Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bartari Ka Asool

Bartari Ka Asool

آجکل مشرق و مغرب کے دانشوروں نے اسلام اور مسلمانوں کو مشق ستم بنا رکھا ہے اور تان امریکہ و مغرب کی ذہنی، اخلاقی، سائنسی و تکنیکی برتری فتح اور تسلط پر ٹوٹ رہی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری کا اعتراف تو ہر معقول شخص کو ہے لیکن ذہنی و اخلاقی برتری کا بھانڈا گوانتانا موبے جزیرے اور افغانستان میں بیچ چوراہے پھوٹ رہا ہے، جہاں امریکہ نے اخلاقیات کے نئے پیمانے وضع کئے اور جنگل کے قانون کا ایک نیا میگنا کارٹا تشکیل دیا۔ مگر دنیا میں ایسے دانشور اب بھی موجود ہیں جو اسلام کو روس کے کمیونزم، جرمنی کے نازی ازم اور جاپان کے فیوجی ازم کی طرح کا مذہب نہیں سمجھتے جسے امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ انیس بیس سال پہلے امریکہ اور اس کے اتحادی یورپ نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کروسیڈ کا آغاز کیا تو کون سوچ سکتا تھا کہ افغانستان میں سپر پاور کی ذہانت، جدید ترین عسکری ٹیکنالوجی علمی و سائنسی برتری اور جنگی تکنیک کو محض جذبہ جہاد اور بے مثل عزم و سروفروشی کے ہاتھوں بدترین شکست ہو گی اور وہ دہشت گرد قرار دیے گئے جنگجو گروہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنی محفوظ واپسی کا طریقہ کار طے کریگا۔

پیٹرک جے بیوچینن انہی امریکی دانشوروں اور صحافیوں میں سے ایک ہے جس کے خیال میں "حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سترسال پہلے جب اسلام مغربی سلطنتوں کے قدموں تلے روندا جا رہا تھا تو ایک مشہور کیتھولک ادیب نے پیش گوئی کی تھی "اسلام کو دوبارہ عروج نصیب ہو گا۔" یہی ادیب ہیلر بیلوک لکھتا ہے:"مجھے ہمیشہ ایسا نظر آتا ہے کہ اسلام دوبارہ غلبہ پائے گا۔ اگر ہمارے بچے نہیں تو ہمارے پوتے اسلام کا احیا اور اسلام کو اپنے ہزار سالہ پرانے حریف عیسائیت اور اس کی طاقت کے خلاف جدوجہد میں مصروف دیکھیں گے۔"ہیلر بیلوک کے خیال میں اسلام عیسائیت کا ہم پلہ مدمقابل ہے اور اس کی قوت اس عقیدے میں ہے کہ " اللہ ایک ہے، سب سے بڑا ہے، انصاف اور رحم کرتا ہے اور اس کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں "۔ بیلوک کا خیال ہے کہ " اسلام اپنی ان منطقی اور سادہ تعلیمات کے زور پر بہت جلد پھر ایک اصلاحی مذہب کی جگہ لے گا اور انسانیت کی توجہ کا مرکز بنے گا۔"

پیٹرک ماضی کی صلیبی جنگوں اور مسلم عیسائی کشمکش کا جائزہ لینے کے بعد لکھتا ہے: "تاریخ کے بڑے سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسلامی دنیا کیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی؟ صرف ایک صدی پہلے مسلمان پوری دنیا پر جنگی اعتبار سے برتری رکھتے تھے لیکن 19ویں اور 20صدی کے دوران طاقت کا توازن بگڑ گیا اور اسلامی دنیا نہ صرف مغرب کے قدموں میں آ گئی بلکہ سائنس و ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت، مواصلات، فوجی صلاحیت اور طرز حکمرانی میں بھی بہت پیچھے چلی گئی اور اپنے دور کی سب سے بڑی طاقت سلطنت عثمانیہ یورپ کا مرد بیمار قرار پائی۔ اس کے بعد مغربی استعمار (Colonialization)کا دور آ گیا۔ 1915ء میں گیلی پولی کے مقام پر مغرب کو اسلام کے ہاتھوں آخری بار شکست ہوئی اور پھر مغربی فتوحات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا کہ آج ہمیں یاد بھی نہیں کہ 1915ء میں ہم مسلمانوں سے ایک شرمناک شکست کھا چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبوں کی جنگ شروع ہو چکی ہے تو ان میں طاقت کا توازن کیا ہے؟

دولت اور طاقت میں مغرب کو بالادستی حاصل ہے لیکن یہ چیزیں اگر کسی ملک کو تباہی سے بچانے میں کارآمد ہوتی ہیں تو سوویت یونین اپنے جوہری ہتھیاروں اور روایتی اسلحہ کے انباروں تلے دب کر ختم نہ ہوتا۔ روم بھی بہت بڑی سلطنت تھا لیکن آج اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ ثابت ہو گیا کہ اقوام کی زندگی مادی قوتوں کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کو زندہ رہنے کے لئے کچھ جذبوں اور اقدار کی ضرورت ہے اور اسلام ان چیزوں سے مالا مال ہے۔"

پیٹرک محب وطن امریکی کے طور پر اپنے ہم وطنوں اور ہم عقیدہ اقوام کو خبردار کرتا ہے کہ "اگر عقیدے کی کوئی اہمیت ہے تو اسلام ایک فوجی قسم کا دین ہے جبکہ عیسائیت پسپائی کی ترغیب دیتا ہے۔ آبادی کے معاملہ میں اسلام بڑھتا ہوا سیلاب ہے اور مغرب موت کی جانب گامزن ہے۔ مسلمان اسلام کی خاطر جنگ، موت اور شکست، ہر چیز کے لئے تیار ہیں جبکہ مغرب اپنے زخمیوں کو دیکھ کر خوف سے کانپ اٹھتا ہے۔ مسلمان اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر غصہ سے بھرے ہوئے ہیں اور مغرب اپنی تہذیب اور معاشرت پر معذرت خواہ ہے۔ اسلام کو جہاں موقع ملتا ہے اپنے نفاذ کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ ہم مذاہب کی برابری کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اسلام اپنی تاریخ پر فخر کرتا ہے اور مغرب کو اپنی تاریخ پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ اسلام کو حقیر یا دیگر مذاہب کی طرح عام مذہب سمجھنا ہماری سخت غلطی ہو گی کیونکہ یہ دین مذاہب کے زوال کے اس زمانے میں بھی ایک واحد منطقی اور روحانی نظریۂ حیات کے طور پر یورپ میں سب سے زیادہ تیز رفتار کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے جبکہ عیسائیت خود مغرب میں ختم ہو رہی ہے۔ چرچ خالی ہوتے جا رہے ہیں اور مساجد بڑھتی جا رہی ہیں۔ عیسائیت پسپا ہو ہی ہے اور اسلام آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے۔۔

ایک عقیدہ کو شکست دینے کے لئے عقیدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس کیا ہے؟ انفرادیت، جمہوریت، برابری؟ کیا ان چیزوں سے ہم ایک ایسے جنگجو عقیدے کو شکست دے سکتے ہیں جو پندرہ سو سال سے حرکت میں ہے اور اب دوبارہ کروٹ لے کر بیدار ہو رہا ہے؟ "

پیٹرک کی طرح اور بھی کئی امریکی و مغربی فلاسفر یہی سوچ رکھتے ہیں، مگر ہمارے دانشور اور حکمران صرف بش، اوبامہ، ٹرمپ، جوبائیڈن اور مغرب کے گماشتہ تجزیہ نگاروں کی باتیں سن کر یہ فرض کر بیٹھے ہیں کہ ہماری بقا صرف اور صرف امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے اور اس کی برتری کا اعتراف کر لینے میں ہے۔ پیٹرک کے تجزیے کا ماحصل یہ ہے کہ علوم و فنون، سائنس و ٹیکنالوجی میں تیز رفتار پیش رفت کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو اپنے جہادی عقیدے پر سختی سے کاربند رہنا پڑے گا ورنہ تہذیبوں کے تصادم میں کامیابی ان کا مقدر نہیں بن سکتی۔