کہتے ہیں ایک کمہار گدھے لے کر کہیں جا رہا تھا، راستے میں کسی خاتون نے کمہار سے لفٹ مانگی، کمہار کو ترس آ گیا، اُس نے خاتون کو گدھے پر بٹھایا اور منزل مقصود کی طرف چل پڑا، راستہ ناہموار تھا اور گدھا خرمستی میں مگن، ٹھوکر سی لگی تو خاتون گر پڑی، کمہار کا کوئی قصور نہ تھا مگر خاتون اس پر چڑھ دوڑی، راہ چلتے مسافر نے کمہار سے ماجرا پوچھا، تو اُس نے تفصیل بتا دی، خاتون اپنی غلطی سے گری یا گدھے کی خرمستی سے، کمہار کا کوئی قصور نہ تھا، مسافر کی زبان سے برجستہ نکلا "ڈگی کھوتی توں تے غصّہ کمہار تے"امریکہ کو افغانستان میں شکست اور ذلت آمیز پسپائی کا سامنا سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور اس کے جانشینوں کی طاقت کے نشے میں تشکیل دی گئی، لغو، زمینی حقائق سے متصادم، حکمت عملی کی وجہ سے کرنا پڑا، بیس سال کے دوران امریکہ نے تین ہزار ارب ڈالر افغان جنگ میں جھونکے، جن کا بیشتر حصہ امریکی کنٹریکٹرز، فوجی اور سفارتی عہدیداروں کے علاوہ افغان حکمرانوں کے بنک اکائونٹس میں منتقل ہوا، تین لاکھ افراد پر مشتمل افغان نیشنل آرمی کی تربیت اس قدر ناقص تھی کہ وہ اگست 2021ء میں ایک گولی چلائے بغیر طالبان کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔
75ہزارغیر منظم جنگجوئوں کے مقابل تین لاکھ فوج کا سرنڈر عسکری تاریخ کا پہلا اور غالباً آخری شرمناک، عبرتناک واقعہ ہے، ثابت یہ ہوا کہ مقصد جذبے اور عزم کے سامنے فوجی تربیت اور جدید ہتھیار سب بے کار ہیں ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے مسلمان تو نہ شاہی، نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
صدر جوبائیڈن، جنرل مارک ملی، جنرل میکنزی اور وزیر خارجہ بلنکن ایک ایک کر کے سارے سیاسی و فوجی قائدین امریکی شکست کے اسباب بیان کر چکے، کٹھ پتلی افغان حکمرانوں اور نیشنل آرمی کی بزدلی پر تین حرف بھیج چکے اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر کابل پر قبضہ کی داستان بھی کسی سے مخفی نہیں، جارج بش کو محض فوجی طاقت کے خمار میں افغانستان پر حملے کا مشورہ پاکستان نے دیا نہ بیس سال تک بے مقصد جنگ میں اپنے فوجی کھربوں ڈالر جھونکنے کی ترغیب دی اور نہ وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے بغیر بزدلانہ انخلا پر مجبور کیا، سارے فیصلے پاکستانی مشوروں کو نظر انداز کر کے امریکی سیاسی اور فوجی قیادت نے خود کئے یا اپنے علاقائی سٹریٹجک پارٹنر بھارت کی بات سنی، جس نے پہلے سوویت یونین اور پھر امریکہ کو چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے گا "کی مالا جپی اور اپنے سابقہ و موجودہ اتحادی کو رسوائی سے دوچار کیا، امریکہ نے برطانیہ اور سوویت یونین کے افغانستان میں خوفناک حشر کو یاد رکھا نہ ویت نام سے سبق حاصل کیا، مگر گدھے سے گرنے والی جھگڑالو عورت کی طرح امریکی سیاستدان اپنی ذلت آمیز شکست اور شرمناک انخلا کا غصہ پاکستان پر نکال رہے ہیں، جس کا تازہ ترین ثبوت امریکی سینٹ میں بائیس ارکان کی طرف سے پیش کیا جانے والا بل ہے۔
" AFGHANISTAN COUNTER TERRORISM OVERSIGHT AND ACCOUNTBILITY ACT OF 2021"
کے عنوان سے پیش کئے جانے والے اس بل میں حکومت پاکستان کو طالبان کا سہولت کار، امریکی شکست کا ذمہ دار اور سزا کا حقدار قرار دیا گیا ہے اور امریکی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ طالبان کی طرح حکومت پاکستان پر بھی پابندیاں عائد کرے۔ ری پبلکن سینیٹرمٹ رومبنی (سابق صدارتی امیدوار) سمیت بائیس ارکان کا پیش کردہ بل منظور ہوتا ہے یا نہیں؟ اس بات سے قطع نظر بل کے مقاصد واضح ہیں، ڈیمو کریٹ صدر بائیڈن کو دبائو میں لانے، افغانستان پر معاشی پابندیوں کے ذریعے پورے جنوبی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور امریکی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کےعلاوہ یہ بل امریکہ کی اپنے اتحادیوں سے بے وفائی، طوطا چشمی اور عہد شکنی کا مظہر ہے۔ 1965ء سے 1990ء تک امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ "استعمال کیا اور پھینک دیا" پالیسی کی جھلک دکھائی مگر قابل داد ہے ہماری موٹی کھال والی سیاسی اشرافیہ اور سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ کہ وہ کبھی بدمزہ نہیں ہوئی، سمنگٹن، پریسلر ترامیم اور کیری لوگر بل کے کڑے ثمرات سمیٹنے کے باوجود امریکہ نے جب بھی پکارا ہم نے لبیک کہا اور تعاون کرنے چل پڑے ؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
پرویز مشرف کے دور میں ہم نے غیر مشروط تعاون کا فیصلہ کیا، اسیّ ہزار انسانی جانوں کا زیاں ہوا اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا، امریکی درخواست پر طالبان کو دوحا مذاکرات کی میز پر بٹھایا، امریکہ پُر امن اور محفوظ انخلا میں کامیاب ہوا، باعزت انخلا قسمت میں نہیں لکھا تھا، پاکستان نے مگر بھر پور کوشش کی، طالبان کو حکومت واپس مل گئی مگر پاکستان کو کیا ملا؟ "کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا" غالباً امریکہ سے دوستی اور وابستگی کے پس منظر میں ہی شاعر اسلام حفیظ جالندھری نے کہا تھا:
ناکامیٔ عشق یا کامیابی
دونوں کا حاصل خانہ خرابی
آج ہم ایک دو راہے پر کھڑے ہیں۔ غالب کے اس شعر کے مصداق کیفیت سے دوچار ؎
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
دعویٰ ہماری حکمران اشرافیہ کایہی ہے کہ امریکہ کو اب بدلے ہوئے پاکستان سے پالا پڑا ہے اسلامی جمہوریہ کسی کے لئے ترنوالہ ہے نہ امریکہ کے ہاتھ کی چھڑی اور یورپ کے جیب کی گھڑی، نیو کلیئر اسلامی ریاست اپنی عزت اور ساکھ کا تحفظ کرنا جانتی ہے لیکن پاکستانی عوام دودھ کے جلے ہیں، چھاچھ پھونک پھونک کر پیتے اور ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایک بار پھر اس سوراخ سے دوبارہ نہ ڈسے جائیں جس میں ہماری حکمرانوں کو انگلی ڈالنے کی پختہ عادت ہے ؎
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی