Monday, 18 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Mirza Nosha Long March Mein

    Mirza Nosha Long March Mein

    مرزا نوشہ نے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے لبرٹی پہنچنا تھا تو ہم نہر کی طرف ہو لیے۔ مرزا نوشہ بولے رکو میاں اس نہر کو دیکھ کر ہمیں نہر سعادت علی خان یاد آ گئی، جو حضرت دلی کے بیچوں بیچ بہتی تھی۔ مرزا یہ نہر بھی شہر کے بیچوں بیچوں بہتی ہے۔ یہ شہر کو خوبصورت بناتی ہے شہر اسے خوبصورت بناتا ہے۔ آرام سے اس کو نظارہ لو کہ اگلے دس دن آپ کو شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی شاہراہ پر سفر کرنا ہے۔ اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو یہ شہر دلی سے قدیم ہے وہاں ہزاروں سلاطین سریرآرائے سلطنت ہوتے رہے یہاں ایک ہزار سال ایک ہی حکم ران ہے۔ اسے داتا کہتے ہیں۔ مرزا بولے لانگ مارچ کی وجہ سے شہر کے بازار بند تو نہیں۔ ہم نے عرض کیا مرزا آپ کو پورے لاہور کی سیر کرواؤں گا۔ تھوڑی دیر نہر کنارے رک لو، پھر سیدھا لانگ مارچ بمقام لبرٹی پہنچ جائیں گے۔ مرزا متوشش نظر آئے۔ مرزا نے پہلے سبزہ زار ہائے مطرا کا نظارہ کیا، ذرا میوہ ہائے تازہ و شیریں پر نظر کی۔

    پوچھا مرزا نوشہ کیا ہوا فرمایا ہم چاہتے ہیں ایک چکر انار کلی کا ہو جائے۔ سنا ہے وہاں تو کلکتے والے جلوے ہوتے ہیں اور حسینانِ شہر زنانِ فرنگ کو شرماتی ہیں۔ ویسے بھی شنید ہے وہاں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ ذرا ادھر سے ہوتے چلتے ہیں۔ (ویسے میاں لڑکے کیا تمہیں پتہ ہے کہ کھوا کا کیا مطلب ہے؟

    ہم ہونق سے مرزا کو دیکھنے لگے خود ہی فرمایا کھوا ہندی زبان میں شانے کا مترادف ہے)۔

    دخترِ رز کی فرمائش سے تم نے معذوری ظاہر کی یہاں کاہے کا عذر ہے۔ مرزا کی بے چین آنکھیں دیکھ کر ہمارا دل پسیج گیا۔ اس بادشاہِ سخن کے سامنے کارِ گفتار کا کہاں یارا تھا آداب بجا لاتے ہوئے کہا مرزا جدھر جانے قصد ہے وہ بقول شخصے "جہاد" ہے۔ مرزا بولے ہم تو جہادِ اکبر کے قائل ہیں۔ تلوار بازوں کی نسل سے ہو کر بھی قلم بھی مرضی سے اٹھایا ہے۔ ہم نے اپنے آپ سے جہاد کیا ہے۔

    ہم نے عرض کیا مرزا یہ اندازِ گل افشانی گفتار کہاں سے سیکھا آپ نے۔ بولے تم جو ایسی لچھے دار گفتگو کر رہے ہو یہ کہاں سے آیا ہے؟ کہا یہ تو آپ سوں کی قدم بوسی کی کرامت ہے ورنہ من آنم کہ من دانم۔ میاں ایسے تارِ عنکبوت میں ہم نہیں آنے والے۔ چلو سیدھا انار کلی بازار یا بانو مارکیٹ۔ مرزا جس کام کے لیے تم دلی سے آئے ہو پہلے وہ کر لو یہ حسینانِ جلوہ فروش یہیں ہیں اور انار کلی کا بازار بھی یہیں ہے۔ وہاں ضرور چلیں گے۔ مرزا نوشہ کچھ بدمزہ سے ہوئے۔ ایک سرد آہ کھینچی اور گاڑی میں آ بیٹھے۔

    گویا ہوئے میاں لڑکے لانگ مارچ کا مقصد کیا ہے مرزا پہلے تو عرض کروں یہ ایک طویل مارچ ہے جو پنجاب سے شروع ہو گا اور ملک پاکستان کے جہان آباد اسلام آباد تک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بولے عمران میاں کا مقصد پوچھا تھا دوبارہ عرض کیا یہ تین سو کلومیٹر نصف جس کا ایک صد پچاس ہوتا ہے کا سفر ہے۔ اب جدید زمانہ ہے۔ ایک کنٹینر پر عمران میاں دولہا کی طرح سوار ہوں گے۔ اس مارچ کی کامیابی اور سفر بخیر کی دعا ہو گی۔

    قبلہ گاہی اجازت مرحمت ہو تو چلیں۔ اجازت ملی تو اپنے ملک کی سیاست پر کچھ کہنے کی جسارت چاہی تو بولے اس نگوڑی سیاست سے توبہ بھلی۔ جب کہا کہ یہاں بقول عمران میاں بادشاہی کا فیصلہ چچا سام کرتا ہے اور مسلمانان پاکستان چودہ اگست کو محض شغل میلہ لگاتے ہیں۔ تب مرزا کے کان کھڑے ہوئے۔ چچا سام کا نام سن کر رنجیدہ سے ہوئے فرمایا یہ اللہ مارا کون ہے۔ چچا غالب کو تو دنیا جانتی ہے۔ اس کے عشاق کا ایک حلقہ ہے۔ اس کو کیسے جرات ہوئی۔

    ہم نے عرض کیا عاشق تو ہم بھی آپ کے ہیں مگر ممبر ہم حلقہ اربابِ ذوق کے ہیں تو بہت بیدل ہوئے۔ کہا اس حلقے کا احوال سناؤ۔ ہم نے کہا مرزا چچاایک اور چچا بھی ہے۔ اس کا ذکر سن لو حلقے کا فی الحال جانے دو۔ چچا سام آج کل بہت معروف ہے۔ اسے چچا کی بجائے انکل کہتے ہیں انکل سام۔ وہ بھی کمپنی بہادر کی طرح بہت ظالم ہے۔ جیسے میجر ہڈسن نے ابوالمظفر بہادر شاہ ظفر کے چار شہزادوں سمیت چوبیس شہزادوں کے سر قلم کیے تھے ویسے ہی انکل سام اب ملکوں کے سربراہان کے سر قلم کرتا ہے۔ چچا اپنے ملک میں چچا سام سے نفرت اور چچا غالب سے محبت کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے عمران میاں کی حکومت اس کے کہنے پر ختم کی گئی تھی۔

    مرزا گویا ہوئے، ارے میاں کیا تذکرہ چھیڑ دیا ہم اپنی پنشن کے سلسلے میں اس شہر میں آئے تھے۔ تب فرنگی یہاں حاکم ہوتا تھا۔ میاں اب یہاں کون حاکم ہے۔ مرزا چپ ہو جاؤ یہاں اصل حاکم کا نام لینا ممنوع ہے۔ پچھلے پچھتر برسوں سے کون حاکم ہے اس کا فیصلہ ہو نہیں پایا۔ رستے میں چند خواتین نظر آئیں تو مرزا سیٹ پر پہلو بدل کر بولے، زنانِ پنجاب تو چھوٹے میاں کلکتہ والیوں سے کہیں آگے ہیں۔ جب لانگ مارچ سے واپس آئے تو مجھے بازار انار کلی ضرور لے چلیو۔ عرض کیا مرزا آپ کے دوست استاد محمد ابراہیم ذوق کے ایک ہونہار شاگرد غدر میں بچتے بچاتے یہاں آ گئے تھے۔ ذوق کے نام مرزا کھل اٹھے گویا ہوئے ہم بھی تو جانیں عرض کیا شمس العلما مولانا محمد حسین آزاد۔ اچھا وہ لڑکا بالا شمس العلما ہو گیا کیا؟

    ساتھ ہی کہا ذوق ایک بے ضرر انسان تھا انسان کو بے ضرر نہیں ہونا چاہیے۔ آپ بے ضرر ہیں تو آپ کی شاعری بھی بے ضرور ہو گی۔ سنا باؤلے میاں۔ اتنے میں ہم لبرٹی پہنچ گئے تھے۔ ایک شورِِ بے ہنگم تھا۔ مرزا کو ثقلِ سماعت کی شکایت تھی نظر البتہ بہت تیز تھی۔ زنانِ خوش جمال کو دیکھ کر تروتازہ ہو گئے جو مئے ناب کا ناغہ ہوا تھا ہوا ہو گیا تھا۔ کہنے لگے عمران میاں کدھر ہے اتنے میں بولے اخاہ وہ رہا کالے چشموں والا۔ یہ تمہارے استاد ذوق کی طرح بے ضرر ہر گز نہیں ہے۔ یہ تو میدانِ سیاست دبیر الملک اسد اللہ خان غالب لگتا ہے۔