Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Iqtidar Ki Majbooriyan (1)

Iqtidar Ki Majbooriyan (1)

ڈھونڈھ تو میں کچھ اور رہا تھا، مختلف ادوار میں احاطہ عدالت سے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاری پر عدالتی احکامات کی تفصیل مگر سابق آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات پر اچانک نظر پڑ گئی، سوچا پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے اسباب و علل پر کیوں نہ ایک ایسے شخص کی سوچ سے استفادہ کیا جائے جو پاک فوج کا سربراہ رہا، وردی میں اور وردی کے بغیر سیاسی کھیل کا حصہ۔ 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پیش آنے والے اہم سیاسی و عسکری واقعات کا عینی شاہد۔ "اقتدار کی مجبوریاں" نامی ان کی سوانح حیات میں جنرل صاحب نے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔ "دراصل اس کا بنیادی سبب ہماری اپنی اندرونی کمزوریاں ہیں جن کو ابھی تک ہم دور نہیں کر سکے اور نہ ہی ہم نے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کمزوری جمہوری نظام میں اکثریت کی اہمیت کو نہ سمجھنا ہے اور اس پر عمل پیرا نہ ہونا ہے۔ یعنی اکثریت کے جبر (Tyranny of Majority)کو تسلیم نہیں کرتے"۔

"قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے قائدین نے ملک کے لئے ایسے جمہوری نظام کا وعدہ تھا کیا جس کی بنیادیں قرآن و سنہ کے سنہری اصولوں پر قائم ہوں۔ یہی وہ بنیادی فیصلہ تھا جس کی روشنی میں 1973ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کے نظریہ حیات کی ترجمانی کرتے ہوئے آئین میں اس کی تشریح کی، یعنی جمہوری نظام کے قیام اور اس کی مضبوطی کا وعدہ کیا جو مرکزی تصور ہے اور یہ تصور اکثریت کے بنیادی اصول پر قائم ہوتا ہے۔ اگر ایک جماعت کو صرف ایک نشست کی برتری حاصل ہوتی ہے تو وہ حکومت بنا سکتی ہے جیسا کہ ایک امیدوار کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت پر فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو "اکثریت کا جبر" کہا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اس حقیقت سے انحراف کیا جس کے سبب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا"۔

"مشرقی پاکستان پورے ملک کی مجموعی آبادی کا 53فیصد تھا۔ اس کی اکثریت کو ہماری قیادت نے تسلیم نہیں کیا۔ قائد اعظم کے بعد اگر کسی کو حکومت بنانے اور وزیر اعظم بننے کا حق تھا تو مشرقی پاکستان کے اے کے فضل حق جیسے بالغ نظر قائدین موجود تھے جو وزیر اعظم بننے کے لئے موزوں ترین شخصیت تھے مگر مغربی پاکستان کے قائدین نے انہیں ان کے جائز حق سے محروم رکھا۔ جب 1954ء کے انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان سے حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور اے کے فضل حق اور شیخ مجیب الرحمن جیسے قائدین نے بھرپور حصہ لیا اور پورے ملک کی بنیاد پر اکثریت حاصل کی لیکن اس کے باوجود انہیں حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی گئی"۔

"اسی طرح 1965ء میں محترمہ فاطمہ جناح نے مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کی لیکن دھاندلی کے ذریعے انہیں ہرا دیا گیا۔ 1970ء میں جب جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کرائے تو مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ کو مجموعی طور پر واضح اکثریت ملی۔ یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کے دورے میں قومی اسمبلی کا اجلاس 3مارچ کو ڈھاکہ میں بلائے جانے کا اعلان کیا لیکن مغربی پاکستان واپس آ کر وہ اس اعلان سے پھر گئے جس کے بعد مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے اور بغاوت شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ جمہوریت کا مطلب ہی اکثریت کی رائے کا احترام ہے، یعنی "ووٹ کا تقدس""

"ہمارے قومی اداروں کی کمزوری اور سیاستدانوں میں سیاسی اصولوں کی پاسداری کا فقدان ہے، جسے سیاسی ناپختگی بھی کہا جا سکتا ہے، جو ہمارے سیاسی و قومی معاملات پر بری طرح اثر انداز ہے۔ مثلاً امریکہ نے فوج، عدلیہ، انتظامیہ اور چند سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چار مرتبہ ہمارے ملک میں فوجی حکومتیں قائم کیں۔ یہاں تک کہ 2007ء میں مشرف کی بنائی ہوئی حکمت علمی کے تحت جمہوری طریقے سے نظام کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا تو سازش ناکام ہوئی کیونکہ اس وقت کی فوجی قیادت نے اس مکروہ کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا اور جب انتخابات ہوئے تو مشرف کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہوئی جس سے امریکی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ اسی روز معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے میں امریکی پالیسی سازوں کی مذمت کی جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں"۔

"پنجاب کی اکثریت ہمیشہ مقتدر قوتوں کی نگاہوں میں کھٹکتی رہی ہے۔ اسی بات کے پیش نظر ہمارے ملک کی سیاست میں اتار چڑھائو نظر آتا ہے۔ ہماری اس کمزوری کو بار بار ہمارے دوست نما دشمنوں نے ابھارا ہے اور اپنے مفادات حاصل کئے ہیں حالانکہ کام بہت آسان ہے کہ قومی اسمبلی فیصلہ کرے کہ ہمارے سیاسی نظام میں جو کمزوریاں اور خرابیاں ہیں انہیں درست کر لیا جائے یعنی بجائے چار صوبوں کے مزید صوبے بنا دیے جائیں تاکہ پورے ملک میں سیاسی توازن قائم ہو اور ہمارے دشمنوں کو اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے"۔

"اسی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ پاکستان بننے سے آج تک ہمارے چھوٹے صوبوں میں معمولی اختلافات، جو باہمی افہام و تفہیم سے بخوبی حل کئے جا سکتے تھے، انہیں طاقت کے بل بوتے پر حل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ بلوچستان، دیر، باجوڑ اور فاٹا جیسے علاقوں میں سیاسی معاملات کو عسکری قوت کے ذریعے حل حل کرنے کی کوشش کی گئی حالانکہ ہم مشرقی پاکستان کے سیاسی معاملات کو عسکری قوت کے ذریعے حل کرنے کا خطرناک تجربہ کر چکے تھے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہو سکتا تھا"۔

تحریک پاکستان خالصتاً ایک سیاسی تحریک تھی جو قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کی سیاسی بصیرت کا کمال تھا جنہوں نے ایک خالص، پرامن اور منظم سیاسی تحریک کے ذریعے ملک کو آزادی دلوائی۔ ہم مسلمانوں پر، خواہ وہ ہندوستان کے کسی بھی حصے میں ہوں، دین کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی سختی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی تمام دینی جماعتیں تحریک پاکستان میں شامل نہیں ہوئیں سوائے مولانا شبیر احمد عثمانی کی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے، جنہوں نے جماعت سے الگ ہو کر تحریک پاکستان میں قائد اعظم کا ساتھ دیا۔

پاکستان کا مطالبہ بنیادی طور پر مسلمان اکثریتی علاقوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا تاکہ انگریزوں کے جانے کے بعد جو خوف تھا کہ ہندو اکثریت معاشرتی و اقتصادی طور پر مسلمانوں پر جبر کرے گی وہ ختم کیا جا سکے جیسا کہ آج ہم نریندر مودی کے دور میں دیکھ رہے ہیں لیکن قائد اعظم کی دور رس نگاہوں نے اس خطرے کو بھانپ لیا تھا کہ جس طرح بھارتی حکومت نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے خصوصاً کشمیری مسلمانوں کو کس قدر اذیتیں دی جا رہی ہیں جو گزشتہ (70) سالوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

"ہماری سیاسی جماعتیں، دینی جماعتوں کو تمام خرابیوں کا سبب سمجھتی ہیں۔ اس لئے کہ ملک میں موجود دو درجن سے زائد دینی جماعتوں کا حکومت بنانے اور چلانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ ایک نظر انداز شدہ قوت ہیں لیکن اس کے باوجود ہماری تمام سیاسی جماعتوں پر ہر وقت ان کا خوف طاری رہتا ہے۔ ان دینی جماعتوں کو جب تک قومی سیاسی دھارے میں نہیں لایا جائے گا ہماری قوم میں معاشرتی انتشار قائم رہے گا۔ قصور ہمارے مدرسوں کا نہیں ہے بلکہ ہماری بے راہ رو سیاسی سوچ و عمل کا ہے"۔ (جاری ہے)