نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی بن کھیلے وطن واپسی پر قومی سوگ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی ٹیم بھیجنے سے انکار کر دیا۔ کھیل کو کھیل نہ سمجھنے اور کھیل کے پیچھے کارفرما کھیل پرسنجیدگی سے توجہ نہ دینے کا نتیجہ ہے کہ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ ہی نہیں، حکمران بھی حواس باختہ ہیں اور اپوزیشن حکمرانوں کی بے چینی اور بے بسی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ بلاشبہ صرف پاکستان ہی نہیں برطانوی نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہنے والے تمام ممالک میں کرکٹ پسندیدہ کھیل ہے اور ان ممالک کی سماجی زندگی کے علاوہ معیشت میں بھی کرکٹ کا عمل دخل نمایاں ہے لیکن کرکٹ کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانا دانش مندی پہلے تھی نہ اب ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں نے کرکٹ کی محبت میں اپنے دیگر مقبول کھیلوں کا ستیاناس کر دیا، ہاکی اور سکواش میں پاکستان عرصہ دراز تک ورلڈ چیمپئن رہا، مگر اب تین میں ہے نہ تیرہ میں، نوجوان نسل کو عالمی سکواش چیمپئن جہانگیر خان اور جان شیر خان یاد ہیں نہ ہاکی کے سمیع اللہ، کلیم اللہ، اختر رسول اور قاسم ضیا کے کارناموں کا علم، کرکٹ ٹیم نے صرف ایک بار ورلڈ کپ جیتا جبکہ سکواش اور ہاکی میں کئی بار ورلڈ کپ جیت کر پاکستان کا نام روشن کیا۔
خیال یہ تھا کہ عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی عمران خان کے دور حکومت میں کرکٹ سمیت تمام کھیلوں پر توجہ دی جائے گی، ہاکی اور سکواش میں ہماری شاندار واپسی ہو گی اور دنیا کے مقبول کھیل فٹ بال کو بھی اہمیت ملے گی جو کرکٹ سے کہیں زیادہ دلچسپ، جسمانی صحت و افزائش کے لیے مفید اور منافع بخش کھیل ہے مگر کرکٹ کا بھی بھلا نہ ہوا۔ نیوزی لینڈ و انگلینڈ ٹیموں کی طرف سے انکار کے بعد پاکستانی کرکٹ کا مستقبل مزید مخدوش نظر آتا ہے، ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں، فارسی میں کہتے ہیں کہ خود کردہ را علاجے نیست۔ میں ذاتی طور پر کرکٹ کے خلاف ہوں نہ کرکٹ کے کھیل کو حاصل سرکاری سرپرستی پر معترض۔ کرکٹ کو قومی اور سرکاری سطح پر جنون اور کمزوری بنا لینا البتہ میرے خیال میں حماقت ہے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی واپسی کے فیصلے پر وزیر اعظم سے لے کر وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سے لے کر وزیر اطلاعات تک جس قدر برہم اور مضطرب نظر آئے وہ غیر ضروری اور وقار کے منافی ردعمل تھا۔ عوامی سطح پر اس قدر بے چینی کا اظہار امریکی حکمرانوں بالخصوص جوبائیڈن اور بلنکن نے کابل سے رسوا کن انخلا کے بعد نہیں کیا۔ غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کا پاکستان آنے سے انکار پریشان کن واقعہ ہے مگر اس قدر نہیں کہ پوری قوم اور ساری حکومت وضاحتوں، تنقید، سینہ کوبی اور طعنہ زنی پر لگ جائے اور ایسا محسوس ہو گویا ہم کسی تاریخی سانحے سے دوچار ہوئے۔
جب عمران خان نے ٹی وی انٹرویو میں تاریخی جملہ "ہرگز نہیں " (Absolutely Not) بولا، دوشنبے میں شنگھائی تعاون کانفرنس کے بعد ہمسایہ ممالک کے حکمرانوں سے مشاورت کے بعدطالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ ظاہر کیا اور افغانستان سے امریکی انخلا کو غلامی کی زنجیریں توڑنے سے تشبیہہ دی تو ان کے ساتھیوں کو اس پالیسی کے نتائج و عواقب کا احساس ہونا چاہیے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اقبال کا یہ شعر سن رکھا ہے ؎
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
مگر شاید یہ نہیں پڑھا ؎
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
امریکہ اور اس کے اتحادی یورپ نے اپنی نو آبادیوں کے لیے جو پھندے تیار کئے ہیں وہ صرف ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف نہیں اور بھی کئی ادارے اور شعبے ہیں جہاں پاکستان جیسی معاشی طور پر دست نگر ریاستوں کو اپنی اوقات میں رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نیوزی لینڈ ٹیم کو انتباہ جاری کرنے والی Five Eyes کی اہلیت و صلاحیت کا علم افغانستان میں ساری دنیا کو ہو چکا ہے۔ جن "پانچ آنکھوں " کو اگست میں یہ پتہ نہ چل سکا کہ طالبان کابل کے دروازے پر پہنچ چکے اور اشرف غنی، امراللہ صالح بوریا بستر باندھ کر کابل سے فرار کے لیے تیار بیٹھے ہیں، انہیں کرکٹ میچ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل دہشت گردوں نے بتا دیا کہ وہ میچ کے دوران کھلاڑیوں پر دھاوا بول دیں گے، اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔
خود داری، ملکی وقار اور قومی عزت نفس کی ایک قیمت ہے جو ہر غیرت مند قوم چکاتی ہے، افغان قوم نے یہ قیمت چکا کر امریکہ اور اس کے طاقتور اتحادیوں سے آزادی حاصل کی۔ پینتالیس ممالک کی جدید ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور سفارتی برتری سے آراستہ افواج قاہرہ کو عسکری اور سفارتی سطح پر شکست دی اور ثابت کیا کہ واقعی غیرت بڑی چیز ہے، ہم اگر بحیثیت قوم عزت سے جینا اور عظمت رفتہ کی بازیابی چاہتے ہیں تو مشکلات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کریں، قرآن مجید میں ہر کلمہ گو کو جتلایا گیا ہے کہ اسے "خوف، بھوک، مال اور جان کے نقصان اور کھیتوں، باغات کے اجڑنے سے" آزمایا جائے گا، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے بعد ممکن ہے، آسٹریلیا کی ٹیم آنے سے انکار کرے، ایف اے ٹی ایف بھی میدان میں کودے، پوری قوم عرصہ دراز سے بھوک، خوف، مہنگائی، بیروزگاری کی صورت میں قومی مختاری کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ وہ حکمران اشرافیہ سے بھی اس کا تقاضا کرتی ہے مگر جب ان کی باری آتی ہے تو وہ "خوئے بدرا بہانہ بسیار" کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کسی کو امریکہ میں زیرتعلیم بچوں کی فکر ستانے لگتی ہے کسی پر لندن، پیرس اور سپین میں جائیدادوں کو یاد کر کے کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور کوئی شاہ فیصل اور اسامہ بن لادن کے انجام سے ڈر جاتا ہے۔ کسی کو یاد نہیں رہتا کہ تعاون پر آمادہ صدام حسین، قذافی کا حشر کہیں زیادہ برا ہوا۔ باتیں سب بناتے ہیں، عمل کی توفیق تاحال کسی کو نہیں، کیا عمران خان اور اس کے ساتھی تیار ہیں؟ مقتدر اشرافیہ آمادہ ہے؟
نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کی واپسی کے بعد ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہر اہم موقع پر ہمارے اداروں نے محض اپنی جان بچانے کے لیے بے مقصد تھریٹ الرٹ جاری کرنے کی جو عادت اپنائی ہے کہیں وہی تو خرابی کی جڑ نہیں۔ عید، یوم عاشور، 12 ربیع الاول کے موقع پر ہر ادارہ تھریٹ الرٹ جاری کر دیتا ہے لیکن بعد میں کوئی پوچھتا نہیں کہ واقعی اگر کوئی خودکش بمبار تیار تھا تو وہ کہاں چلا گیا؟ گرفتار ہوا یا واردات میں کامیاب؟ ویسے بھی خودکش بمبار زیادہ سے زیادہ اڑتالیس گھنٹے تک واردات کے قابل ہوتا ہے اگر یہ گزر جائیں تو اس کا نشہ اتر جاتا ہے اور وہ واردات کے قابل نہیں رہتا، ہمیں اپنی ادائوں پر بھی غور کرنا چاہیے اور خودی و خودداری کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیاری کی ضرورت بھی ہے۔ خالی خولی باتوں اور لایعنی نعروں سے مسائل ہی بڑھائیں گے۔ حاصل وصول کچھ نہیں۔