شنگھائی تعاون تنظیم بلا شبہ اہم فورم ہے اور پاکستان اس فورم کو اپنے سفارتی و اقتصادی مفادات کے لئے بحسن و خوبی استعمال کر سکتا ہے مگر بھارتی شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی بنفس نفیس شرکت؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا! گزشتہ کئی برس سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔
5 اگست کے اقدام کے بعد پاکستان نے بھارت سے تجارت معطل کر رکھی ہے اور 2021ء میں بھارت کی طرف سے اجیت دوول کے ذریعے مذاکرات کی پیشکش مسترد کرنے کے سبب پاکستان میں سول ملٹری تعلقات خراب ہوئے جس کا نتیجہ اپریل 2022ء میں عمران خان کی معزولی اور میاں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر تعیناتی کی صورت میں نکلا۔
ہوا یوں کہ 2021ء کے اواخر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے دبئی میں ملاقات کے دوران پاکستانی آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو پیشکش کی کہ دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور جموں و کشمیر سمیت ہر موضوع پر تبادلہ خیال کا آغاز کریں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب 5 اگست کے اقدام کی وجہ سے عمران خان نے مودی کو ہٹلر، بی جے پی کو نازی پارٹی کے القابات سے نواز کر زچ کر دیا تھا اور ایک دو مغربی ممالک کے سفیروں نے ہمارے سابق آرمی چیف سے مل کر درخواست کی کہ وہ اپنے وزیر اعظم کو روکیں، وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے وزیر اعظم کو ہٹلر قرار دے کر عالمی برادری میں نکّو بتا رہے ہیں۔
اس وقت کی فوجی قیادت کو مذاکرات کا آئیڈیا پسند آیا اور انہوں نے سنجیدہ سوچ بچار کا آغاز کر دیا، بھارت کی طرف سے یہ پیشکش بھی کی گئی کہ اگر دونوں ممالک مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں تو نریندر مودی ایک مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بہانے پاکستان کا دورہ بھی کر سکتے ہیں اور یہ ایک لحاظ سے کشیدہ تعلقات میں بہتری کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
مئی2021ء میں رمضان المبارک کی ایک باسعادت شب جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے دو درجن سے زائد اخبار نویسوں کو طویل بریفنگ میں بھارتی پیشکش سے آگاہ کیا اور قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ 5 اگست کے یکطرفہ اقدام کو بالائے طاق رکھ کر ان مذاکرات کے لئے رائے عامہ ہموار کریں کیونکہ جنگ اور عالمی سفارتکاری کا آپشن کم و بیش ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے نہ 5 اگست کے اقدام سے کوئی خاص فرق پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہم بھارت سے روٹھ کر بیٹھے رہے تو کشمیری عوام کی نسل کشی جاری رہے گی اور بھارت آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے جموں و کشمیر میں مظلوم عوام کو مزید مصائب سے دوچار کر دیگا۔
جنرل باجوہ کا استدلال تھا کہ پاکستان کو بھی ترقی کے لئے امن کا وقفہ چاہیے اور کشمیر پر بات چیت کا جو موقع مل رہا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سینئر اینکر حامد میر صاحب نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں اس بریفنگ کا حوالہ دیا تو صحافی اور غیر صحافی سب پیچھے پڑ گئے کہ جنرل باجوہ سے ہونے والی گفتگو عین اسی روز میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے کیوں نہ لائی گئی اور بریفنگ میں موجود صحافیوں نے جنرل کی باتیں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیسے کر لیں؟ ان ناقددوستوں کو کون بتائے کہ پانچ چھ گھنٹے کی اس محفل میں غریب صحافیوں نے باوردی جرنیل کے ساتھ کتنی بحث کی، کیسی کیسی باتیں ہوئیں اور کتنا زچ کیا؟ جنرل کی بے بسی دیکھنے والی تھی، تنگ آ کر جنرل نے ہنستے ہوئے کہا کہ "برائی کی جڑ میڈیا ہے اور وہ سیاستدانوں کو آگے بڑھنے نہیں دیتا"۔
بریفنگ کے چند دن بعد حماد اظہر نے ایک دوسرے وفاقی وزیر کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کی اور پاکستان و بھارت کے مابین محدود سطح پر تجارت کا مژدہ سنایا مگر یہ فیصلہ چند گھنٹوں بعد واپس ہوا اور عمران خان کا بیان آ گیا کہ جب تک بھارت 5اگست کا اقدام واپس نہیں لیتا مذاکرات ہوں گے نہ تجارت، یہ کشمیری عوام کے ساتھ غداری ہے اور شہیدوں کے خون کا سودا۔
فوجی سربراہ کی بریفنگ میں موجود اخبار نویسوں کو اندازہ ہوا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی کوششوں پر عمران خان نے پانی پھیر دیا ہے اور مذاکرات کا امکان ختم۔ اس کے بعد سول ملٹری کشمکش کا آغاز ہوا، پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ جس کانقطہ اختتام تھا، دیگر عوامل بھی اہم ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان حکومت کے خاتمے کا ایک اہم عنصر پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں ملک کی ہئیت حاکمہ کی اندرونی چپقلش تھی اور اس اختلاف فکر و نظر نے ملک کو موجودہ سیاسی، معاشی اور آئینی بحران سے دوچار کیا۔
پچھلے ایک سال کے دوران بھارت کے طرز عمل میں کسی قسم کی تبدیلی آئی ہے نہ کشمیری عوام کو ریلیف ملا۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے پیچھے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی درمے، دامے سخنے معاونت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتااور پلوامہ طرز کے ایک اور فالس فلیگ آپریشن کے خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
اس عالم میں شنگھائی تعاون تنظیم کے گوا اجلاس میں بلاول بھٹو کی شرکت کا کوئی جواز ابھی تک وزارت خارجہ پیش نہیں کر سکی، پاکستان میں عرصہ دراز سے سارک کانفرنس کا انعقاد نہیں ہو سکا کہ بھارت ہمیشہ ویٹو کر دیتا ہے اور مودی شرکت پر آمادہ نہیں۔
ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے کرکٹ میچ پاکستان میں نہیں ہونے دیے جاتے، بھارتی کرکٹ ٹیم پی سی بی، آئی سی سی کی سر توڑ کوششوں کے باوجود پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں کہ مودی حکومت پاکستان کو دشمن ریاست کی نظر سے دیکھتی ہے، ہندو اور سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے کے لئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں، بلاول بھٹو مگر کسی بات کو خاطر میں لائے بغیر گوا جا رہے ہیں ع
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
وزیر دفاع خواجہ آصف نے شنگھائی وزراء دفاع کانفرنس کے اجلاس میں ورچوئل شرکت کی، بلاول بھٹو بھی ایسا کر سکتے ہیں مگر وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے طرز عمل میں واضح فرق سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کے بارے میں موجودہ حکومت کی کوئی طے شدہ، واضح اور محکم پالیسی نہیں۔
کل کلاں کو کوئی دوسرا وزیر مثلاً نوید قمر چاہے تو بھارت سے تجارت کا یکطرفہ اعلان کر سکتا ہے اور کوئی اسے روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کریگا۔ کسی نے اعتراض کیا تو وہ آرام سے یہ کہہ کر جان چھڑا لے گا کہ میں حکومت میں مسلم لیگ کا اتحادی ہوں اس کے فیصلوں کا پابند نہیں۔ جب مریم نواز اور آصف علی زرداری برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کی حکومت نہیں تو کسی وزیر، مشیر کو یہ کہنے سے کون روک سکتا ہے کہ یہ میری حکومت نہیں، اورمیری وزارت حکومت کے کسی فیصلے کی پابند نہیں۔ میری وزارت، میری مرضی۔
پرتیں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں، رجیم چینج کے مقاصد واضح ہو رہے ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت سے تعلقات و تجارت کی امریکی فرمائش پورا کرنے کے جتن جاری ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے گوا اجلاس میں شرکت نقطہ آغاز ہے، شائد آئی ایم ایف سے پیکیج بھی مل جائے کہ امریکہ کے پائوں میں سب کا پائوں اور مودی کی خوشی میں سب کی خوشی، آزاد کشمیر الیکشن مہم میں بلاول بھٹو مودی کا یار کسی اور کو بتلاتے رہے، مودی کے دیس کی یاترا کو خود نکل پڑے۔ یکّہ وتنہا، واقعی چھپے رستم نکلے۔