Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Siasat Ke Chaudhry

Siasat Ke Chaudhry

چوہدری اسے کہتے ہیں جس کا حکم چاروں طرف چلتا ہو۔ چوہدری یوں تو بنگال تک پھیلے ہوئے ہیں کہ محمد علی بوگرہ بھی اصلی تے خاندانی چوہدری تھے۔ مگر جب سیاست کے چوہدریوں کا ذکر ہو تو یقین ہو جاتا ہے کہ بات گجرات کے چوہدریوں کی ہو رہی ہے۔ اگر چوہدری ہونے کا کوئی انتخابی نشان بن سکتا تو ان گجرات کے چوہدریوں پر ہی سجتا۔

مگر اصل چوہدری وجاہت حسین ہے۔ گجرات کی قلم رو چوہدری وجاہت کے ہاتھ میں ہے۔ البتہ سیاسی سیادت اب باقاعدہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ جب چوہدریوں میں بٹوارہ ہوتا ہے تو دو گروپ کہنے میں وہ لطف نہیں آتا جو دو دھڑوں میں ظاہر و باہر ہے۔ دو بھائیوں یا دو چوہدریوں میں بٹوارہ ان کے اثرورسوخ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایک لڑائی ہے جو گھر سے نکل کر ایوانوں تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب ایک قانونی لڑائی بھی جاری ہے۔

الیکشن کمیشن نے چند دن قبل بڑے چوہدری صاحب کو ہی پارٹی کا صدر قرار دیا ہے۔ گویا لڑائی ابھی تیز ہونی ہے۔ دونوں چوہدری جہاں شریف النفس ہیں۔ دونوں چوہدری اپنا اپنا مقام چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ الزام تراشی بھی جاری ہے اور نزدیک ہونے کی بجائے دوریاں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔ ایک کے ساتھیوں کا دعوی ہے کہ وہ خاندان بچا رہے ہیں دوسرا دھڑا ان ساتھیوں کو خاندان سے دور کرنے کا الزام دے رہا ہے۔ قانونی لڑائی کا یہ انجام بھی ہو سکتا ہے کہ ق لیگ دو دھڑوں میں مستقل تقسیم ہو جائے۔ یہ اب نوشتہ دیوار ہے۔

وزیر اعلٰی کے الیکشن کے موقع پر اچانک چوہدری شجاعت حسین کے خفیہ خط سے یہ دوری ہوئی ورنہ دونوں بھائی ایک گھر میں رہتے ہیں۔ اس خط کی کوئی ایسی توجیہہ بیان نہیں کی گئی جس کو درست مان لیا جائے کہ ایسا خط ایسے وقت میں جاری کرنا کیوں ضروری تھا۔ وہ بڑا بھائی جو باپ کی جگہ تھا کیسے چھوٹے چوہدری کے اقتدار کی راہ کی دیوار بن گیا۔

رموزِ مملکت خویشِ خسرواں دانند

گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش

چوہدریوں کا گجرات کبھی پانچ قومی اسمبلی کی سیٹوں پر مشتمل ضلع ہوتا تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور احمد وٹو کے دور میں تحصیل پھالیہ کو گجرات سے الگ کر کے ضلع منڈی بہاوالدین بنا دیا گیا۔ منڈی بہاؤالدین میں دو ایم این اے کی نشستیں ہیں جس پر ہمیشہ چوہدری ظہور الہٰی کے حلیف سیاست دان ہی کامیاب ہوتے آرہے تھے۔ ان دو نشستوں میں ایک منڈی بہاؤالدین شہر اور دوسری تحصیل ملکوال کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ قومی اسمبلی کی ملکوال والی نشست پر گوندل اور بوسال خاندان کامیاب رہا۔ اسی ضلع سے نذر محمد گوندل ایم این اے کی سیٹ جیت کر وفاقی وزیر بنے تھے۔

اس سے قبل ان کے چھوٹے بھائی میجر (ر) ذولفقار گوندل ایم این اے رہے ہیں۔ جبکہ وہ ایک بار ایم پی اے کا الیکشن جیت کر پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر بھی رہ چکے ہیں۔ آخر ستر کے الیکشن میں اس نشست پر منظور احمد دھدھرا نے محمد نواز بوسال کو شکست دی۔ اٹھاسی کے الیکشن میں عمر حیات لالیکا کامیاب ہوئے اگرچہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اصل میں وہ چوہدری ظہور الہٰی کا ہی دھڑا تھا۔ نوے کی بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں نواز شریف کے ساتھ مل گئے۔ یہ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اب ن لیگ اور ق لیگ یا تحریک انصاف کا آپس میں گویا ویر ہے۔

ملکوال سے منڈی بہاؤالدین مین روڈ اب دوبارہ تعمیر ہو رہی ہے۔ کالجز میں اساتذہ کی کمی ہے۔ پوسٹ گرایجوایٹ کالج کے پاس کی قسم کی ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت بہت خراب ہے۔ چوری ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں عام معمول کا حصہ ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ڈاکؤوں کا گینگ گرفتار ہوا ہے۔ اس حلقے میں تحریک انصاف کی مقبولیت زوروں پر ہے۔ اب وہ ضلعی تحریک انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں کے سیاسی نیتا ضلعی سیاست سے اٹھ کر قومی سیاست میں نمایاں ہو چکے ہیں۔

دوسرا حلقہ منڈی بہاؤالدین شہر کا ہے جو پاہڑیانوالی تھانہ تک پھیلا ہوا ہے۔ شہر کی وجہ سے یہ مسائل کا گڑھ ہے۔ اس میں اصل کام تعلیم کے میدان میں کرنے والا ہے۔ بہت سارے کاموں میں از حد ضروری یونیورسٹی آف گجرات کا کیمپس کا قیام، یونیورسٹی آف منڈی بہاؤالدین کے منصوبے میں تیزی، یونیورسٹی آف رسول کے مسائل، رسول تا مانو چک دو رویہ روڈ، ملکوال منڈی بہاؤالدین روڈ کی تکمیل، پوسٹ گرایجوایٹ کالج کے لیے بسوں کا انتظام اور لا اینڈ آرڈر میں بہتری شامل ہیں۔ خود پرنسپل سیکرٹری وہیں کے ہیں۔ وہ ہم سے کہیں زیادہ باخبر ہیں کہ اس ضلع میں کیا کچھ کیا جانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں منڈی بہاوالدین تیس ارب کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔ اس میں چوراسی منصوبے شامل ہیں۔

پوسٹ گرایجوایٹ کالج ضلع کا واحد سرکاری کالج ہے جہاں ایک درجن کے قریب مضامین میں بی ایس کی کلاسز میں ہزاروں طلبا زیر تعلیم ہیں۔ اس کی جانب دھیان دینا بھی ضروری ہے۔ یہ ضلع صدیوں کے دور دیس کے لوگوں کی مار دھاڑ کی وجہ سے مکمل باغی ہو چکا ہے۔ اِس ضلع کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ضلع زرِ مبادلہ بھیجنے والوں کا گڑھ ہے۔ سیاسی شعور آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ یہ آپ کا ا پنا ضلع ہے اور گجرات ضلع کی سی توجہ کا مستحق ہے۔ اس ضلع کو بھی اپنا ضلع ہی سمجھیں۔

رہی بات دو بھائیوں میں چوہدراہٹ کی تقسیم کی بات تو پنجابی زبان میں کہا جاتا ہے "گھوڑا اس کا ہے جو اس کی پیٹھ پر سوار ہوتا ہے"۔ اقتدار کے گھوڑے کا شاہ اسوار تو چوہدری پرویز الہی ہی ہے۔