اس شخص کے کریڈٹ پر کئی سرکاری اداروں کی کامیاب سربراہی ہے۔ ایسے ادارے جو خسارے میں چل رہے تھے ان کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے منافع بخش اداروں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ وہ خود انرجی کے شعبہ سے بھی وابستہ ہیں اور آل پاکستان شوگر ملز ایسوایسی ایشن کے سربراہ بھی۔ ایک کامیاب صنعت کار ایک کمٹڈ شخصیت ایک بے داغ کیریر۔
اس آپا دھاپی کے دور میں ایک دیانت کی مثال۔ ان کی اسی شہرت کے سبب ان کا نام جسٹس ناصر الملک کے ساتھ عبوری وزیر اعظم کے لیے پینل میں شامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے اداروں کو اب بھی کامیاب اور منافع بخش بنایا جا سکتا ہے، چاہے وہ پی آئی اے ہو چاہے ریلوے یا سٹیل مل ہو۔ چوہدری ذکا اشرف کا خیال ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان Disparity یعنی عدم مساوات ہی اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے تمام معاشی ناکامی کا ملبہ اسی عدم مساوات کی صورت میں نکلا ہے۔
ملک کے ساٹھ فیصد وسائل پر دس فیصد اشرافیہ کا کنٹرول ہے۔ اس کا مطلب محض دولت کا ارتکاز ہے۔ یہ فرق محض دولت تک محدود نہیں رہتا اس بنیادی وجہ سے لوگوں کی تعلیم، صحت، بہتر مواقع اور معیار زندگی میں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور عام آدمی کی زندگی دشوار تر ہو جاتی ہے۔ ماہرین معاشیات اس کا ایک حل وہ تجویز کرتے ہیں جو بھارت میں نریندرا مودی نے 2014ء میں برسراقتدار آ کر اختیار کیا تھا۔
وزرات عظمٰی سنبھالنے کے بعد مودی نے بھارت کے تمام صنعت کاروں اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کا ایک اجلاس بلایا اور تمام صنعت کاروں، ماہرین، بیورورکریسی اور سیاست دانوں سے ان کے مسائل دریافت کیے اور ہر ایک کو بات کرنے کا موقع دیا۔ ان کے مسائل سنے اور اپنا فیصلہ سنایا کہ اس کی حکومت نے ایکسپورٹس بڑھانی ہیں۔
اس سلسلے میں کارپردازان حکومت صنعت کاروں کو نہ صرف سہولیات مہیا کریں بلکہ ایسی سازگار فضا بنانے میں ممد ہوں جن سے برآمدات میں اضافہ ہو۔ بیجا پابندیوں سے گریز کیا جائے انڈسٹری کو پھلنے پھولنے کے لیے حکومت کی مشینری ان کا دست و بازو بنے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت وہ دنیا کی چوتھی بڑی معاشی قوت بن چکا ہے۔
حسنِ نیت ہو تو تمام کام بحسن و خوبی انجام دیے جا سکتے ہیں۔ ملکِ عزیز جیسے ایک کرائسز سے نکلتا ہے تو ایک اور بحران سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ ملک کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ اس ملک کی معیشت ہے۔ معیشیت سے جڑے اور کئی مسائل ہیں گویا معیشت ایک دریا ہے اور اس سے جڑے مسائل اس کی لہریں ہیں۔ کوئی ایک ایسا مسئلہ نہیں جو براہ راست معیشت سے نہ جڑا ہو۔
انرجی سیکٹر کا شعبہ، چینی کی عدم فراہمی کا مسئلہ، بجلی کی قیمتوں میں غیر مناسب اضافہ اور عوام کی قوت خرید کی استعداد میں کمی ایسے کئی مسائل ہیں جو اس بات کے متقاضی ہیں کہ نہ صرف ان مسائل کی طرف توجہ دی جائے بلکہ ماہرین معیشت سے مل کر ان کے حل کا دیرپا انتظام اور بندوبست کیا جائے۔ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل نہ ہو حسنِ نیت پہلی شرط ہے۔ اس وقت ملک میں نہ صرف باہر سے سرمایہ دار نہیں آ رہا اور انویسٹمنٹ نہیں ہو رہی بلکہ موجود صنعتی اداروں کو کام بھی نہیں کرنے دیا جا رہا۔
آئے دن ملک کو ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھی عوام کے آٹے کے مسائل کا سامنا ہے اور کبھی چینی کی عدم فراہمی اور اس کی کم زیادہ ہوتی قیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ملک میں سولہ لاکھ ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں جو ملک کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان کی بروقت ایکسپورٹ سے وہ ایک ارب ڈالر ملک میں آ سکتے ہیں جن کے لیے اور حکومتی زعما آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے پاؤں پڑے ہوئے ہیں۔
اس سولہ لاکھ ٹن برآمد کا انتظام نہ کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ اس سال کرشنگ سیزن کا بر وقت آغاز ہی نہ ہو سکے۔ جب اس مقدار میں سٹاک موجود ہو تو گنے کے کاشتکار اپنی فصل کہاں لے جائیں گے۔ حکومت کی پالیسیاں ایسی ہوں جو کسان کو سہولت فراہم کریں۔ اگر کرشنگ سیزن کا بروقت آغاز نہ ہوا تو حکومت کا تو نقصان ہونا ہی ہے بیچارہ کسان اپنی حق حلال کی کمائی اور سال کی محنت سے محروم ہو سکتا ہے۔ انرجی شعبہ میں آئے دن قیمتوں میں اضافہ عوام کی جان کو آیا ہوا ہے۔ ادھر آئی ایم ایف سے قرض ملتا ہے ادھر ٹیکسوں کی بھرمار اور بجلی کی فی یونٹ قیمت کے اضافے کا حکم آ جاتا ہے۔
آئندہ برس پر یونٹ چالیس روپیہ تک جانے کے بھی امکانات ہیں۔ ایک ضلع کی بجلی کی ضروریات ایک شوگر مل پورا کر سکتی ہے۔ ایسی پیدا شدہ بجلی کی قیمت چودہ روپے پر یونٹ مقرر کی جا سکتی ہے۔ ایک ارب ڈالر مالیت کی برآمد کی تجویز موجودہ حکومت کو بالمشافہ بھی پیش کی گئی تھی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس فالتو چینی کے سٹاک سے ملک کے زرمبادلہ میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس جس کام میں عام آدمی کا بھلا ہو اس کی توقع کسی حکمران سے نہیں کی جا سکتی۔
کسان کی مالی حالت مستحکم کرنے کے لیے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ کسان کو اپنی مرضی پر اپنی فصل بیچنے کا اختیار ہو تو اس کی حالت سنور سکتی ہے۔ چینی کے بحران کے دنوں میں جو چینی بھارت سے درآمد کی گئی تھی وہ قیمت میں تو سستی تھی مگر کوالٹی کے اعتبار سے معیاری نہیں تھی۔ اس چینی میں پانچ فیصد سلفر شامل تھا جو انسان کو جان لیوا بیماریوں میں مبتلا کر سکتا تھا۔
ہمارے ملک کی تاریخ میں صنعتی لحاظ سے کامیاب ترین دور حکومت ایوب خان کا تھا کہ اس دور صنعتی ترقی کے دروازے ہوئے اور عوام کی مالی حالت مستحکم ہوئی۔ اِس وقت ہمارے ملک کے ایک خاندان کا اوسط خرچ اکتالیس ہزار روپیہ ہے جس میں مکان کا کرایہ تک شامل نہیں جو اس کی استطاعت سے کہیں باہر ہے۔ اگر اسے چودہ روپے پر یونٹ بجلی مہیا کی جائے تو اس کا سانس لینا آسان ہو جائے مگر اس کے لیے حسن نیت کی شرط ہے وہ حکمرانوں میں کہاں؟