پچھلے پچیس تیس سال سے ہمارے حکمرانوں کی امریکی چاپلوسی کا مشاہدہ کرنے والی نوجوان نسل کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ کوئی پاکستانی وزیر اعظم صاف الفاظ میں کسی امریکی فرمائش کو رد بھی کر سکتا ہے، جن نوجوانوں نے 1970ء کے اواخر یا 1980ء کے اوائل میں آنکھ کھولی، زمانہ طالب علمی میں امریکہ سے آنے والے جونیئر اہلکاروں کو اسلام آباد کے اعلیٰ ایوانوں میں شاہی پروٹوکول کے مزے لوٹتے دیکھا، پاکستان میں متعین امریکی سفیر کی ہمارے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات کی تصویر دیکھی جس میں موصوف وائسرائے کی طرح ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھے ہیں اور ملکی و غیر ملکی اخبارات میں چھپنے والی کہانیوں کے علاوہ امریکی اہلکاروں کی یادداشتوں پر مبنی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی پاکستانی وزیر اعظم امریکیوں کی طرف سے افغان طالبان، داعش اور القاعدہ کی نگرانی کے لئے فضائی اڈے مانگنے پر روکھے انداز میں انکار کر سکتا ہے اور ایچ بی او ٹی وی کے انٹرویو میں یہ بات برملا بھی کہہ دیتا ہے، قصور اس نسل کا بھی نہیں، شعور کی آنکھ کھلنے کے بعد پاکستان میں اس نے بزرگوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وطن عزیز میں حکمرانی کی شرط اوّل امریکی خوشنودی ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں داخلے کا خواہش مند ہر شخص اس کا طلبگار نظر آتا ہے۔
پاکستان میں امریکی اثرورسوخ پچاس کے عشرے میں بڑھا جب ہمارے سول اور خاکی حکمرانوں نے باہمی رضا مندی سے سیٹو اور سینٹو میں شرکت کی اور امریکی غلامی کا پٹہ اپنی گردن میں ڈالا مگر یہ رکھ رکھائو کا دور تھا، ہر حکمران نے اپنی اور قوم کی عزت نفس کو کچھ نہ کچھ ملحوظ رکھا اور قومی خود مختاری کے کم از کم تقاضے پورے کئے، فیلڈ مارشل ایوب خان پر اپوزیشن نے ہمیشہ تنقید کی کہ اس نے اپنے اقتدار کی خاطر قومی مفادات کا سودا کیا مگر اس دور میں پاک چین تعلقات پروان چڑھے اور 1965ء کی جنگ کے دوران بے وفائی پر فیلڈ مارشل نے اپنی کتاب کے ذریعے امریکہ کو "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" کا پیغام دیا، اس دور میں ہمارے فوجی صدر کا استقبال امریکی صدر بنفس نفیس خود کرتے اور پاکستانی صدر امریکی کانگریس سے بھی خطاب فرماتے، متکّبرامریکی چین کا نام سننا پسند کرتے تھے نہ اس سے کسی قسم کے تعلقات کو گوارا کرتے مگر چینی وزیر اعظم چواین لائی پاکستان آتے تو وہ شاندار عوامی استقبال ہوتا کہ دنیا دیکھ کر دنگ رہ جاتی۔ 1967ء اور 1993ء کی عرب اسرائیل جنگ میں امریکہ اسرائیل کا پشت پناہ تھا مگر ہماری بری اور فضائی کمک عربوں کو حاصل تھی، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کا نیو کلیر پروگرام شروع کیا تو امریکہ نے اسے رکوانے کی سرتوڑ کوشش کی، دبائو، دھمکیاں اور بھارت کی پشت پناہی، ہر وہ حربہ جو پاکستان کو مرعوب کر سکے مگر بھٹو پیچھے ہٹے نہ ضیاء الحق نے پیش رفت روکی اور نہ غلام اسحق خاں، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف جھکے۔
پاکستان ایٹمی قوت بن کر رہا، ایران عراق جنگ کے علاوہ عراق میں امریکی فوجی جارحیت کے موقع پر بھی پاکستان نے کوئی دبائو قبول کیا نہ اپنے اصولی موقف پر سمجھوتہ، البتہ حصول اقتدار کے لئے بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف کا دل امریکہ کے کوئے ملامت میں جانے کے لئے ہمیشہ بے قرار و بے تاب رہا، پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئےیہ اقتدار کی حرص تھی کہ 1990ء میں پہلی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف نے امریکی سفیر متعینہ اسلام آباد رابرٹ اوکلے عرف "لمبو" (یہ لقب میاں صاحب نے سفیر موصوف کو غائبانہ طور پر عطا کیا) کو تین ماہ تک شرف ملاقات نہ بخشا مگر 1996ء میں بطور اپوزیشن لیڈر نچلے درجے کی عہدیدار اور ایک سابق سفیر کی بیوہ رابن رافیل سے ملاقات میں تبدیلی کا روڈ میپ طے کرنے کے بعد اسلام آباد کے پانچ صحافیوں کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور اپنے اقتدار میں آنے کی خوشخبری سنائی، آخری عرصہ اقتدار کے دوران موصوف دورہ امریکہ میں منصبی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر وزیر خارجہ جان کیری کے دفتر بہ غرض ملاقات چلے گئے، یہ وزارت عظمیٰ کے منصب سے زیادتی تھی مگر اس بے توقیری کے بیج جنرل پرویز مشرف نے بوئے جو امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ کرسٹینا روکا کا ایوان صدر میں استقبال فرماتے اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر پریس کانفرنس پر فخر محسوس کرتے، پرویز مشرف نے کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکہ کے وہ مطالبات بھی مان لئے جن کی قبولیت کا پاول کو یقین تھا نہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کوگماں " پرویز مشرف نے امریکہ کو دوست ملک افغانستان پر حملوں کے لئے فضائی اڈے دیے جہاں سے بمبار طیاروں کی پچاس ہزار سے زائد پروازیں ہوئیں اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی، امریکی غلامی کی مزید تفصیل جنرل شاہد عزیز کی کتاب"یہ خاموشی کب تک" میں موجود ہے جو مشرف دور میں لاہور کے کور کمانڈر، چیئرمین نیب اور اس سے قبل ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز رہے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف سے صلح اور اپنے مالیاتی جرائم کی معافی کے لئے امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی خدمات حاصل کیں اور مرد حر آصف علی زرداری نے واحد سپر پاور کو یقین دلایا کہ آپ ڈرون حملے جاری رکھیں ہم زبانی احتجاج سے زیادہ کچھ نہیں کریں گے کہ یہ ہماری سیاسی ضرورت ہے۔
امریکہ پاکستانی حکمرانوں سے نت نئی فرمائشوں کا عادی ہے اور گزشتہ پچیس تیس سال کے دوران اس کا ہر جائز و ناجائز مطالبہ کسی رد و کد کے بغیر مانا گیا، اسی دیرینہ عادت کے تحت اس نے یہ فرض کر لیا کہ اب بھی وہ جونہی پاکستان سے فوجی اڈے طلب کرے گا، معمولی سیاسی، سفارتی اور مالی مراعات کے عوض فراہم کر دیے جائیں گے، ایک امریکی اہلکار یہ تو ہرزہ سرائی کر ہی چکا ہے کہ پاکستانی ڈالروں کی خاطر ماں بھی بیچ دیتے ہیں، یہ مگر اس نے نہیں سوچا کہ افغانستان میں سپر پاور کی ہزیمت، خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال جس میں چین کلیدی کھلاڑی کی حیثیت سے سامنے آ چکا ہے، اورستر ہزار سے زائد شہادتوں سے ہماری سول و خاکی قیادت نے سبق سیکھا ہے اور عمران خان ملک کا وزیر اعظم ہے جس نے آئندہ پرائی جنگ میں نہ کودنے اور کسی سپر پاور کا گماشتہ نہ بننے کا قوم سے عہدکر رکھا ہے، اسی باعث امریکی سی آئی اے چیف کو دورہ اسلام آباد میں خاص کامیابی ملی نہ جنیوا میں مذاکرات کے دوران امریکی وفد کو پاکستانی وفد اور اس کے سربراہ ڈاکٹر معید یوسف کے جواب سے خوشی ہوئی، رہی سہی کسر عمران خان نے ٹی وی انٹرویو میں نکال دی، اس دلیرانہ اعلان کے بعد عمران کی زندگی اور اقتدار کو خطرات لاحق ہیں، ریاست پاکستان بھارت کو مکّا دکھانے والے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حفاظت کر سکی نہ جنرل ضیاء الحق کی جان بچانے میں کامیاب ہوئی اور نہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے کبھی اپنے معمولی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی موقف کا مل جل کر، سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دفاع کیا، عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو محض"مرد مجاہد" اور "سپر مین" کہلوانے کے شوق میں قومی مفادات کی یہ جنگ تنہا لڑنے کے بجائے امریکی فرمائشوں کی تفصیل پارلیمنٹ کے سامنے رکھنی چاہیے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، وزیر اعظم کے علاوہ قومی سلامتی کے ادارے ایوان کو بریف کریں اور قرار داد کے ذریعے قومی موقف کا اعادہ ہو، اجلاس کی کارروائی ٹی وی پر نشر کرنے میں بھی حرج نہیں بشرطیکہ سفارتی نزاکتیں آڑے نہ آئیں۔ حکومت کے موقف کو پارلیمنٹ کی تائید مل جائے تو غنیمت ہے۔ کسی پارٹی یا فرد نے امریکیوں کی خوشنودی کے لئے قومی موقف سے انحراف کیا تو قوم خود اس ننگ ملت، ننگ دین، ننگ وطن سے نمٹ لے گی، قومی تائید و حمایت کے بعد اندرون ملک سازش آسان ہو گی نہ امریکی دبائو کارگر، نوجوان نسل کو بھی پتہ چلے گا کہ واقعی پاکستان بدل رہا ہے، بدل رہا کیا، بدل چکا ہے، ہم بھی کسی کی آنکھ میں آنکھ ملا کر بات کرنے کے قابل ہیں۔ آگے تیرے بھاگ لچھئے