Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Adalat Koi Factory Hai?

Adalat Koi Factory Hai?

جج ارشد ملک (مرحوم) کی احتساب عدالت کا چھوٹا سا کمرہ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں پہلی صف میں"مرکزی ملزم"، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دائیں ہاتھ بیٹھا تھا۔ وہ عدالتی کارروائی سے لاتعلق کسی گہری سوچ میں ڈوبے تھے۔ اچانک میری طرف رُخ کرکے بولے۔ "کاغذ قلم ہے آپ کے پاس؟" میں ہمیشہ ان دونوں"ہتھیاروں" سے مسلح رہتا ہوں۔ جیب سے مڑا تڑا سا کاغذ نکالا اور قلم اُنہیں پکڑا دیا۔ میاں صاحب نے کاغذ دائیں زانو پر رکھا اور لکھا "دُکھ درد کے ہاتھوں لُٹ کر بھی اِس دل نے تجھی کو یاد کیا۔ " وہ کاغذ آج بھی میرے پاس ہے۔ بلاشبہ سنگین آزمائشوں کے طویل عہدِ ابتلا میں میاں صاحب نے ہمیشہ اپنے اللہ کو یاد رکھا اور اُسی سے مدد چاہی۔

فرد جرم عائد ہوگئی تو طے پایا کہ میاں صاحب اپنا جواب اردو میں دیں گے۔ رائیونڈ کی نشست میں خواجہ حارث اور اُن کے رفقا کی موجودگی میں یہ بیان تیار ہوا۔ خواجہ صاحب نے قانونی نکات کی بخیہ گری کی۔ میں اُس دن بھی عدالت میں موجود تھا جب میاں صاحب نے یہ بیان پڑھا۔ اس کی ایک کاپی پہلے ہی جج ارشد ملک کو فراہم کی جا چکی تھی۔ نواز شریف بیان پڑھ رہے تھے اور جج ارشد ملک ساتھ ساتھ سامنے رکھے متن کو دیکھ رہے تھے۔ میاں صاحب آخری پیرا گراف پہ پہنچے اور بولے، "میں اپنا بیان ختم کرتے ہوئے، اپنے ایمان، ضمیر اور یقین کی بنیاد پر دو ٹوک الفاظ میں اِس ریفرنس کے تمام الزامات کی تردید کرتا ہوں۔

قانون اور انصاف کے ترازو میں اس ریفرنس کا کوئی وزن نہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ معزز عدالت سارے معاملے کا ایک سچے، کھرے اور فرض شناس مُنصف کے طور پر جائزہ لے گی۔۔ " نواز شریف یہاں تک پہنچے تھے کہ جج صاحب نے جھُرجھُری سی لی اور بولے، "بس بس بس۔ آگے نہ پڑھیں" میاں صاحب نے کاغذ سے نگاہ اٹھا کر لمحہ بھر کے لیے جج کو دیکھا اور ان کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے بیان کے آخری جملے پڑھنے لگے، "آج میں آپ کی عدالت میں کھڑا ہوں۔ کل ہم سب کو اللہ کی عدالت کے سامنے پیش ہونا ہے۔ وہ عدالت کسی جے آئی ٹی، کسی ریفرنس، کسی استغاثہ اور کسی گواہ کی محتاج نہیں ہوتی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سرخرو فرمائے۔ "

میں آج بھی سوچتا ہوں کہ جج ارشد ملک نے میاں صاحب کو یہ جملے پڑھنے سے کیوں روکا تھا؟ اُس نے جھُرجھُری کیوں لی تھی؟ شاید اُس کے اندر کوئی گھنٹیاں سی بج اٹھی تھیں۔ فیصلہ تو سنا دیا لیکن یہ راز بھی فاش کر گیا کہ اُس پر کیا دباؤ تھا۔ خود رائیونڈ جا کر روتے ہوئے معافی بھی مانگی۔ بلاشبہ کسی بڑی عدالت کا خوف اُسے بے کَل کیے ہوئے تھا۔ سو اللہ کے حضور پیش ہونے سے پہلے وہ اپنے بال و پر سے، لغزشوں اور کوتاہیوں کا گرد و غبار جھاڑ دینا چاہتا تھا۔ اللہ اُس کی روح کو آسودگی بخشے۔

معلوم نہیں بُغض و عناد میں لتھڑی، پرلے درجے کی ناانصافیوں کے ازالے کو "انصاف" کہا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن کچھ لوگ اسے، "سہولت کاری" کا نام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عدلیہ آزاد ہے تو جس طرح نوازشریف کی بریت ہو رہی ہے اسی طرح عمران خان کو بھی ہر جُرم سے مُنَزّہ اور مُصَفّیٰ قرار دے کر چھوڑ دینا چاہیے۔ اُن کے نزدیک نوازشریف اور عمران خان سے یکساں سلوک ہونا چاہیے یعنی ایک بری قرار دیا جاتا ہے تو دوسرا بھی، جرم کی سنگینی اور نوعیت سے قطع نظر بری کر دیا جائے۔

اس بات میں کسی کو کلام نہیں کہ اگر یہ ملک ایک آئین رکھتا ہے، اگر یہاں واقعی قانون و انصاف کی فرمانروائی ہے تو اُس کا اطلاق عمران خان سمیت ہر شہری پر ہونا چاہیے۔ اگر گئے دنوں میں عمران خان کی خواہش پر، عمران خان ہی کا راستہ ہموار کرنے کے لیے، قانون و انصاف کو کُند چھری سے ذبح کیا گیا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آج عمران خان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے۔ اگر عمران خان نے بطور وزیراعظم، مخالفین کے حقوق کُچلے، اُنہیں مقدمات میں اُلجھایا، سزائیں دلوائیں، زندانوں میں ڈالا، برملا اُنہیں"تکلیف پہنچانے" کے اعلانات کیے تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس بیمار اور غیر انسانی رویے کی پیروی کرتے ہوئے عمران خان کو بھی عبرت کا نمونہ بنا دیا جائے۔

لیکن دیکھنا ہوگا کہ کیا دنیا کے کسی مہذب یا غیر مہذب ملک میں یہ دستور العمل رائج ہے کہ جُرم کی نوعیت سے قطعِ نظر تمام ملزموں کو ایک جیسی سزائیں یا ایک جیسی رعایتیں دی جائیں؟ کون سا ضابطہئِ قانون و انصاف، سزا یا رعایت میں"مساوات" کے تصوّر پر یقین رکھتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو نیچے سے اوپر تک مختلف عدالتی مراحل کیوں ہیں؟ وکلا کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ ہر جرم کی الگ سزا کیوں مقرر ہے؟ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے عدالتوں کو طویل عرصہ کیوں لگ جاتا ہے؟

بلاشبہ عمران خان کا شمار سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں لیکن اُن پر قائم مقدمات، نہ تو نواز شریف کی طرح بیس تیس سال پرانے معاملات پر ہیں، نہ ہی تَجرِیدی، تخیلاتی اور فرضی ہیں۔ توشہ خانہ کی گھڑیاں اور دیگر قیمتی تحائف بازار میں بیچنے سے وہ خود بھی انکاری نہیں۔ 190 ملین پاؤنڈ کی پوری کہانی مصدقہ دستاویزات کے ساتھ موجود ہے۔ یہ بھاری رقم باہر سے آئی، اُسے قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے ایک نجی کھاتے میں ڈال دیاگیا۔ نجی کھاتے دار سے کروڑوں کی زمین اور بھاری رقوم وصول کی گئیں اور یہ سب کچھ اُس وقت ہوا جب خان صاحب وزیر اعظم تھے۔ "شریکِ جرم" ہونے کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ کابینہ کو کچھ بھی نہ بتایا گیا اور ایک "لفافے" کو فائل کا درجہ دے کر منظور کرا لیا گیا۔ تیسرا مقدمہ سیاسی مفاد کے لیے قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والے سائفر سے کھیلنے اور پھر گم کر دینے یا کسی کے حوالے کر دینے کا ہے۔ اِن سب سے ہٹ کر 9 مئی کی خوں آشام، شام، بے نیام تلوار کی طرح اُن کے سر پر لٹکی ہے۔ اگر یہ سازش نہیں تھی تو اٹھارہ فوجی افسران کو کس جرم کی سزا دی گئی؟

کیا عمدہ دلیل ہے کہ اگر نواز شریف، چھ برس تک ناانصافیوں کے تازیانے کھانے کے بعد دہائیوں پُرانے بے سروپا مقدمات میں بری ہو رہا ہے تو عمران خان کے مقدمات کی تفصیل میں جائے بغیر، ہر نوع کی عدالتی کارروائی کا دفتر لپیٹتے ہوئے، عمران خان کو بھی بری قرار دے کر زنداں کا پھاٹک کھول دیاجائے۔ آئین، قانون، ضابطہ ہائے فوجداری، جزا و سزا کی اخلاقیات سب کچھ جائے بھاڑ میں۔ عدالت نہیں کوئی فیکٹری ہوگئی جسے کمانڈ دے دی جائے تو ایک ہی سائز کی چیزیں بناتی اور پھنکتی چلی جاتی ہے۔

آج جیل میں عدالت لگی ہے۔ کبھی ایک عدالت اٹک قلعے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں بھی لگتی تھی۔ بنیادی بات صرف ایک ہے کہ آئین و قانون کے ہوتے ہوئے کسی کے ساتھ نواز شریف والا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کوئی نہیں ہو سکتی کہ جرم کی نوعیت کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے سیاستدانوں کی سزا یا بریت کے فیصلے "مساوات" کے اصول پر ہونے چاہئیں۔