ہمارے سمندر سے گہری، ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی دوستی والے ہمسائے عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے پاکستانی حکمرانوں اور حزب مخالف کے سیاستدانوں کو ایک برادرانہ، مخلصانہ مشورہ دیا ہے اور وہ بھی پاکستان آ کر، کھلے عام، درجنوں اخبار نویسوں کے سامنے۔ یہ مشورہ کیا ہے؟ پاکستان کے اندرونی سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کے بارے میں گہری تشویش کا مظہر اور دوستانہ جذبات کا اظہار۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چن گانگ نے کہا "پاکستان کے دوست ہمسائے، شراکت کے طور پر چین یہ توقع کرتا ہے کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی اتفاق رائے پیدا کریں، امید ہے سیاسی قوتیں سیاسی استحکام کے لئے کوشش کریں گی تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی و خارجی چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔ استحکام ہی ترقی کا راستہ بنیادی اصول ہے جو سکیورٹی کو یقینی بناتا ہے"۔
چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے منصب سنبھالنے کے بعد پاکستان کے پہلے دورے میں یہ بات کہہ کر ان حلقوں کو چونکا دیا، جو چین کی اس دیرینہ پالیسی سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے کیا چین اپنے کسی دوسرے اور ہمسائے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے نہ سیاسی معاملات پر کبھی اظہار خیال۔ کنفیوشس تہذیب و روایات کے امین چینی قائدین امریکیوں کی طرح متکبر ہیں نہ بڑبولے اور نہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کے شوقین، چین دنیا کا واحد ملک ہے جس پر ہر طرف سے حملے ہوئے مگر اس نے ہمیشہ دفاع پر اکتفا کیا اور عظیم دیوار چین اس دفاعی حکمت عملی کی منفرد مثال ہے، جو منگولوں اور دیگر حملہ آوروں سے نمٹنے کے لئے تعمیر کی گئی۔
پاکستان کی مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی حکمران اشرافیہ نے امریکی ڈکٹیشن تو ہمیشہ خوشدلی سے قبول کی لیکن آزمودہ اور ذہین دوست کے مشوروں کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی، 1965ء کی جنگ کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان ایک روزہ خفیہ دورے پر بیجنگ(اس وقت پیکنگ) پہنچے، مائوزے تنگ، چواین لائی اور دیگر چینی قائدین سے ملے اور امریکی پابندیوں کے باعث جنگی اسلحے کی کمی کا مداوا کرنے کی درخواست کی، الطاف گوہر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ چینی قیادت نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ وہ جنگ بندی قبول کرنے کے بجائے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے گوریلا جنگ کا راستہ اختیار کریں اور نتائج کی پروا کئے بغیر آخری فتح تک لڑتے رہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں مگر ایک دو دن کے بعد پاکستان نے جنگ بندی کی وہ قرار داد منظور کر لی جو سوویت یونین نے پیش کی تھی۔
1971ء میں بھی اپنے سدا بہار دوست کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ اگست 1971ء میں جب پاک فوج نے طویل جنگ و جدل اور سخت گیر آپریشن کے بعد مشرقی پاکستان میں کافی حد تک امن قائم کر دیا مکتی باہنی بددلی کا شکار ہو ئی اور کرنل شریف الحق والیم کے اعترافی بیان کے مطابق کلکتہ میں مقیم عوامی لیگی لیڈر ڈھاکہ واپسی کے بہانے ڈھونڈنے لگے تو عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چواین لائی نے پاکستان کے فوجی حکمران یحییٰ خان کو شیخ مجیب الرحمن اور کلکتہ میں پناہ گزین تاج الدین، کھنڈکر مشتاق سے مذاکرات کا مشورہ دیا۔
فقیر اعجاز الدین کی کتاب From president، to president، throgh presidentمیں صدر نکسن، یحییٰ خان اور چینی صدر و وزیر اعظم کے مابین بالواسطہ خط و کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ چو این لائی مون سون کی بارشیں ختم ہونے سے قبل یحییٰ خان اور کلکتہ میں قائم بنگلہ دیش کی جلا وطن حکومت کے مابین سلسلہ جنبانی اور مذاکرات کے خواہش مند تھے تاکہ اندرا گاندھی کو فوجی مداخلت کا موقع نہ ملے مگر اقتدار، طاقت اور شراب و شباب کے نشے میں دھت یحییٰ خانی ٹولے نے یہ مشورہ قبول نہ کیا وہ ٹینکوں اور توپوں کے ذریعے ریاست کی رٹ قائم کرنے کے شوق میں مشرقی بازو گنوا بیٹھے، حبیب جالب بے چارہ چیختا، چلّاتا ہی رہ گیا ؎
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو، کہ منزل کھو رہے ہو
نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی، تاریخ کے بدترین فوجی سرنڈر اور عالمی بدنامی کی صورت میں بھگتا۔
آج پاکستان کو بھارت کی کھلی جارحیت کا سامنا تو نہیں، ایک نیو کلیر طاقت ہونے کی وجہ سے کھلی جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر معاشی اور سیاسی میدان میں پاکستان صرف امریکہ، چین، سعودی عرب ہی نہیں متحدہ عرب امارات کا دست نگر ہے، وہمتحدہ عرب امارات، 1974ء سے پہلے جس کے سربراہ کا پاکستان میں بہاولپور کاکمشنر اور رحیم یار خان کا ڈپٹی کمشنر استقبال کیا کرتا تھا اور جس کے تعلقات سکھر اور بہاولپور کے وڈیروں سے برابری کی سطح پر ہوا کرتے تھے، اس معاشی بدحالی کے باعث بھارتی میڈیا تسلسل سے یہ پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ اب ہماری حکومت یا فوج کو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں، صرف سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال برقرار رکھنے کے جتن کافی ہیں، پاکستان (خاکم بدہن) خود ہی اپنے انجام کو پہنچ جائے گا(اللہ نہ کرے)۔
ان حالات میں چین ہماری آخری اقتصادی، معاشی اور سفارتی اُمید اور سہارا ہے، چین کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں جو کہا وہ صرف حکومت کے لئے چشم کشا نہیں، اپوزیشن کے لئے بھی قابل غور ہے اور پاکستان کے عوام کے لئے لمحہ فکریہ، ہمارے حکمران اور سیاستدان روزانہ یہ بھاشن دیتے ہیں کہ پاکستان میں معاشی استحکام، سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، آئی ایم ایف گزشتہ آٹھ ماہ سے ہماری ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہے، گھٹنوں پر لانے کے بعد بھی ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کا پیکیج دینے سے انکار ی ہے، کورا جواب دیتا ہے نہ مثبت ردعمل۔
انگریزی میگزین اکانومسٹ کی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے اور ملک بھر میں خونریز ہنگاموں کا اندیشہ روز بروز بڑھ رہا ہے، ایسی ہنگامہ آرائی جو اگر خدانخواستہ شروع ہوئی تو کوئی فورس انہیں قابو کرنے کے قابل نہیں ہوگی مگر ہمارے سیاستدانوں کو خیر سے حالات کی سنگینی کا احساس ہے نہ تین دن گزر جانے کے باوجود چینی مشورے پر عمل کرنے کی توفیق۔
وہ اب بھی ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے، عوام کو مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور بے چینی کی آگ میں دھکیلنے اور زیادہ سے زیادہ عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے ہیں، سپریم کورٹ انہیں پسند نہیں، اور الیکشن ان کی چڑ بن گیا ہے، جس سے سیاسی و معاشی عدم استحکام میں اضافہ ہو رہا ہے اور ترقی و خوشحالی کی اُمیدیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں، چینی وزیر خارجہ نے ترقی، خوشحالی اور قومی سلامتی کا نسخہ کیمیا سیاسی اتفاق رائے کو قرار دیا ہے مگر ماضی کی طرح ہم نے ایک بگڑے ہوئے، بچے کی طرح "میں نہ مانوں" کی رٹ لگا رکھی ہے، کہتے ہیں کہ دانش مند اقوام دوسروں کے تجربات اور تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں مگر ہم وہ ہیں جو اپنے تلخ، شرمناک اور تباہ کن تجربات سے سبق سیکھنے کو بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں البتہ تاریخ کو سبق سکھانے پر ہمہ وقت تیار؟ چینی بے چارے کس باغ کی مولی ہیں۔