سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کی بحث باسی کڑھی میں اُبال ہے یا کسی طے شدہ منصوبے کا حصہ؟ اگر پاکستان میں مجاہدین جمہوریت کی سوچی سمجھی رائے کے مطابق صدارتی نظام فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل (ر) یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں آزمایا گیا اور ناکام ثابت ہوا تو ہر چند سال بعد یہ بحث دوبارہ کیوں شروع ہوتی اور پارلیمانی جمہوری نظام کے پرجوش پیروکاروں کی نیندیں حرام کیوں کر دیتی ہے؟
دنیا بھر میں کئی طرح کے سیاسی نظام رائج اور کامیاب ہیں، پارلیمانی نظام ان تمام ممالک میں جڑیں پکڑ چکا ہے جو عرصہ دراز تک برطانیہ کے غلام اور باجگزار رہے، صدارتی نظام دنیا کی سپر پاور امریکہ کے علاوہ روس میں کامیابی سے چل رہا ہے اور صدارتی و پارلیمانی نظام کا ملغوبہ فرانس سمیت کئی ممالک کے عوام کو راس ہے، کہیں بھی صدارتی و پارلیمانی نظام کو ایک دوسرے سے بدلنے یا دونوں کے ملغوبے سے فرانسیسی طرز کا نظام برآمد کرنے کی بحث چل رہی ہے نہ کسی حکومت کی ناکامی کا ذمہ دار اس نظام کو قرار دیا جا رہا ہے۔ بذات خودجمہوریت پر سوالات البتہ امریکہ و یورپ میں ہر جگہ اُٹھ رہے ہیں متبادل نظام کا قابل عمل خاکہ تاحال کسی نے پیش نہیں کیا کہ اسے آزمانے کا آغاز ہو۔
پاکستان میں سیاست کسی نظام کے تابع ہے نہ اُصول و اخلاقیات کی پابند۔ چند شخصیات اور خاندانوں کا نام جمہوریت ہے اور انہی کے دم قدم سے میکدۂ سیاست آباد، ایوب خان کے صدارتی نظام میں بھی انہی خانوادوں کا سکّہ چلتا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے پارلیمانی، ضیاء الحق کے شورائی نظام میں بھی یہی پردھان تھے، جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کو زیادہ فنڈز اور اختیارات دے دیے تو نامور سیاستدان پارلیمنٹ کو چار حروف بھیج کر میئر اور ضلعی ناظم ہو گئے اور کسی کو یاد نہ رہا کہ وہ رکن پارلیمنٹ کے بجائے موری ممبر بن گئے۔ ایوب دور میں بلدیاتی اداروں کے ارکان پر موری ممبر کا لیبل پشتنی سیاستدان لگایا کرتے مگر پرویز مشرف دور میں یہ ان کے لئے اعزاز تھا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کوئی نظام نہیں، اہلیت و صلاحیت، اُصول و نظریے اور اخلاق و قانون سے تہی دامن چند شخصیات اور خانوادے ہیں جو ملک کے سیاسی نظام اور جمہوری اداروں کو ہائی جیک کرکے کئی عشروں سے وسائل و اختیارات پر قابض اور موجودہ مسائل کی جڑہیں، اوّل تو یہ واویلا ہی غلط ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام بار بار آزمایا گیا اور ناکامی سے دوچار ہوا، ملک میں صدارتی نظام صرف 1962ء سے 1969ء تک سات سال نافذ رہا جس میں فیلڈ مارشل ایوب خان لائلپور کے گھنٹہ گھر کی طرح اختیارات کا مرکز تھے اور پارلیمنٹ یا کسی ادارے کو جوابدہی کے احساس سے عاری، یہ توازن اختیارات کے اُصول سے مبّرا نظام تھا مگر اس نے ملک میں تعلیم کے فروغ اور اقتصادی، معاشی، صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا، جنرل یحییٰ خان یکطرفہ طور پر اس نظام کا قلع قمع کر کے ریاست کو شتر بے مہار تجربے کی بھینٹ نہ چڑھاتے، آئین توڑتے نہ ون یونٹ کو راتوں رات تحلیل کرتے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا صدمہ سہناپڑتا نہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ملک کو سوویت یونین اور چین میں بدترین ناکامی سے دوچار ہونے والے سوشلزم و کمیونزم کے تجربے کی آماجگاہ بننا پڑتا۔
تعلیمی اور صنعتی اداروں کی نیشنلائزیشن اور بیورو کریسی میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر اکھاڑ پچھاڑ نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کیں اور آج تک قومی معیشت، نظام اخلاق اور تعلیمی نظام اس کے آفٹر شاکس کا سامنا کر رہا ہے، لہٰذا یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام کا تجربہ ناکام رہا، ناقدین مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو صدارتی نظام کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں، جو اس لحاظ سے غلط ہے کہ سقوط ڈھاکہ ایوب خان کے جانشین سیاسی و فوجی قائدین کے غلط، احمقانہ اور بے سوچے اقدامات کا نتیجہ تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ عظمیٰ جیسی سپر پاور سمٹ کر چند جزائر تک محدود ہو گئی تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ سپر پاور کا انہدام پارلیمانی نظام کا تحفہ ہے۔
ترکی، سنگا پور اور کئی دیگر ممالک نے پارلیمانی نظام کو خیر باد کہہ کر صدارتی نظام کا تجربہ کیا اور کامیاب رہے جبکہ بھارت، بنگلہ دیش، جنوبی کوریا سمیت کئی ممالک پارلیمانی نظام کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔ امریکہ، ترکی اور سنگا پور میں کوئی شخص اگر صدارتی نظام کے خلاف وہ دلائل پیش کرے جو ہمارے ہاں عموماً دہرائے جاتے ہیں تو لوگ اسے پاگل خانے کا راستہ دکھائیں جبکہ بھارت اور جنوبی کوریا میں یہی سلوک پارلیمانی نظام کے مخالف سے کیا جائے۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام 1973ء سے رائج ہے، ضیاء الحق خواہش و کوشش کے باوجود اس کی جگہ من پسند صدارتی نظام لا سکے نہ پرویز مشرف بلدیاتی نظام کے ذریعے اس کا سحر توڑ سکے، وجہ؟ پاکستان کا آئین ہے جو 1973ء سے اب تک متفقہ قومی دستاویز ہے اور جس میں اسلامی، وفاقی، پارلیمانی نظام کو تقدس اور تحفظ حاصل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایک بار اگر خدانخواستہ یہ آئین شکست و ریخت کا شکار ہوا تو نئے سرے سے متفقہ آئین کی تشکیل و تدوین ممکن نہیں، اٹھارہویں آئینی ترمیم نے پاکستان کو ویسے بھی فیڈریشن سے دور اور کنفیڈریشن کے قریب کر دیا ہے جس کا نظارہ ہم 2020ء میں کوویڈ 19کے موقع پر وفاق اور صوبوں کے مابین محاذ آرائی اور وفاقی حکومت کی بے بسی کی صورت میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔
محض صدارتی نظام کے شوق میں متفقہ آئین سے انحراف یحییٰ خان کے ناکام و تباہ کن تجربات کا اعادہ ہو گا جس کی یہ ریاست متحمل نہیں، اس کے علاوہ اگر بالفرض کوئی نادیدہ قوت قوم اور اس کے منتخب نمائندوں تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی اکائیوں کو نئے صدارتی آئین کی تشکیل پر متفق کر بھی دے تو ملک کے صدر، صوبوں کے گورنر اور دیگر اعلیٰ مناصب کے لئے سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں سے کسی کی اہلیت و صلاحیت، دانش و بصیرت اور دور اندیشی میں راتوں رات کئی گنا اضافہ ہو جائے گا اور وہ محض بے محابہ اختیارات کے بل بوتے پر ملک کی تقدیر بدل دے گا؟ کیا بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے پاس اختیارات کی کمی نہ تھی؟ یا ان کے نااہل، خود غرض، مفاد پرست، لالچی اور پیسے کے پجاری ساتھیوں نے ان کی راہ کھوٹی کی اور جو کام ایوب خان سات سال میں کر گزرے وہ تین باریاں لینے والے نواز شریف، دوباریاں لینے والی بے نظیر بھٹو اور ساڑھے تین سال تک ملک کے تمام طاقتور اداروں اور طبقات کی خوشدلانہ تائید و حمائت کے باوجود عمران خان سے نہ ہو پائے۔
ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ صدارتی نظام آخر ہمارے حکمرانوں کی قوت فیصلہ اور قوت عمل میں کیا بہتری لا سکتا ہے؟ چاپلوس اور خوشامدی حاشیہ نشینوں کے انتخاب سے کیسے روک سکتا ہے؟ اور سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کا فروغ کیسے ممکن ہے؟ یہ اگر ممکن نہیں تو نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی؟ کچھ فرق نہیں پڑتا ؎
ناکامی عشق یا کامیابی
دونوں کا حاصل خانہ خرابی
ہماری قومی سیاست کا چلن کیا ہے؟ اخلاق نہ روایات اور نہ کسی اُصول کی پاسداری شخصی آمریت اور خاندانی و موروثی سیاست میں نظام کا تڑکہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے لگایا جاتا ہے آپ ایک بار پھر لگا لیں، فرق نہیں پڑتا۔
بدلنا ہے تو مے بدلو، نظام مے کشی بدلو
وگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا؟