رائو فرمان علی خاں کے مطابق" اب سوال یہ تھا کہ پہلے کس کی تقریر ریکارڈ کی جائے۔ جنرل یحییٰ خان نے اصرار کیا کہ پہلے فیلڈ مارشل کی تقریر ریکارڈ کی جائے۔ بعض افراد کا خیال تھا کہ جنرل یحییٰ اس معاملے میں پہل کریں۔ جنرل یحییٰ کسی قسم کا خطرہ مول لینے پر تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ خطرہ یہ تھا کہ میں تقریر پہلے ریکارڈ کروا دیتا، تو صدر ایوب اس تقریر کی بنیاد پر مجھے برطرف کر سکتے تھے۔ وہ کہتے کہ آئین سے غداری کی ہے"۔
"مجھے یاد آتا ہے کہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی تقریر اسی روز ریکارڈ کر لی گئی۔ الطاف گوہر کی خواہش تھی کہ ریڈیو کنٹرول اُن کے ہاتھ میں رہے، مگر میجر جنرل عمر نے اپنا انتظام پہلے سے کر رکھا تھا، چنانچہ ایوب خاں کی تقریر کا ریکارڈ بہت احتیاط سے جنرل شوکت رضا، کراچی لے گئے اور جنرل ریاض کی تحویل میں دیا جنہوں نے اپنی موجودگی میں وہ تقریر نشر کروائی اور ایک روز بعد جنرل یحییٰ کی آواز ریڈیو پاکستان پر بلند ہوئی۔
اس آواز میں ایک سیاسی عنصر کی آواز بھی شامل تھی۔ پیلو مودی نے اپنی کتاب، زلفی، مائی فرینڈ، میں بھٹو۔ یحییٰ ملاقات کا ذکر کیا ہے جو 24مارچ کو راولپنڈی میں ہوئی۔ وہ لکھتا ہے 24مارچ کو بھٹو اپنی آنٹی کے جنازے میں شریک ہونے کے لئے کراچی سے لاڑکانہ بذریعہ جہاز روانہ ہوئے، مگر فوکر کا رخ پراسرار طور پر راولپنڈی کی طرف موڑ دیا گیا اور موسم اور جہاز میں خرابی کا بہانہ بنایا۔ بھٹو جونہی راولپنڈی پہنچے، انہیں جنرل یحییٰ کا پیغام ملا۔ وہ یحییٰ خاں کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے ملنے چلے گئے۔ یحییٰ خاں بگڑی صورتحال سے بہت پریشان تھے۔ انہوں نے کہا ایوب خاں ناکام ہو چکا ہے اور میں اقتدار سنبھالنے والا ہوں، تمہاری کیا رائے ہے؟ بھٹو تین شرائط پر رضا مند ہو گئے اور یحییٰ خاں نے اطمینان کا سانس لیا۔ یہ پراسرار ملاقات کئی اور پراسرار واقعات کا پیش خیمہ بن گئی"۔
"شیخ مجیب الرحمن سے میری پہلی ملاقات فوری 1969ء میں ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فیلڈ مارشل کے خلاف ایجی ٹیشن زوروں پر تھا اور شیخ صاحب کو رہا کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔ سوال یہ تھا کہ جذبات کے سیلاب میں شیخ صاحب جیل سے گھر تک کیسے پہنچائے جائیں؟ جنرل مظفر الدین نے مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے کہا یہ کام میرے سپرد کر دیجیے۔ حالات بڑے مخدوش تھے۔ کوئی معمولی سی بات ایک ہنگامہ اُٹھا سکتی تھی۔ چند ہی روز پہلے سارجنٹ ظہور الحق جو اگرتلا سازش میں شیخ مجیب الرحمن کا ساتھی تھا، فوج کی حراست میں مارا گیا۔ اس حادثے نے پورے مشرقی پاکستان کو جوالا مکھی بنا دیا"۔
"جنرل مظفر الدین نے یہ نازک ذمے داری مجھے سونپ دی۔ میں نے جیپسٹرلیا اور جیل پہنچ گیا۔ شیخ مجیب اور اُن کے ساتھیوں کو اُس میں بٹھایا اور دھان منڈی روانہ ہوگیا۔ راستے میں شیخ صاحب اپنے معصوم جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ وہ تین برس کے بعد باہر کی دنیا میں آئے تھے اور شہر کو حیرت و مسرت کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے تھے۔ وہ کہتے رہے یہ درخت کتنا بڑا ہوگیا ہے، وہ عمارت بڑی خوبصورت ہے، یہ علاقہ تو پہچانا نہیں جاتا۔ وہ اسی نوع کی خوش گوار باتیں کرتے رہے۔
دوران سفر اُن سے میری سنجیدہ گفتگو بھی ہوئی۔ میں نے کہا شیخ صاحب! پاکستان کے حالات بڑے خراب ہیں، ہر طرف آگ لگی ہے، آپ پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ شیخ صاحب نے کہا گھبرایے نہیں، ہر چیز ٹھیک ہو جائے گی، میں اسلام آباد جائوں گا اور صدر ایوب کا ہاتھ بٹائوں گا۔ پاکستان ہم سب کا ہے، اسے مل جل کر مضبوط بنائیں گے۔ مجیب الرحمن سے باتیں کرتے ہوئے مجھے عجب نوع کا احساسِ شکست ہوا۔ ہم ہار گئے تھے، وہ جیت گیا تھا"۔
"شیخ صاحب کے گھر پہنچے، دروازہ بند تھا اور جب وہ کھلا، تو محبت و شفقت کے عجب مناظر دیکھے۔ گھر والوں کو رہائی کے بارے میں کچھ خبرنہیں تھی، اس لئے شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ مجھے ہدایت کی گئی تھی کہ شیخ صاحب کو گھر چھوڑتے ہی واپس چلا آئوں، مگر مجھے یوں چوروں کی طرح واپس آنا پسند نہ آیا۔ میں نے سوچا خطرے کی کیا بات ہے؟ وہ مجھے کیوں مارنے لگے؟ میں نے تو ان کی خوشی میں اضافہ کیا ہے، چنانچہ میں وہیں رہا۔ شیخ صاحب مجھے گھر کے اندر لے گئے، اہل خانہ سے تعارف کروایا اور ہمارے درمیان تعلقات کی ایک خوش گوار سطح قائم ہوگئی۔
اس پہلی ملاقات کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے میرے ساتھ دوستی کا تعلق بہت اہتمام سے قائم رکھا۔ کسی محفل یا دعوت میں مل جاتے، تو دور ہی سے لپک کر آتے، خیرت پوچھتے اور خوش خلقی سے پیش آتے۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد بھی اس رویے میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آئی۔
مارشل لاء نافذ ہوئے پانچ ماہ ہونے کو آئے تھے کہ مشرقی پاکستان کی فوجی انتظامیہ میں تبدیلی آ گئی۔ اب وائس ایڈمرل احسن اس صوبے کے گورنر تھے اور نظم و نسق کی ذمے داری اُن پر آن پڑی تھی۔ انہوں نے صورتحال کا بغور جائزہ لیا اور صدر یحییٰ خاں کو ایک رپورٹ بھیجی جس میں لکھا تھا کہ انتخابات جلد سے جلد کروا دیے جائیں، عوام نے مارشل لاء ذہنی طور پر قبول نہیں کیا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے مسائل پیدا ہوں گے اور امن عامہ کا تحفظ دشوار تر ہو جائے گا"۔
"ہمیں اس خط کا جواب موصول ہوا کہ نئی انتخابی فہرستیں تیار کی جائیں گی جس میں آٹھ دس ماہ لگ جائیں گے، اس سے پہلے انتخابات نہیں کروائے جا سکتے۔ میرے خیال میں اس جواب کی پشت پر ایک گہری سیاسی چال کارفرما تھی۔ یہ تو پہلے بتا آیا ہوں کہ جنرل یحییٰ خاں نے مارشل لاء نافذ کرتے وقت مسٹر بھٹو کو اعتماد میں لیا تھا جنہوں نے انتخابات کے سلسلے میں ایک سال کی مہلت چاہی تھی۔ یہ مہلت اُنہیں اپنی نئی سیاسی جماعت منظم کرنے کے لئے درکار تھی۔ انتخابات فوری طور پر ہو جاتے، تو اُن کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن نہیں تھے، کیونکہ اس وقت پیپلز پارٹی میں تنظیم تھی نہ قوت"۔ (جاری ہے)