بلّی کے بھاگو ںچھینکا ٹوٹا، تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ کیا ہاری، اپوزیشن وفاقی حکومت کے خاتمے کی باتیں کرنے لگی، بیس بلدیاتی اداروں کی سربراہی کا تاج مولانا فضل الرحمن کے نامزد امیدواروں کے سر پر سجا، خوشی سے باچھیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی کھلی ہیں، فواد چودھری اور شہباز گل اسی باعث بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی پھبتی کس رہے ہیں۔
سترہ اضلاع کی مختلف تحصیلوں میں شکست پر تحریک انصاف کا ردعمل ذمہ دارانہ رہا، عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے حیلوں بہانوں کے بجائے ہوشربا مہنگائی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم کا اعتراف کیا اور اگلے مرحلے میں ازالہ کی یقین دہانی کرائی، تحریک انصاف کے کارکن قابل داد ہیں جو پہلے کی طرح اس بار بھی مختلف سطحوں پر اپنی قیادت کی غلطیوں اور غلط پالیسیوں کا دفاع کرنے کے بجائے ذمہ داروں کا دامن حریفانہ کھینچے ہیں۔ لگتا ہے ساڑھے تین سال تک اپنے اور ووٹروں کے ساتھ قیادت کی بے رخی، بے نیازی اور طوطا چشمی سے ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا ہے۔ ؎
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو آج اس کے حریفانہ کھینچئے
عمران خان کی 1996ء سے 2018ء تک بائیس تئیس سالہ جدوجہد کا بنیادی نقطہ لٹیروں کا احتساب تھا اور عدل و انصاف، میرٹ کی عملداری کو یقینی بنانا، عمران خان نے موروثی سیاست، خاندانی قیادت اور بے انصافی کے خلاف علم جہاد بلند کیا، نوجوان نسل نے لبیک کہا، گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران مگر کپتان کے ووٹروں اور سپورٹروں کو سیاسی کلچر میں تبدیلی نظر آئی نہ بے لاگ احتساب، عدل و انصاف اور میرٹ سکّہ رائج الوقت قرار پایا، بقول حبیب جالب ؎
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے، حلقہ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورتحال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں امیروں کے
کم و بیش تمام ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف ٹکٹ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح وزیروں مشیروں اور الیکٹ ایبلز کے قریبی رشتہ داروں میں بانٹے گئے یا پھر بدنام سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور اکثر و بیشتر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، گزشتہ ایک سال کے دوران ڈسکہ، کراچی، سرگودھا، نوشہرہ، خانیوال میں شکست کا مُنہ دیکھنا پڑا اور سیالکوٹ کے جس امیدوار نے کامیابی حاصل کی وہ مسلم لیگ (ق) سے ادھار لیا گیا، میرٹ اس کا پنجاب کے اہم اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے ہم پیالہ و ہم نوالہ بیورو کریٹ سے رشتہ داری تھی۔
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کی غلط تقسیم کا اعتراف تو وزیر اعظم عمران خان نے بہ نفس نفیس کیا ہے عیاں راچہ بیاں، تحریک انصاف کے مایوس و دل شکستہ ووٹر و سپورٹر سوچنے میں حق بجانب کہ اگر کسی وزیر، مشیر کے قریبی رشتہ دار، سرمایہ دار و جاگیردار کو ہی ووٹ دینا ہے تو پھر مولانا فضل الرحمن کے قریبی عزیززبیر علی میں کیا برائی ہے کم از کم ساڑھے تین سال تک نالائقی کے ریکارڈ قائم کر کے کامرانی کے شادیانے بجانے والوں کا سنگی ساتھی تو نہیں۔
تحریک انصاف سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کو یہ خوش فہمی ہرگز نہ تھی کہ عمران خان تیس چالیس سالہ گند تیس چالیس ماہ میں صاف کر کے پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنا دیں گے یا لوٹ مار کا مکمل خاتمہ کر کے مسائلستان کو ریاست مدینہ میں بدل دیں گے، مداحوں اور بہی خواہوں کا اندازہ یہ تھا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی ٹیم کا انتخاب وہ میرٹ پر کریں گے، فیصلوں میں شفافیت ہو گی اور خاندانی و موروثی سیاست (باقی صفحہ4نمبر1)ختم کرنے کے لئے وہ سیاسی کلچر میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائیں گے، ہوا مگر کیا کہ عمران خان نے اپنے خاندان کے کسی فرد کو تو نہ نوازا اچھا کیا لیکن ان کے حاشیہ نشینوں اور خوشہ چینوں نے پہلی باری کو آخری باری جان کر اگلی پچھلی کسریں پوری کر دیں، نعرے وہ عمران خان کے لگاتے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے، رول ماڈل ان میں سے اکثر کے زرداری اور شریف تھے، اس فرق کے ساتھ کہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے وزیروں، مشیروں اور سرکاری و جماعتی عہدیداروں میں کم از کم رکھ رکھائو اور وضعداری تھی، اپنے کارکنوں اور ووٹروں سے دکھاوا سہی، دعا سلام کے روادار تھے، یہ طوطا چشم اپنے فرنٹ مینوں کے سوا سب کو بھلا بیٹھے۔
عمران خان اپنی افتاد طبع کے مطابق ارکان اسمبلی سے میل جول کے عادی نہیں، اقتدار کے نشے میں دھت ان نودولتیوں نے بھی اپنے آپ کو عمران خان سمجھا اور مخلص کارکنوں، تبدیلی کے خواہش مند ووٹروں کو، ضرورت مند مزارع اور غلام، ٹکٹوں کی تقسیم میں اپنا مفاد دیکھا اور اپنے خاندان، قبیلے کی سیاسی ضرورتوں کو مدنظر رکھا، علاقہ اور پارٹی جائے بھاڑ میں۔
اطلاع یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان اپنے اور اپنے ساتھیوں کی غلطیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کا ملبہ مخالف ارکان اسمبلی کے سر پر ڈال کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مختلف دھڑوں اور ارکان اسمبلی کے علاوہ ٹکٹ ہولڈرز اور ناراض کارکنوں کی شکر رنجشی ختم کرنا، وعدے وعید سے ناراض افراد اور گروپوں کو راضی کر کے ایک ساتھ بٹھاناان کی ذمہ داری تھی جو انہوں نے نہیں نبھائی، عمران خان نے اگر اب بھی اس عطار کے لونڈے سے دوا لینا چاہی جس کے سبب بلدیاتی انتخابات میں پارٹی بیمار بلکہ رسوا ہوئی تو اگلا مرحلہ زیادہ مشکل اور پریشان کن ہو گا اور پنجاب میں اصلاح احوال کی کوشش نہ ہوئی تو تاریخی ہزیمت اٹھانی پڑے گی، خیبر پختونخوا میں مقابلہ مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام سے تھا جس کی اپیل محدود ہے مگر پنجاب میں مد مقابل مسلم لیگ ہو گی، تجربہ کار اور مقبول عمران خان نے کئی برس تک مولانا فضل الرحمن کی سرعام بے عزتی کی ہر جلسے میں "ڈیزل، ڈیزل" کے نعرے لگوائے، بھٹو کی طرح سیاسی اختلاف کو ذاتی مخاصمت کا رنگ دیا، بلدیاتی انتخابات میں موقع ملا تو مولانا نے کافی حد تک حساب چکا دیا، تلافی مافات کی سنجیدہ کوشش نہ ہوئی تو باقی کسر اگلے مرحلے اور عام انتخابات میں نکالنے کی کوشش کریں گے، شریف خاندان کے خوردوکلاں اور دیگر نمایاں مسلم لیگی قائدین مولانا سے زیادہ زخم خوردہ ہیں کہ کرپشن کے الزامات نیب کے مقدمات قید و بند اور پارٹی کی شکست و ریخت سمیت ہر اوچھا وار سہہ چکے ہیں، بدلے کی آگ انہیں چین نہیں لینے دیتی اور بلدیاتی و عام انتخابات کو وہ زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھ کر نمٹائیں گے، کارکن پنجاب میں بھی مایوس، ووٹر ناراض اور حکومتی و جماعتی قیادت اور ماشاء اللہ اقتدار کے نشے میں دھت اپنے آپ میں مگن۔ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
جہانگیر ترین کا گروپ تحلیل ہوا نہ مسلم لیگ(ق) کے زخم مندمل، اقربا پروری، دوست نوازی اور مالی بے ضابطگیوں کی داستانیں زبان زدعام ہیں اور عمران خان کے سوا سب واقف، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات آئینہ تھے جس میں حکمران جماعت نے اپنی شکل دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی، یہی عالم رہا تو بلدیاتی انتخابات میں کارکنوں اور ووٹروں کا ردعمل زیادہ شدید اور رسوا کن ہو گا۔
خیبر پختونخوا میں تو شکائت ہے کہ کارکن اور ووٹر گھر سے نہیں نکلا پنجاب میں عام تاثر یہ ہے کہ خانیوال کی طرح یہ گھر سے نکلے گا اور اپنی ساڑھے تین سالہ محرومیوں، شکایات اور ناراضگی کا بدلہ چکا دے گا۔ عمران خان نے اب خود نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حالانکہ سارا کیا دھرا ہی اس سوچ کا ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کو خود دیکھنے کے بجائے کسی مرد معقول کے سپرد کیا ہوتا تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔