ان دنوں بزرگ اور زیرک صحافی جناب الطاف حسن قریشی کی ضخیم کتاب"مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارہ" زیر مطالعہ ہے۔ یہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو الطاف صاحب نے ایوب خانی اور یحییٰ خانی عہد میں لکھے اور اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور پاکستان کے زوال کی اہم وجوہات ان مضامین کے مطالعہ سے سامنے آتی اور محب وطن پاکستانی کو شدیدذہنی و روحانی پریشانی و پشیمانی میں مبتلا کرتی ہیں، چودہ سو صفحات کی یہ کتاب کئی ماہ قبل موصول ہوئی مگر تفصیل سے پڑھنے کا موقع نہ مل سکا، الطاف حسن قریشی صاحب کے پوتے اور ہمارے بھائی کامران الطاف کے صاحبزادے ایقان حسن قریشی نے ان مضامین کو محنت سے مرتب اور علامہ عبدالستار عاصم کے ادارے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے شاندار انداز میں زیور طبع سے آراستہ کیا۔
کتاب میں سقوط مشرقی پاکستان کے ایک اہم کردار میجر جنرل (ر)رائو فرمان علی کا نقطہ نظر شامل ہے جس کے چیدہ چیدہ حصے قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہیں۔ فوجی آمروں کی گھاتوں اور سیاستدانوں کی وارداتوں کو سمجھنے کے لئے ایک تجربہ کار اور سینئر فوجی اہلکار کا نقطہ نظر آج کے حالات میں بھی قابل غور اور لائق مطالعہ ہے۔ رائو فرمان علی خاں کے بیان کردہ واقعات میں احساس زیاں ہے اور اعتراف شکست بھی۔ اگر اس وقت کے سول و فوجی زعما اپنی انا، اپنے ذاتی مفاد اور اپنے سیاسی مستقبل سے قطع نظر صرف اور صرف مملکت خداداد پاکستان کے بارے میں سوچتے تو شائد پاکستان دولخت ہوتا نہ موجودہ پاکستان زوال کی اس منزل تک پہنچتا۔ الطاف حسن قریشی رائو فرمان علی خاں کی زبانی بتاتے ہیں۔
"فیلڈ مارشل ایوب خاں نے سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے سیاسی لیڈروں کی گول میز کانفرنس بلائی۔ مغربی پاکستان کے قائدین نے آواز اٹھائی کہ شیخ مجیب الرحمن کے بغیر ہم گول میز کانفرنس میں نہیں بیٹھیں گے۔ اس آواز نے شیخ صاحب کو لیڈروں کا عظیم ترین لیڈر بنا دیا۔ اس کا مقام بہت اونچا ہوگیا۔
اسلام آباد سے جنرل مظفر الدین کے نام نہایت خفیہ پیغام آیا کہ(گرفتار زنداں) شیخ صاحب کو کسی طریقے سے مغربی پاکستان بھیجنا ہے، تاکہ گول میز کانفرنس شروع ہو سکے۔ جنرل صاحب نے مجیب سے بات کی۔ اس نے کہا یقین جانئے میں صدر ایوب کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں اس جیسا اچھا صدر اور کوئی نہیں ملے گا۔ میں راولپنڈی جانے پر تیار ہوں۔ میں یہ مطالبہ بھی نہیں کروں گا کہ پہلے مجھے ضمانت پر رہا کیا جائے، پیرول پر جانے کے لئے تیار ہوں۔ یہی پیغام جنرل صاحب نے صدر ایوب تک پہنچا دیا۔
پروگرام یہ بنا کہ شیخ مجیب رازداری سے راولپنڈی جائیں گے اور اسی طرح واپس آ جائیں گے۔ مجیب کے سیاسی حریف موجود تھے۔ شاید خواجہ شہاب الدین کے ذریعے یہ خبر سیاسی حلقوں تک پہنچی اور مولوی فرید احمد نے بیان دے دیا کہ مجیب پیرول پر راولپنڈی آ رہا ہے۔ اس بیان نے سارا نقشہ ہی پلٹ دیا۔ بعض اوقات سیاسی رہنما موقع کی نزاکت کا خیال نہیں رکھتے، صورت حال کی گہرائی میں نہیں جاتے اور ہیجان پیدا کرنے کے لئے بیان داغ دیتے ہیں۔ مجیب کو اس اخباری بیان کا علم ہوا تو اس نے پیرول پر جانے سے صاف انکار کر دیا کہ پہلے مجھے رہا کرو، تب جائوں گا۔
رہائی کا فیصلہ مغربی پاکستان میں ہونا تھا۔ ہم آخری احکام کا انتظار کرتے رہے۔ معلوم ہوا کہ ایوب خاں، شیخ مجیب کو رہا کرنے کے بجائے مارشل لاء نافذ کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ وزیر دفاع ایڈمرل اے۔ آر۔ خاں اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس، ڈھاکہ آئے اور رات کے وقت جنرل مظفر الدین سے ملے۔ میں بھی اس میٹنگ میں شامل تھا۔ غالباً 22فروری کی رات تھی۔
انہوں نے صرف مشرقی پاکستان میں مارشل لاء نافذ کرنے کی تجویز پیش کی۔ ہم نے کہا مارشل لاء پورے ملک میں لگنا چاہیے۔ صرف مشرقی پاکستان کو مارشل لاء کے حوالے کر دینا بہت خطرناک ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ اس کے نفاذ کی صورت میں صدر ایوب کو اقتدار سے ہٹ جانا ہوگا، کیونکہ اب حالات ایسے موڑ پر آ چکے ہیں کہ ایوب خاں کی حمایت میں لگا ہوا مارشل لاء نافذ نہیں کیا جا سکے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ اسے کسی اور نے لگایا، تو یہاں حالات معمول پر آ جائیں گے۔
ہم سے تفصیلی گفتگو کے بعد وہ واپس چلے گئے اور یہی رپورٹ دی کہ ان حالات میں صرف مشرقی پاکستان میں مارشل لاء نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ چند روز بعد حکم آیا کہ شیخ مجیب الرحمن کو رہا کردیا جائے۔ ہم نے مجیب کو رہائی کا مژدہ سنایا، تو وہ ایک قدم مزید آگے بڑھا۔ اس نے کہا راولپنڈی جانے سے پہلے مجھے ایک جلسہ کرنے دیجیے، تاکہ مشرقی پاکستان سے منظوری لے کر جائوں اور سیاسی حل تلاش کرنے میں واضح کردار ادا کر سکوں۔ یہ پیغام بھی آگے بھیج دیا گیا۔
مجھے اعتراف ہے کہ فوجی سادہ ذہن رکھتے ہیں۔ وہ سیاست دانوں کے پیچ و خم سے پوری طرح باخبر نہیں ہوتے۔ شیخ مجیب درحقیقت اپنی طاقت کا اندازہ لگانا چاہتا تھا۔ اسے سیاسی جلسہ کرنے کی اجازت مل گئی۔ جلسے میں چھ سات لاکھ افراد کی حاضری تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کے دماغ میں ہوا بھر گئی اور اس پر نشہ طاری ہوگیا۔ وہ عجب شان بے نیازی سے مغربی پاکستان گیا اور جو رویہ اختیار کیا، اس سے گول میز کانفرنس ناکام ہوگئی۔ مسٹر بھٹو نے پہلے ہی کانفرنس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا، چنانچہ سیاسی حل کے راستے مسدود ہو گئے اور غیر سیاسی طاقتیں سرگوشیاں کرنے لگیں۔
اپریل میں چیف آف سٹاف جنرل گل حسن، ڈھاکہ آئے۔ میں ان دنوں گورنر ہائوس میں تھا۔ انہوں نے جنرل مظفر الدین اور میری موجودگی میں وہ ساری کہانی بیان کی جس کا تعلق مارشل لاء سے تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں جنرل یحییٰ کے کمرے میں داخل ہوا، ان کے سامنے جا بیٹھا اور میز پر پوری قوت سے مکا مارتے ہوئے کہا کہ ہم مارشل لاء چاہتے ہیں جو آپ کی قیادت میں لگنا چاہیے۔ جنرل یحییٰ نے پوچھا تم غصے سے بے قابو کیوں ہو رہے ہو اور میرے سامنے میز کوٹنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میں نے جواب دیا کہ میں غصے سے بات نہیں کر رہا، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لیں۔
اس کہانی میں جنرل گل حسن کا جو کردار اُبھرتا ہے، آئندہ واقعات سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جنرل یحییٰ نے صدر ایوب سے اشاروں میں کہہ دیا تھا کہ ہم زیادہ عرصہ حالات خراب ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ 25مارچ تک جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، کر لیجیے۔ ایوب خاں نے صورت حال سدھارنے کے لئے بعض اقدامات کئے۔ مغربی پاکستان کا گورنر تبدیل کیا اور سب سے آخر میں مشرقی پاکستان کا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ جنوری کے آخر میں وہ ڈھاکہ آئے۔
پریذیڈنٹ ہائوس میں ڈنر تھا جہاں ہم بھی مدعو تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان کی بے قابو صورت حال کے بارے میں فیلڈ مارشل کوئی بات کریں گے۔ انہوں نے ہم سے کچھ پوچھا نہ ہمیں ہدایات دیں۔ ڈنر کے بعد جنرل مظفر الدین نے گورنر منعم خاں کوبرطرف کر دینے کی تجویز پیش کی۔ فیلڈ مارشل نے اسے قبول نہ کیا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت منعم خاں ہٹا دیے جاتے، تو ہنگامے اس قدر شدت اختیار نہ کرتے۔
23مارچ کو نئے گورنر نور الہدیٰ نے حلفِ وفاداری اٹھایا۔ میں جنرل مظفر الدین کے برابر کھڑا تھا۔ پوچھا "سر! یہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک دو روز بعد تو ساری بساط ہی لپیٹ دی جائے گی"۔ جنرل بولے "دیکھتے جائو اور خاموش رہو، رکھ رکھائو کے یہی تقاضے ہیں"۔
جنرل مظفر الدین نے بتایا کہ جنرل یحییٰ خاں سے ملاقات میں مارشل لاء کے انتظامات زیر بحث آئے۔ پھر ہم سب پریذیڈنٹ ہائوس چلے گئے جہاں صدر ایوب، الطاف گوہر اور فدا حسن ہمارے منتظر تھے۔ ابتدائی گفتگو کے بعد فیلڈ مارشل نے کہا:
"اب مارشل لاء کے سوا کوئی چارہ نہیں"۔
"میرا بھی یہی خیال ہے"۔ یحییٰ خان نے جواب دیا۔
اس لمحے تک صدر ایوب یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ مارشل لاء میری حمایت میں لگے گا۔ انہوں نے کہا: "ہمیں تفاصیل طے کر لینی چاہئیں"۔
"مگر یہ مارشل لاء فوج لگائے گی"۔ یحییٰ خاں بولے۔
صدر ایوب نے ذرا توقف کیا اور پھر مضبوط لہجے میں کہا: "آپ کی بات سمجھ گیا، مستعفی ہونے کے لئے تیار ہوں"۔ (جاری ہے)