ڈاک سے کتابوں کا بنڈل ملا، کھولا تو علامہ عبدالستار عاصم نے رائے ریاض حسین کی خود نوشت "رائے عامہ" اور صابر رضا کا مجموعہ کلام "بے صوت رنگوں کا شور" ارسال کیا تھا۔ صابر رضا کی شاعری خوب ہے، حالات کا نوحہ مگر سچ کہنے کی امنگ، ترنگ:
جو خون دے کے ملی، وہ زمین میری ہے
وہ جس میں سانپ پلے، آستین میری ہے
جو آج تک نہ بکی وہ زبان رکھتا ہوں
جو آج تک نہ جھکی وہ جبین میری ہے
ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
عجیب پاگل مرے قبیلے کے لوگ ہیں جو
بھٹکتے پھرتے ہیں تیرگی میں گنوا کے جگنو
رائے ریاض حسین کی کتاب پڑھنا شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا کہ انفرمیشن گروپ کے اس افسر نے دوران ملازمت پیش آنے والے واقعات بے کم و کاست سلیقے سے بیان کر دیے ہیں، کسی سے رعائت برتی نہ بلاوجہ زیادتی کے مرتکب ہوئے، میاں نواز شریف کے ساتھ تین بار کام کیا، ہمیشہ حسن ظن سے کام لیا مگر سیاست میں آئے اور ٹکٹ کے طلب گار ہوئے تو دیرینہ تعلق کام آیا نہ علاقے کو ترقی دینے کی لگن اور نہ جھنگ کے عوام کو دو بڑے فرعون صفت خاندانوں سے نجات دلانے کا جذبہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے، لکھتے ہیں:
"ٹکٹ کا مرحلہ سب سے اہم تھا ٹکٹ کے لئے درخواستیں شروع ہوئیں درخواست کے ساتھ پچاس ہزار روپے جمع کرانے ہوتے تھے جو کافی بھاری معلوم ہوئے۔ مگر مسلم لیگ ن نے ٹکٹ کا فیصلہ بہت لیٹ کر دیا۔ گو کہ مجھے یقین تھا کہ میاں نواز شریف مجھے ضرور ٹکٹ دیں گے مگر پھر بھی مجھے ہر صورت حال کے لئے تیار رہنا تھا۔ ہر جگہ یہی سوال ہوتا کہ ٹکٹ کا کیا بنا؟
میں نے درخواست جمع کرانے کے بعد عمرہ کے لئے خانہ کعبہ کا رخ کیا تاکہ بڑے دربار سے منظوری لی جائے۔ میں نے میاں صاحب کو میسج کیا کہ "جناب ٹکٹ کے لئے NA 114 اور PP124سے درخواست دے دی ہے اور خانہ کعبہ میں جا کر اللہ تعالیٰ سے منظوری حاصل کرنے جا رہا ہوں۔ میاں صاحب کا جواب Non Committalتھا۔ انہوں نے عمرہ کی مبارک دی اور بس۔ خانہ کعبہ میں اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا کی کہ اے اللہ اگر تجھے منظور ہے کہ میں اپنے علاقے کے پسے ہوئے عوام کی خدمت کروں تو کامیابی عطا فرما"۔
"واپس آیا تو پارٹی نے سب ٹکٹ کے امیدواروں کو لاہور ماڈل ٹائون طلب کیا۔ میں ملک رمضان صاحب کے ساتھ صبح چھ بجے گائوں سے چل کر دس بجے ماڈل ٹائون آفس لاہور پہنچا۔ بے شمار لوگ موجود مگر انتظار، کنفیوژن اور طویل انتظار۔ کوئی کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ پرانے جاننے والوں میں سے میاں صاحب کے پولیٹکل سیکرٹری قمر زمان خان موجود تھے مگر رہنمائی ندارد، انتظام کا حال یہ تھا کہ پینے کے لئے پانی تک میسر نہ تھا حالانکہ ہر امیدوار (Candidate) پچاس ہزار روپے دے کر آیا تھا۔ سارا دن انتظار کے بعد جب میں بھوک پیاس سے نڈھال ہو گیا تو رات کے نو بجے ہم کھانے کی تلاش میں نکلے۔ اپنی طرف سے جلدی جلدی کھا پی کر جب واپس آئے تو پتہ چلا کہ جھنگ کے سب حلقوں کے امیدواروں کو بلا لیا گیا ہے"۔
"ہال کے باہر میاں صاحب کے سکیورٹی کے انچارج حاجی شکور ملے انہوں نے رہنمائی کی اور ہال کے اندر پہنچایا۔ وہاں پر سامنے کی میز پر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، راجہ ظفر الحق، پرویز رشید اور دیگر سینئر لیڈر براجمان تھے۔ سب امیدواروں سے باری باری پوچھ رہے تھے، جب میں پہنچا تو شیخ وقاص اکرم، صائمہ بھروانہ اور افتخار بلوچ نے مختصر تعارف کرایا۔ میری باری آئی تو میں نے کہا کہ جناب قائد محترم گو میرا تعلق سول سروس سے رہا ہے مگر میری سیاسی تربیت آپ کے زیر سایہ ہوئی ہے اور میں آپ کے ساتھ وقفے وقفے سے تقریباً بیس سال سے منسلک ہوں۔ لیکن اس سے اہم بات یہ حلقہ انتخاب ہے جہاں سے میں بھی امیدوار ہوں۔
جناب والا یہ حلقہ ملک کا واحد حلقہ ہے جو 1936ء سے لے کر اب تک ہر حکومت میں اقتدار کا حصہ دار رہا ہے۔۔ میٹنگ ختم ہوئی مگر ٹکٹ کا کوئی فیصلہ نہ ہوا اور نہ اعلان۔ اس غیر یقینی صورتحال میں چنیوٹ میں ہمارے حلقے کی درخواستیں ہوئیں۔ مگر مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ ٹکٹ کا چانس کم ہے، دوستوں نے پوچھنا شروع کیا کہ اگر ٹکٹ نہ ملا تو آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینا ہے؟ جس پر میں نے کہا کہ آزاد حیثیت میں ہمارا جیتنا بہت مشکل ہے۔ بالآخر بہت دیر میں ٹکٹوں کا اعلان ہوا تو میرا نام نہ تھا۔ مجھے کسی سے کوئی گلہ نہ تھا۔
رائے ریاض حسین بھارت میں اپنی خواہش پر پریس منسٹر مقرر ہونے اور وطن کی محبت میں سرشار خوب کام کیا، قیام بھارت کے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں"کرول باغ ایسا تھا جیسے ہمارا راولپنڈی کا راجہ بازار۔ وہاں پر ہمارے ہوٹل کے سامنے سرگودھا سٹور تھا۔ میں فوراً وہاں گیا اور مالک سے اپنا تعارف کرایا جو قیام پاکستان کے وقت سرگودھا سے ہجرت کر کے انڈیا گئے تھے، بہت اچھی طرح پیش آئے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بھارتی انفرادی طور پر پاکستانیوں سے بہت احترام اور محبت سے پیش آتے ہیں مگر ایک بات جو وہ چھٹتے ہی کرتے ہیں اس سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہر بھارتیباشندہ ملاقات کے پانچ منٹ بعد ہی کہے گا کہ "صاحب، کیا ضرورت تھی علیحدہ دیش بنانے کی؟ ہم تو ایک ہیں" جس سے مجھے بہت چڑ ہوتی تھی اور اس کا میں ہمیشہ بروقت اور مناسب جواب دیتا تھا۔
چند دنوں میں ہی مجھے احساس ہو گیا کہ بھارت کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کا اس بات پر اتفاق (Consensus) ہے کہ پاکستان کا قیام غلط ہوا ہے۔ دہلی میں اگر آپ مونگ پھلی خریدنے کے لئے ریڑھی پر کھڑے ہو جائیں تو ہمارے قد کاٹھ، رنگت اور لباس سے ریڑھی والا فوراً پوچھے گا کہ "صاحب، کہاں سے آئے ہیں" اگر آپ کہیں کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو اس کا فوری ری ایکشن ہو گا کہ "صاحب کیا ضرورت تھی علیحدہ دیش بنانے کی؟" اور یہی بات جب میری انڈیا کے صدر اے پی جے عبدالکلام سے ملاقات ہوئی تو اس نے بھی کی۔ تعجب ہے کہ 70سال سے زیادہ گزرنے کے باوجود بھارتیوں نے پاکستان کے قیام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بڑے بڑے دانشور اس امید میں ہیں کہ بہت جلد پاکستان، بھارت سے آن ملے گا یا کم از کم (Economic Union)ضرور بنائے گا"۔
بھارت میں قیام کے دوران رائے ریاض کو اپنے ملک کے دو سیاستدانوں سے ملنے اور ان کی اپنے وطن سے "محبت" کا اندازہ ہوا"ایک دن معلوم ہوا کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن دہلی آئے ہوئے ہیں۔ میں نے موقع کو مناسب جانا اور فوراً دہلی میں دیوبند کے مرکز پہنچ گیا۔ تھوڑی کوشش کے بعد مولانا مرغوب الرحمن(مدرسہ دیوبند کے اس وقت کے سربراہ) کے دفتر میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے علیک سلیک کے بعد کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر بڑے زور و شور سے کرنا شروع کر دیا۔
مختلف مظالم کی تفصیل بیان کی۔ انہی دنوں شہید ہونے والے نوجوان کا قصہ بیان کیا جسے پاکستانی دہشت گرد کہہ کر شہید کر دیا گیا تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے کراچی کے کسی مدرسے سے جوڑ دیا گیا مگر بعد میں ایک آدھے اخبار نے بھانڈہ پھوڑ دیا کہ وہ لڑکا تو کبھی ملک سے باہر گیا ہی نہیں، میری اچھی خاصی پرجوش تقریر کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میں مرغوب الرحمن اور فضل الرحمن سے مخاطب نہیں ہوں بلکہ کسی دیوار کے ساتھ ٹکریں مار رہا ہوں۔ میری حیرانی بہت جلد افسردگی میں بدل گئی جب دونوں مولویوں نے جواب میں ایک لفظ بھی نہ بولا۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کے مظالم سے مکمل لاتعلقی میرے اندر ایک ہیجان برپا کر گئی۔
میں حد درجہ مایوس اور افسردہ ہو کر دیوبند کے دفتر سے واپس آیا اور مجھ پر کانگریسی ملائوں کی حقیقت کھل چکی تھی۔ اگلے دن مولانا فضل الرحمن ہائی کمیشن آئے، میں نے وہاں بھی اس ظلم کی داستان کو دہرایا مگر مولانا وہاں بھی لاتعلق رہے۔ میرے اس دکھ کا مداوا آج تک نہیں ہو سکا"۔ (جاری ہے)