جب ہم صبح کے وقت ایک کپ پھیکی چائے کا لیتے ہیں یعنی ناشتہ کرتے ہیں تو بھلے زمانوں میں کیا ہوا مزیدار ناشتہ ضرور یاد آتا ہے۔ تب ہمیں والدہ کی ایک سنائی ہوئی کہانی ضرور یاد آتی ہے۔ ہم تو اپنی ماں کو بے جی کہتے تھے اب بے جی کا لفظ متروک ہو چکا ہے اور کسی رومانس کا حصہ بن چکا ہے۔ والدہ کو دیا جانے والا نیا نام ہمارے حلق سے تو نیچے نہیں اترتا۔ ہماری بے جی کا کچن سیڑھیوں کے نیچے بچی ہوئی تھوڑی سی جگہ پر محیط تھا۔ وہی کچن تھا وہی ڈائننگ ٹیبل۔ اب جب ہم ایک کپ چائے کا ناشتہ کرتے ہیں توہمیں اپنے بے جی کا کہا ضرور یاد آتا ہے۔ (ویسے بھی کہا جاتا ہے آملے کا کھایا اور بزرگوں کا کہا ساری عمر کام آتا ہے۔)
بے جی اپنے بچوں کو ناشتہ مکھن سے لبڑے پراٹھوں سے کراتی تھیں۔ تازہ اور خوشبودار دہی۔ جب گاؤں میں مکئی کی فصل کٹتی تو چھلیاں صحن میں سکھائی جاتیں تو بھابی دارو کے گھر چکی پر اپنے ہاتھوں سے مکئی پیستیں اور اس کی روٹی بناتیں۔ وہ روٹی کیا ہوتی کوئی سونے کا تھال سا ہوتا۔ اس پر سنہری پھول جیسے کڑھتے چلے جاتے۔ یہ کہانی عموماً اسی موقع کی مناسبت سے سنائی جاتی بلکہ دہرائی جاتی۔ ویسے تو انہیں پنجابی زبان کی ضرب الامثال بھی بہت سی یاد تھیں مگر ایک دفعہ جب ہم قلم کاغذ لے کر بیٹھے تو وہ گویا سب کچھ پھول گئیں۔ ایک دو اب بھی یاد ہیں
دو پیاں وسر گیاں، دو تھپڑ پڑے تھے مگر کب پڑے تھے بھول گئے ہیں گویا پروا نہیں
ایک اور اکھان
کھچاں دا ویاہ تے چبلاں میل آیاں
بے وقوف لوگوں کی شادی ہے تو بھوکے لوگ چار دن پہلے ہی آ پہنچے ہیں۔
مگر جس مکئی کی روٹی کی بات ہم کر رہے ہیں وہ کچھ یوں بیان ہوتی تھی۔ تین بہنیں دریا کے کنارے کھڑی تھیں تینوں ہم عمر لگتی تھیں مگر عمروں میں کچھ تو فرق ہو گا۔ تینوں خوش تھیں اور ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔ رنگ تینوں کا صاف اور کِھلتا ہوا اور قد کْھلتا ہوا۔ دریا کا گھیر بھی بڑا تھا اور پانی کی سطح بھی بلند ہو رہی تھی۔ تینوں بہنوں نے ایک دوسرے سے بونش یعنی شرط لگائی۔ بڑی بہن نے کہا کہ مسافر کو دریا پار لے بھی جاؤں گی اور واپس بخیریت اس کنارے واپس لے بھی آؤں گی۔ منجھلی بولی کہ ہم تو بڑا بول بولنے کے عادی نہیں۔ سچ سچ کہوں گی کہ مسافر کو پار لے تو جاؤں گی مگر واپس لانے کا نہ دعوی کرتی ہوں نہ واپس لاؤں گی۔ اب تیسری بہن رہ گئی تھی۔ وہ دیکھنے میں خوبصورت تھی اور دبلی پتلی بھی تھی، بولی ہم تو باز آئے اس شرط سے نہ شرط لگاتے ہیں نہ پرایا بچہ مارتے ہیں۔
اتنی کہانی سنا کر بے جی ہمارے مونہوں کی طرف دیکھتیں۔ ہم ہونقوں کی طرح ان کی طرف دیکھتے گویا اپنے عجز کا اعتراف کر رہے ہوتے۔ وہ کہتیں اور گرہ کھولتیں بڑی بہن باجرے کی روٹی تھی جس میں اتنی طاقت تھی کہ وہ مسافر میں اتنی طاقت فراہم کر دیتی کہ مسافر تیرتے ہوئے دریا پار کرے اور ابھی اس میں اتنی طاقت باقی ہوتی کہ اس کے سہارے مسافر تیر واپس اس کنارے آ بھی سکتا۔ جو صرف مسافر کو ایک طرف یعنی پار لے جانے کا دعوی کرتی وہ گندم کی روٹی تھی۔ اس میں اسی قدر استطاعت تھی کہ مسافر کو دریا کا پھیرا مکمل نہیں کرا سکتی صرف لے جا سکتی تھی۔
ہم دیکھتے ان کی جانب دیکھتے جیسے پوچھ رہے ہوں بتائیے بتائیے تیسری کون تھی۔ وہ کہتیں تیسری بہن مکی کی روٹی تھی جو کہہ رہی تھی کہ بھائی مجھ میں اتنی ہمت اور طاقت کہاں کہ کسی کو لے کر دریا میں اتر بھی سکوں۔ یہ ان تین فصلوں کی طاقت کی بات تھی۔ یعنی سب سے زیادہ طاقت باجرے کی روٹی پیدا کرتی، دوئم گندم اور مکئی صرف پیٹ بھرتی طاقت نہ مہیا کرتی۔ وہ یہ کہانی سناتیں اس دوران ہم بہن بھائی مکئی کی روٹی کھا چکے ہوتے۔ یہ ہمارا ناشتہ ہوتا تھا جو ہم صبح سات بجے سے پہلے سے کر چکے ہوتے کہ ناشتے کے بعد سکول بھی جانا ہوتا تھا۔ فی زمانہ دیکھیے جو پڑھی لکھی سوسائٹی کے بچوں کا ٹرینڈ بن چکا ہے۔ زیادہ تر بچے خالی پیٹ سکول جاتے ہیں۔ اس لیے کہ بچوں کی ماماز یعنی بے جی خود ناشتہ نہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔
زیادہ تر خواتین اٹھ کر ایک کپ چائے کا لیتی ہیں اللہ اللہ خیر صلا۔ جن بچوں کی ماماز صبح ناشتہ نہ کرنے کی عادی ہیں ان کی اولاد ناشتہ نہ کرنے کی ہی عادت اپناتی ہے۔ اب مائیں ان کا لنچ بکس تیار کرتی ہیں یا انہیں جیب خرچ دیا جاتا ہے جس سے وہ اپنا لنچ سکول میں کر سکتے ہیں۔ سکول میں جس لنچ ہوتا ہے اس میں عموما چپس ایک کوک یا ایک جوس ہوتا ہے۔ اب ایک اور چیز کا بھی اضافہ ہو گیا ہے وہ سلینٹی ہے۔ ان سب میں ذرہ برابر بھی طاقت نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں ایک اور دنیا ہے جہاں اپنے ملک کے چالیس فیصد بچوں کو ناشتہ ہی نہیں ملتا۔
یہ معاشرے میں عدم مساوات کا محض ایک زاویہ ہے۔ ملک کی چالیس فیصد بچوں کی تعداد اپنی زندگی کے پہلے تین سال یعنی ایک ہزار دنوں میں مناسب خوراک نہ ملنے کے باعث بہت سارے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مناسب خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کے جسم کی مناسب گروتھ رک جاتی ہے۔ ایسے بچوں کو وہ STUNTEDکہتے ہیں کہ جن کا ایک خاص عمر تک پہنچنے تک اس عمر کے حساب سے ان کا قد نہیں بڑھتا۔
بسا اوقات اس وجہ سے ان جسم پھول جاتا ہے اور ان کی دماغی صلاحیتیں بروئے کار ہی نہیں آتیں۔ جب بے جی کے ناشتے کا زمانہ تھا تب معاشرے میں خوراک کی ایسی عدم مساوات نہ تھی۔ ہم اور ہمارے غریب امیر دوست منجھلی بہن والا ناشتہ ڈٹ کے کرتے تھے۔ تازہ دہی اور نامیاتی آٹے کے پراٹھے۔