مشہور یہ ہے کہ جب مرزا اسداللہ خان غالب نے شاعری شروع کی تو بہت مشکل زبان اور فارسی اشعار کہا کرتے تھے، بیشتر لوگ سمجھنے سے قاصر رہتے، ہم عصر شعرا اس مشکل پسندی پر غالب کو طنز و استہزا کا نشانہ بناتے، اس وقت کے ایک شاعر آغا جان عیش نے غالب پر یہ قطعہ موزوں کیا ؎
اگر اپنا کہا، تم آپ ہی سمجھے، تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا، یہ آپ سمجھیں، یا خدا سمجھے
آغا جان عیش کا یہ قطعہ غالب تک پہنچا تو وہ کہاں چپ رہنے والے تھے، بے ساختہ یہ رباعی لکھ بھیجی ؎
مشکل ہے از بس کلام میرا اے دل
سن سن کے اے سخنورانِ کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
مغلیہ عہد تمام ہوا، اردو شاعری نے مشکل گوئی سے آسان گوئی کی منزلیں طے کیں مگر غالب کا یہ مصرعہ "گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل" ضرب المثل بن گیا۔
پاکستان میں برطانوی طرز کی جمہوریت ہے اور حکمران بھی الا ماشاء اللہ وہ ہیں جو برطانیہ سے پڑھے یا برطانیہ جن کا دوسرا گھر ہے، برطانیہ کے ہم غلام رہے اور اب بھی حس غلامی کی تسکین کے لیے کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی موقع پر، کسی نہ کسی حوالے سے برطانیہ کی مثال دیتے فخر محسوس کرتے ہیں مگر برطانوی جمہوریت کے لوازمات سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے، دعویٰ ہم آزادی کا کرتے ہیں، بعض شعبوں مثلاً ڈسپلن اور فرض شناسی میں ہم مادر پدر آزاد بھی ہیں مگر اظہار رائے کی آزادی اور ووٹ کی آزادی سے ہم بدکتے ہیں۔
آئین کے بھی ہمیں وہ حصے پسند ہیں جن سے ملکی اشرافیہ کے حقوق و مراعات کا تحفظ یقینی نظر آئے۔ جمہور کے بنیادی حقوق والا حصہ روز اول سے معطل ہے اور جو فرد، ادارہ یا گروہ اس حوالے سے آواز اٹھائے گردن زدنی ہے۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں ان دنوں اسی باعث حکمران اشرافیہ کی توپوں کی زد میں ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً عوام اور حکمرانوں کو آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی یاد دہانی کراتے اور کسی شہری کی حق تلفی پر اپنے آئینی و قانونی اختیار کو بروئے کار لاتے ہیں۔
چند روز قبل عمران خان احاطہ عدالت سے گرفتار ہوئے تو ہر قانون پسند شہری نے برا منایا، ایک شخص اپنی ضمانت کے لیے عدالت عالیہ میں پیش ہورہا ہے، ڈائری روم میں بیٹھا شناختی عمل مکمل کرا رہا ہے، اچانک اسے دبوچ لیا جاتا ہے۔ گرفتاری تو خیر ایک قانونی عمل ہے مگر اس کی توہین اور تضحیک بھی ضروری سمجھی گئی جس پر ردعمل ہوا اور چیف جسٹس آف پاکستان نے تین رکنی بنچ بنا کر عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کے اقدام سے ملک میں جاری افراتفری ختم ہوئی، حالات معمول پر آئے اور عام شہریوں نے سکھ کا سانس لیا مگر حکمران اتحاد بالخصوص حضرت مولانا فضل الرحمن کو یہ بہت برا لگا اور وہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کو سبق سکھانے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ریڈ زون پہنچ گئے۔
اسلام آباد میں عرصہ دراز سے دفعہ 144 نافذ ہے، عمران خان کی عدالتوں میں پیشی کے موقع پر بھی ان کے پیروکار جمع ہوں تو لیڈروں اور کارکنوں پر مقدمات قائم ہوتے ہیں۔ ریڈزون تو ویسے بھی وہ مقدس مقام ہے جہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع۔ جلسے، جلوس یا دھرنے کا انعقاد قابل دست اندازی پولیس جرم ہے مگر پیر کے روز حضرت کے ہزاروں معتقدین پولیس کے علاوہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی موجودگی میں گیٹ پھلانگ کر یہاں پہنچے۔ عدالت عظمیٰ اور اس کے معزز ججوں بالخصوص چیف جسٹس آف پاکستان کی شان میں"قصیدے" پڑھے اور حضرت مولانا کے علاوہ محترمہ مریم نواز شریف کے ارشادات سے محظوظ ہوئے، جان محفل یہی دو شخصیات تھیں، باقی جماعتوں کے لیڈران کرام بھی حاضر تھے وہاں، گرجے برسے بھی بہت مگر ان کا کیا مذکور؟
بدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں خدا کا شکر ہے کہ اسلام آباد کی پولیس نے دھرنے میں کوئی رخنہ ڈالا نہ آئین کی کسی شق کا سہارا لے کر چیف جسٹس اور معزز عدلیہ کی "قصیدہ خوانی" پر حضرت مولانا، مریم نواز یا کسی دوسرے لیڈر کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا۔ انصار الاسلام کو یہ نصرت مبارک ہو، اس سے زیادہ کچھ لکھنا اور کہنا مناسب ہے نہ قومی مفاد کا تقاضا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو اللہ خوش رکھے، انہوں نے آج پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن کیس کی سماعت اگلے ہفتے منگل تک ملتوی کردی اور روایتی تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ یہ تقاضائے حکمت تھا اور حکمت ہی کو اللہ کی کتاب نے خیر کثیر قرار دیا ہے، ہمارے سیاستدان اور دانشور و صحافی بھی اس حکمت کو شعار بنائیں، صبر سے استعانت حاصل کریں تو معاملات الجھنے کے بجائے سلجھتے چلے جائیں مگرمملکت خداداد کا باوا آدم نرالا ہے، یہاں جذبات کا غلبہ ہے اور صبر و تحمل مفقود۔ عوامی مقبولیت احتیاط اور حکمت کا تقاضا کرتی ہے مگر یہاں جو جتنا زیادہ مقبول اور بااختیار ہے اتنا ہی زیادہ غیر محتاط۔ جذبات سے مغلوب اور حکمت کے جوہر سے نا آشنا، پیروکار بھی رہنمائوں کی تقلید کرتے ہیں اور حکمت سے پرہیز۔ اگر ان رہنمایان کرام کا مدعا و مقصود معاملات کو سلجھانا اور ملک کو سنوارنا ہوتو مشکل کچھ بھی نہیں مگر ؎
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
ان الجھے حالات اور روز بروز بگڑتے ماحول میں مرزا کے "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل" کی حکمت سمجھ آتی ہے۔ آئین و قانون کی ہر جمہوری اور غیر جمہوری دور میں مٹی پلید ہوئی، کوئی حکمران مستثنیٰ ہے نہ ادارہ مگر موجودہ تجربہ کار اور "زخم خوردہ" حکمرانوں نے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، ضیاء الحق اور پرویز مشرف اپنی قبروں میں لیٹے ضرور سوچتے ہوں گے کہ یہ ہتھکنڈے آخر ہمیں کیوں نہ سوجھے؟ جمہوریت کی پخ لگا کر یہ سب کچھ جمہوری دور میں ممکن ہے تو ہمارے آمرانہ فوجی ادوار میں کیوں نہیں؟ اس سے زیادہ کیا عرض کریں ؎
اظہار بھی مشکل ہے، چپ رہ بھی نہیں سکتے
مجبور ہیں اُف اللہ، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے