شدید، لگاتار اور تباہ کن بارشوں اور سیلابی ریلوں سے خیبرپختونخوا، سرائیکی وسیب، سندھ اور بلوچستان میں قیامت صغریٰ برپا ہے، ایک ہزار سے زائد انسان، ہزاروں جانور، لاکھوں ایکڑ رقبے پر موجود فصلیں، باغات اور ہزاروں کچے پکے مکانات، دکانیں اس آفت کی نذر ہو چکے، کئی بستیاں، قصبے صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور سڑکوں، پلوں، ہیڈورکس کا نقصان سوا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں (جن کا کام ہی مستقل بنیادوں پر قدرتی آفات سے نمٹنا ہے) کے ہاتھ پائوں پھول چکے ہیں اور جے ایس بروکریج کی ریسرچ کے مطابق 2010ء کے سیلاب سے کہیں زیادہ شدید طوفانی سیلاب نے انسانی زندگی، فصلوں، مویشیوں اور بنیادی ڈھانچے کو کم و بیش 900 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ اچانک سیلاب اور غیر متوقع بارشوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر ہمارے حکمران، فیصلہ ساز اور سرکاری اہلکار اپنی ظالمانہ کوتاہی، مجرمانہ غفلت اور شہرہ آفاق نالائقی کی پردہ پوشی کر رہے ہیں مگر ہر دوچار سال بعد قدرتی آفات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ستم رسیدہ عوام بخوبی جانتے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں سیلاب اچانک آتے ہیں نہ بارشیں غیر متوقع طور پر برستی ہیں۔
2010ء اور 2014ء میں بھی مظلوم عوام کو حکمرانوں کے ایسے ہی بھاشن سننے کو ملے تھے اور اب بھی انہی الفاظ، اصطلاحات اور طفل تسلیوں سے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے۔ 2014ء میں"اچانک سیلاب، غیر متوقع بارشوں" کے عنوان سے میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کے چیدہ چیدہ اقتباسات پیش خدمت ہیں:
"اچانک سیلاب کا واویلا بھی خوب ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر ہر وفاقی اور صوبائی وزیر تک یہی شور مچا رہا ہے کہ ہماری منصوبہ بندی تو کمال کی تھی، سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائو کے انتظامات بھی مثالی تھے مگر اچانک سیلاب نے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اور زیادہ نقصان ہوا، وغیرہ وغیرہ۔ "
"ہمارے ہاں حکومت کسی کی ہو فوجی یا جمہوری، مستقل اور پائیدار منصوبہ بندی کسی شعبے میں نہیں کرتی، ڈنگ ٹپائو پروگرام ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ملک کی "پکی نوکری والی" سدا بہار حکمران بیورو کریسی بھی معمول کا فائل ورک کرتی ہے، ہر سال بجٹ کی بندر بانٹ بھی، مگر دریائوں کے اردگرد بند باندھنے اور بارشی و سیلابی پانی کو ڈیموں میں محفوظ کرنے یا سمندر تک کسی رکاوٹ کے بغیر راستہ دینے کی پائیدار سکیمیں نہیں بناتی۔ ظاہر ہے کہ یہ کام مستقل بنیادوں پر ہو گیا تو حکمرانوں، بیوروکریٹس اور سرکاری اہلکاروں کو ہر سال اربوں روپے ہڑپ کرنے کا موقع نہیں ملے گا اورفنڈ خوروں کے وارے نیارے نہیں ہوں گے۔ "
"2002ء میں ڈیرہ غازی خان کے دورے میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کو میں نے بتایا کہ کوہ سلیمان پر بارشوں کی صورت میں رودکوہیوں کا پانی خوب تباہی مچاتا ہے، کھیت کھلیان، گھر، گھروندے، مال مویشی اور انسان نشانہ بنتے ہیں، مستقل سدباب کیا جائے تو یہ پانی آبپاشی اور آب نوشی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے صوبائی اورمقامی بیورو کریسی کو حکم دیا۔ فنڈز مختص ہوئے مگر تاحال کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ ہر سال عارضی بند باندھنے اور اگلے سال انہیں نئے سرے سے تعمیر کرنے کے علاوہ متاثرین کی امداد کے لئے کروڑوں روپے بٹورنے والے سرکاری اہلکار، افسر اور عوامی نمائندے خردبرد کا یہ مستقل کھاتہ بند نہیں کرنا چاہتے۔ اپنے پیٹ پر لات کون مارتا ہے۔ عارضی لیپا پوتی میں سب کا بھلا ہے۔ "
"2010ء میں تباہ کن سیلاب آیا تو پنجاب حکومت نے ایک فلڈ کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ جسٹس منصور علی شاہ تھے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں محکمہ آبپاشی کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار قرار دیا، سیلاب زدہ علاقے میں تعمیرات روکنے، کاشتکاری کو ریگولیٹ کرنے اور پیشگی وارننگ کا موثر، مربوط اور پائیدار نظام تشکیل دینے کے علاوہ کئی سفارشات اور تجاویز پیش کی گئیں مگر ان تجاویز اور سفارشات میں سے کسی پر عملدرآمد ہو سکا نہ غفلت کے ذمہ دار افسروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ چار سال (اب بارہ سال)گزرنے کے بعد صورتحال جوں کی توں ہے۔ موثر انتظامات ہوئے نہ پائیدار منصوبے بنے، البتہ 2014ء کے سیلاب کو اچانک قرار دے کر حکمران اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں اور معترضین کو تنقید برائے تنقید کا ذمہ دار۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ "
"آج کے ترقی یافتہ دور میں سیلاب اچانک آتے ہیں نہ شدید بارشوں کا قبل از وقت پتہ چلانا مشکل ہے۔ چیف میٹرولوجسٹ محمد ریاض نے گزشتہ روز وفاقی وزیر پانی و بجلی کے اس بیان کی تردید کی کہ شدید بارشوں کی اطلاع محکمہ موسمیات نے دو دن قبل دی۔ چیف میٹرولوجسٹ نے کہا کہ زیادہ بارشوں کی اطلاع جولائی میں دیدی گئی تھی اور ان بارشوں کے باعث سیلاب کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا مگر حکومت نے اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ چیف میٹرولوجسٹ کے اس بیان کے بعد اچانک سیلاب اور غیر متوقع بارشوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والے حکمرانوں کے بارے میں آدمی کیا کہے جو کبھی دو سو انسانوں کی اموات پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، کبھی دھرنا دینے والوں پر برستے ہیں اور کبھی بھارت کی زیادتی کا رونا روتے ہیں کہ اس نے بروقت اطلاع نہیں دی۔ "
"بہانے بیورو کریسی کے پاس ہزار ہیں اور حکمرانوں کے پاس اس سے کہیں زیادہ۔ دریا ہر سال تباہی مچاتے ہیں۔ بارشوں سے ہر سال اموات واقع ہوتی ہیں، کبھی کم کبھی زیادہ اور غریبوں کے کچے گھروندے گر جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ چند روزہ بھاگ دوڑ، حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر قومی خزانے سے معمولی امداد، فوٹو سیشن اور بے مغز بیانات کے سوا کچھ دیکھنے کو ملتا ہو۔ سیلاب کی روک تھام، بارشی پانی کو آبپاشی کے لئے استعمال کرنے کا کوئی منصوبہ، کوئی نیا ڈیم، مضبوط پشتے، بیٹ کے علاقے میں رہائش کالونیوں کی روک تھام اور محکمہ موسمیات کی وارننگ کے مطابق مناسب و موثر انتظامات؟ بہانے سازی اور الزام تراشی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ "
آٹھ سال پرانا کالم پڑھ کر قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اور ہمارے حکمران، فیصلہ ساز، قسمت کے مالک کہاں کھڑے ہیں؟ اس بار تباہی پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور حکمرانوں کی لاپروائی، غفلت اور بے حسی بے مثل و لاجواب، دو ہفتے تک کسی کو خیال ہی نہیں آیا، تیسرے ہفتے کانوں پر جوں رینگی اور چوتھے ہفتے ریلیف فنڈ کا اعلان ہوا۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ، چھینا جھپٹی اور قومی وسائل کی بندربانٹ روزمرہ کا معمول ہے۔
کالا باغ ڈیم اور کوہ سلیمان کے نیچے کئی مضبوط بند و ڈیموں کی تعمیر سیلابوں اور طوفانی بارشوں سے بچائو کا موثر حل ہے، قدرتی نعمت سے سستی بجلی کا حصول اور آبپاشی و آب نوشی کے لیے لاکھوں ایکڑ فٹ پانی کی دستیابی ہے مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ، جس کے ہمارے فیصلہ ساز عادی نہیں۔ ہماری قسمت میں پانی میں ڈوبنا لکھا ہے یا پانی کی کمی کے باعث پیاس و افلاس کا سامنا کرنا، سو سندھ، بلوچستان، سرائیکی وسیب اور خیبرپختونخوا کے سیلاب زدہ عوام بھوک، پیاس، افلاس، وبائی امراض اور قدرتی آفتوں کا سامنا چاروناچار کر رہے ہیں کہ جاگیرداروں، وڈیروں، مخدوموں، سرمایہ داروں اور دیگر استحصالی گروہوں کے آہنی شکنجے میں جکڑی قوم کا یہی مقدر ہے۔
(پس تحریر: عمران خان نے پیر کی شب سیلاب زدگان کی امداد کے لیے انٹرنیشنل ٹیلی تھان کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر قومی اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان میں عمران خان کی غیرمعمولی پذیرائی کے پیش نظر حکومت اور پیمرا قومی، نظریاتی اداروں کو ٹیلی تھون میں شرکت کی اجازت دے کر ستم رسیدہ عوام کی دلجوئی کرسکتے ہیں اور انہیں کرنی چاہیے۔)