بیس سال بعد افغان طالبان کی دارالحکومت کابل میں فاتحانہ واپسی پر واشنگٹن سے لے کر لندن اور بیجنگ سے لے کر ماسکو تک ہر عسکری ماہر، دانشور اور تجزیہ کار حیران ہے، کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ امریکہ و نیٹو کو انخلا پر مجبور کرنے والے طالبان سرعت سے، چند ہفتوں میں پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر ہر کلمہ گو کا اپنے اللہ بزرگ و برتر پر ایمان و یقین مزید پختہ ہوا، وتعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علیٰ کلی شیِٔ قدیر (اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، تمام بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے بیشک تو ہر شیٔ پر قادر ہے) میرا تعلق اس خوش قسمت نسل سے ہے جس نے اپنی زندگی میں دو سپر پاورز کو افغانستان سے بصد سامان رسوائی پسپا ہوتے دیکھا اور قرآن مجید میں درج اس خدائی فرمان پر ہر بار ایمان لایا کہ و کم من فئتہ قلیلتہ غلبت فئتہ کثیرۃ باذن اللہ (بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے)
نیٹو ہی نہیں، پوری عالمی برادری کی سیاسی، سفارتی، عسکری تائید و حمائت، بے پایاں معاشی وسائل، عہد جدید کی ہیبت ناک جنگی مشینری اور سائنسی و تکنیکی برتری سے لیس امریکہ کی شکست، پسماندہ، بے وسیلہ، خالی ہاتھ ننگے پائوں، افغان طالبان کی کامرانی تاریخ کا ایک ایسا محیر العقول واقعہ ہے جس پر صدیوں تک، تعلیمی، تحقیقی، عسکری اداروں میں بحث ہونی چاہیے اور ہو گی، یہ محض طالبان کی عسکری کامیابی اور امریکہ و نیٹو کی فوجی شکست نہیں، مغربی میڈیا کے بقول عہد جدید کے تقاضوں سے "قطعی بے بہرہ۔ کالی پگڑی اور لمبی داڑھی، والوں نے فرسٹ ورلڈ کو سیاسی اور سفارتی سطح پر ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، بھارت اور جرمنی میں سے کسی ملک کی خفیہ ایجنسی، وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور ایوان صدر، وزیر اعظم کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور افغان طالبان امریکی انخلا مکمل ہونے سے دو ہفتے قبل کابل کے صدارتی محل میں داخل ہو گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن، برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، ان کے وزیر دفاع، سی آئی اے، ایم آئی سکس اور "را" کے سارے اندازے، تجزیے سوفیصد غلط ثابت ہوئے اور جدید ترین اسلحہ سے لیس امریکی و نیٹو جرنیلوں کی تربیت یافتہ تین لاکھ افغان نیشنل آرمی چند ہزار طالبان کے سامنے یوں بکھر گئی جیسے پانی میں بتاشہ۔
9/11کے بعد امریکہ نے افغانستان کا قصد کیا تو میرے جیسے قلم کے مزدوروں نے اپنی تحریروں میں واحد سپر پاور کو باور کرانے کیکوشش کی کہ افغانستان، سپر پاورزکا قبرستان ہے، جتنی بھی عظیم ریاستوں کے طاقت کے نشے میں بدمست جنونی حکمرانوں نے افغانستان کو فتح کرنے کا ارادہ کیا، عبرت ناک رسوائی سے دوچار ہوئے، امریکہ نے تو خیر اردو میڈیم صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی بات کہاں سننی تھی، پاکستان کے اقتدار پر قابض فوجی جرنیل جنرل پرویز مشرف نے بھی امریکہ کی عسکری قوت اور سائنسی برتری کے حق میں دلائل کے انبارلگا دیے، امریکہ سے مرعوب اور وظیفہ خواردانشوروں نے فوجی آمر کی ہاں میں ہاں ملائی اور خوب نمک حلال کیا، مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں نے اپنے کالم کا عنوان "افغان باقی، کہسار باقی" رکھا تو میرے ایڈیٹر جناب مجید نظامی مرحوم نے اسامہ بن لادن اور ملّا عمر کی تصاویر کے ساتھ نوائے وقت کے صفحہ تین پر اقبالؒ کا شعر روزانہ شائع کرنے کی ہدایت کی۔ جب تک میں نوائے وقت سے وابستہ رہا یہ شعر دونوں کی تصاویر کے ساتھ شائع ہوتا رہا اور جنرل پرویز مشرف تصاویر نہ شائع کرنے کے لئے مسلسل دبائو ڈالتے رہے۔ نوائے وقت چھوڑ کر میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوا تو میں نے پہلا کالم اس عنوان سے لکھا جس کا مقصد اپنے محترم قارئین کو یہ بتانا تھا کہ ادارہ چھوڑنے کے باوجود قلم کے مزدور نے موقف بدلا ہے نہ اس کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ، اور نصرت پر یقین کمزور ہوا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن میرے ایک دو ترقی پسند دوست ہمیشہ دوران ملاقات "افغان باقی کہسار باقی" والا مصرعہ پڑھ کرچٹکی کاٹتے اور اپنے طور پر محظوظ ہوتے ہیں، اب شائد درگزر کریں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ نے طاقت کے نشے میں سپر پاورز کے قبرستان میں دفن ماضی کی عظیم ریاستوں کے انجام سے سبق سیکھا نہ اس سے مرعوب حکمرانوں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے سوچنے کی زحمت گوارا کی اور نہ اس بنیادی حقیقت کو مدنظر رکھا کہ موت سے نہ ڈرنے والوں کو تاریخ میں کبھی کوئی مرعوب کر سکا نہ سرنگوں، غالباً ملا عمر نے ہی کسی امریکی سفارت کار یا صحافی سے یہ کہا تھا کہ گھڑی آپ کے پاس ہے اور وقت ہماری گرفت میں، امریکی، یورپی بلکہ عالمی اندازوں سے کئی سال، مہینے، ہفتے قبل طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے دنیا کو جتلادیا کہ وقت واقعی طالبان کی گرفت میں تھا۔ انہوں نے جب چاہا، جو چاہا فیصلہ کیا اور دنیا ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ گئی۔
افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان عرصہ محشر میں کھڑے ہیں۔ صوفیا کہتے ہیں کہ اقتدار انسان کو بطور انعام ملتا ہے یا بغرض امتحان، جو لوگ اقتدار اور حکومت کو امتحان سمجھتے اور اس سے بحسن و خوبی عہدہ برا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لئے یہ انعام بنا دیتا ہے اور جو اسے انعام گردان کر خرمستیاں کرنے لگیں رضا شاہ پہلوی، پرویز مشرف اور اشرف غنی کی طرح تکبّر کا شکار، نوشتہ دیوار پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں وہ آزمائش سے دوچار ہوتے اور رسوائی کا سامنا کرتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ملّا عبدالغنی برادر، عبدالقیوم ذاکر اور ملّا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کے حوالے یا اندرون ملک داخل زندان کرنے والا پرویز مشرف آج خود دربدر ہے اور امریکہ ان قیدیوں سے اپنے شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کی بھیک مانگ رہاہے، کوئی مانے نہ مانے طالبان کی امریکیوں کے مقابلے میں جنگی حکمت عملی ہر لحاظ سے بہتر ثابت ہوئی، سفارتی و سیاسی صلاحیت برتر اور راز داری بے مثل و بے نظیر، ایسی رازداری کہ ایک دن پہلے تک امریکیوں کو یہ پتہ نہ چل پایا کہ طالبان کب اور کیسے کابل میں داخل ہوں گے۔؟
طالبان کی کامیابی میں عالم اسلام اور اس کے حکمرانوں، دانشوروں، تجزیہ کاروں اور عسکری ماہرین کے لئے تاریخی سبق ہے، اگر سوا ارب مسلمان تعلیمات نبویؐ کے مطابق قلت اور کثرت، جدت اور قدامت کے دنیوی فلسفوں سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ، بہترین اعمال اور مضبوط ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے نصرت کے طلب گار ہوں اور موت کے خوف سے نجات پائیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں زیر نہیں کر سکتی۔ ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
وگرنہ امریکہ درکنارکھجور کی گٹھلی کے برابر اسرائیل بھی مادی وسائل سے طاقتور، مالدار عرب دنیا کو لاٹھی سے ہانکنے کے لئے کافی ہے، یہ خداداد دنیوی نعمتوں کے چھن جانے اور موت کا خوف ہے جس نے تیل کی دولت سے مالا مال عربوں کو اسرائیل جیسی اسلام دشمن، مسلم کش ریاست سے پیار کی پینگیں بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ بے یقینی، ذہنی غلامی اور مرعوبیت واقعی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ ؎
یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقین، اللہ مستی، خودگزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بہتر ہے بے یقینی
میری ناقص رائے میں اسلام آبا د میں شمالی اتحاد کی میزبانی بدذوقی ہے، ہماری سفارت کاری کا محور اب واشنگٹن، لندن، بون، استنبول اور تہران ہونے چائیں، جام و مینا کو بڑھ کر تھام لینے والوں کو یہ تاثر کیوں دیں کہ ہم ان کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی امریکی خواہش کے اسیر ہیں۔