آج 7ستمبر ہے، سینتالیس سال قبل اسی روز پاکستانی پارلیمنٹ نے متفقہ تاریخی فیصلہ سے ایک سو سال پرانا مذہبی مناقشہ ختم کیا، یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع اس گروہ نے خود فراہم کیا جو عشروں سے مسلسل احتجاج کے باوجود مسلم اکثریت کے سینے پر مونگ دل رہا تھا حالانکہ تصوّر پاکستان کے خالق علامہ اقبال تقسیم برصغیر سے قبل جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں اس اقلیتی گروہ کو اسلام اور ہندوستان کا غدار قرار دے چکے تھے، 1974ء میں تحریک ختم نبوت کا آغاز کیسے ہوا، ہر طبقہ فکر کے مسلمانوں نے کیا قربانیاں دیں اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قومی پارلیمنٹ اس گروہ کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے تک کیسے پہنچی؟ ایک طویل داستان ہے۔ ڈاکٹر فرید پراچہ ان دنوں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے اور تحریک ختم نبوت میں طلبہ دستے کے قائد، تازہ کتاب"عمر رواں " میں لکھتے ہیں:
"1974ء کی تحریک ختم نبوت میں شمولیت، ہماری یونین کی بہت بڑی سعادت ہے اور ہم اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس تحریک کے نتیجہ میں امت مسلمہ کا ایک دیرینہ مسئلہ حل ہوا۔ عقیدہ ختم نبوت صرف جزو ایمان ہی نہیں، اصل ایمان ہے۔ امت مسلمہ کی اساس ہے شان رسالت مآب ﷺ کا روشن ترین باب ہے۔ جسد ملت میں دوڑتا ہوا پیغام زندگی ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ اس پر ایمان نہ رکھنے والا۔ یا شک و سبہ کا اظہار کرنے والا۔ یا اس میں نقب لگانے والا۔ ظلی و بروزی نبی ہونے کے چور دروازے ڈھونڈنے والا۔ حتیٰ کہ نبی کریمﷺ کے بعد کسی مدعیٔ نبوت سے دلیلیں مانگنے والا بھی۔ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
7ستمبر 1974ء کو امت مسلمہ نے اپنے اس عقیدے کو دستوری شکل دی اور 1974ء کی تحریک ختم نبوت کے نتیجہ میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اور عقیدہ ختم نبوت کے اظہار کو صدر، وزیر اعظم و دیگر اہم عہدوں کے حلف کا حصہ بنایا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ جس پر پوری قوم نے اللہ کریم کا شکر ادا کیا اور ملک کے طول و عرض میں بے پناہ خوشی اور تشکر کا اظہار کیا گیا۔"
"قادیانیوں نے پوری تیاری کر کے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے ان طلبہ پر قاتلانہ حملہ کر دیا کہ جنہوں نے ٹور پر جاتے ہوئے ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ ان طلبہ کو ختم نبوت کے حق میں نعرے لگانے کا مزا چکھانے کے لئے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد کی ہدایت پر ہزاروں قادیانی آتشیں اسلحہ، لاٹھیوں، ڈنڈوں، ہاکیوں، سریوں سمیت ان طلبہ پر ٹور سے واپسی کے موقع ٹوٹ پڑے۔ لٹا لٹا کر ایک ایک طالب علم کو بری طرح زدو کوب کیا گیا اور ان کو وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے، شدید زخمی کر دیا گیا۔ ڈاکٹر ارباب عالم خان۔ نشتر میڈیکل کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے اہم رہنما طلبہ کے اس گروپ کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کا بھی سر پھاڑ دیا گیا۔ جب ان زخمی اور لہولہان طلبہ کی گاڑی فیصل آباد(اس وقت لائل پور) پہنچی تو اطلاع ملنے پر وہاں کے اہم علمائے کرام کی قیادت میں سینکڑوں اہل ایمان ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ ان طلبہ کی مرہم پٹی کرائی گئی۔ شدید زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور پھر اس انتہائی اشتعال انگیز واقعہ پر پورے ملک میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ جو بعدمیں ایک منظم تحریک ختم نبوت میں ڈھل گئے۔ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا منتخب صدر تھا۔ اطلاع ملتے ہی سینکڑوں طلبہ باہر نکل آئے۔ شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ یونیورسٹی سے نکل کر سڑکوں پر آیا۔ میں نے وسطی پنجاب کا دورہ کیا۔ میرے ہمراہ محمد انور گوندل، نعیم سرویا، عبدالحفیظ احمد، حافظ وصی محمد، حافظ شفیق الرحمن اور راجہ شفقت حیات تھے۔ ہم نے لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، فیصل آباد، ساہیوال اور دیگر کئی اضلاع کے طوفانی دورے کئے۔ اس دوران گرفتاریاں بھی ہوئیں اور جلوسوں پر وحشیانہ تشدد بھی۔"
"جمعیت کے ذمہ داران نے یہ بھی طے کر دیا کہ اس تحریک کو زندہ و بیدار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ رہنما ہر جلسہ میں ضرور پہنچیں تقاریر بھی کریں لیکن گرفتاریوں سے بچیں۔ اس ہدایت پر اتنے اچھے طریقے سے عمل ہوا کہ پنجاب پولیس جو ملزموں کو پکڑنے میں بہت مشہور ہے بالکل بے بس ہو کر رہ گئی۔
ہمارے کئی ساتھیوں کے احکام نظر بندی جتنی مدت کے لئے جاری ہوتے وہ مدت بھی گزر جاتی اور ساتھی گرفتار نہ ہو پاتے بعض کو اشتہاری قرار دیا گیا اکثر کی گرفتاری پر انعامات مقرر ہوئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہم میں سے کوئی نہ مفرور ہوتا اور نہ ہی پردہ سکرین سے غائب، جلسوں میں موجود ہوتے گرما گرم تقاریر کرتے اور پھر پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر غائب ہو جاتے۔ اس سلسلہ کا آغاز اچھرہ سے ہوا۔ تکیہ لہری شاہ اچھرہ میں جلسہ تھا، ڈی ایس پی بھاری فورس کے ساتھ جلسہ کے بعد گرفتاری کے لئے آمدو رفت کے واحد راستہ پر ڈٹ کر کھڑا تھا۔ جلسے کے اختتام پر دعا کے وقت مین سوئچ بند ہو گیا۔ مجھے سٹیج سے ہی کارکنان نے ہمراہ لیا، جلسہ گاہ میں ایک گھر کی کھڑکیاں کھلتی تھیں۔ ادھر سے میں دوسرے علاقہ میں جا نکلا۔ ادھر کارکنان نے ایک نابینا حافظ قرآن کو کندھوں پر اٹھایا، فرید احمد کے نعرے لگاتے جلوس کی شکل میں باہر لے آئے، جب ڈی ایس پی نے فرید پراچہ کی بجائے نابینا حافظ قرآن کو دیکھا تو سٹپٹا اٹھا، میں اس دوران چار کلو میٹر دور جا چکا تھا۔"
"تحریک ختم نبوت کے دوران ہی ایک مرتبہ میں کہیں فون کر رہا تھا کہ غلطی سے کوئی اور لائن درمیان میں مل گئی۔ آواز جانی پہچانی تھی۔ مجھے یہ جانے میں کوئی دیر نہ لگی کہ یہ وزیر اعلیٰ حنیف رامے تھے۔ ان کی گفتگو میں اپنا نام سن کر میں چونکا وہ چیف سیکرٹری کو ہماری گرفتاریوں کے آرڈر دے رہے تھے۔ غلطی سے مل جانے والی یہ کال رحمت خداوندی ثابت ہوئی اور ہم نے متعدد گرفتاریوں کا پہلے ہی توڑ کر لیا۔"
ستمبر 1974ء میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔ ہم نے اسلام آبادمیں مظاہروں کا پروگرام بنایا۔ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اس دوران اسلام آبادمیں کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہماری گرفتاریوں کے پروانے جاری ہو گئے۔ میرے ہمراہ یونین کے سیکرٹری جنرل عبدالشکور، نائب صدر مسعود کھوکھر، جامعہ کراچی کے اس وقت کے صدر سٹوڈنٹس یونین شفیع نقی جامعی(بی بی سی کے معروف براڈ کاسٹر) سٹوڈنٹس رہنما راجہ شفقت، شہباز شیخ، حافظ سلمان بٹ، انجینئرنگ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر نعیم سرویا، سیکرٹر ی اکمل جاوید، زرعی یونیورسٹی کے صدر حافظ وصی خان، لاء کالج کے صدر ضیاء اللہ خان و دیگر بے شمار طلبہ رہنما موجود تھے۔ ہم نے راولپنڈی اسلام آباد کے اس وقت کے طالب علم رہنمائوں شیخ رشید، حفیظ اللہ نیازی، تنویر صادق، پرویز رشید، بابر اعوان وغیرہ سے ملاقاتیں کیں۔ ہمارے وفود نے حکومتی اور اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ سے بھی ملاقاتوں کا ایک جامع اور تیز رفتار پروگرام بنایا۔ ان پر واضح کیا کہ اگر آپ اسلامیان پاکستان کے جذبات کا ساتھ دیں گے تو قوم آپ کو خراج تحسین پیش کرے گی۔ اگر آپ نے اس موقع پر اپنا تاریخی کردار ادا نہ کیا تو پھر نہ قوم آپ کو معاف کرے گی نہ تاریخ۔
ہم نے مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود، پروفیسر غیور احمد و دیگر رہنمائوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ سے بھی ملاقاتیں۔ انتظامیہ ہماری گرفتاری کے لئے پے درپے چھاپے مار رہی تھی لیکن مقررہ تاریخ پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے تعلیمی اداروں سے بڑے بڑے جلوس نکلے۔ ہم نے لال مسجد میں ختم نبوت کانفرنس کا اعلان کر رکھا تھا۔ پولیس نے مسجد کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا لیکن ہم تمام رکاوٹوں کو توڑ کر مسجد پہنچنے میں کامیاب ہوئے، زور دار کانفرنس ہوئی۔
اگرچہ بعد میں کافی طلبہ گرفتار ہوئے۔ لیکن ہمارے لئے یہ اطمینان کافی تھا کہ الحمد للہ ہماری محنتیں رنگ لائی ہیں۔ اسلامیان پاکستان کی جدوجہد، علمائے کرام کی عظیم الشان تگ و تاز۔ ممبران پارلیمنٹ کے قابل تعریف جذبہ ایمانی۔ اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ حکومتی ممبران بالخصوص ذوالفقار علی بھٹو کے اس مسئلہ میں جرات مندانہ فیصلہ اور خصوصاً پاکستان بھر کے طلبہ کی عظیم الشان اور تاریخی مہم کی وجہ سے تحریک ختم نبوت کامیاب ہوئی اور قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔