیت، خود احتسابی اور معلوماتی نظام تک رسائی شامل ہونی چاہئے۔ تمام فلڈ فنڈز پبلک پروکیورمنٹ رولز 2004 کے تحت خرچ کیے جائیں، جس میں شفافیت اور خوداحتسابی اور معلوماتی نظام تک رسائی شامل ہے۔ مانیٹرنگ میں فنڈز اور سامان اور خدمات دونوں کو شامل ہونا چاہیے۔
ہلالِ احمر نے سیلاب زدگان کو امداد بھیجتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ یہ رقم کسی صورت بھی حکومت پاکستان کے حوالے نہیں کریں گے۔ اس کی تقسیم اور سیلاب زدگان تک امداد پہنچانے تک وہ کسی حکومتی اہلکار کی شرکت بھی پسند نہیں۔ یہ تمام امور اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ عالمی برادری اس حکومت اور اس میں شامل تمام لوگوں کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔
یہ حکومتی گروہ اپنی جگہ پوری مطمئن ہے گویا جس مقصد کے لیے یہ سارا میلہ سجایا گیا تھا وہ بہر حال انہوں نے باہمی تعاون کر کے حاصل کر لیا ہے۔ اب آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، حمزہ شہباز، مریم نواز اور دیگر جب وزیر اعظم سے ملتے ہیں تو سارے ایک دوسرے سے کہتے ہیں"ہور کجھ ساڈے لائق"۔ اس ضمن میں عدالت عالیہ سے رجوع کر لیا گیا ہے کہ اسے Quash کیا جا سکے کہ یہ ترامیم آئین کی روح کے خلاف ہیں۔