ہمارا اپنے قومی نظریہ حیات سے انحراف خطرناک علامت ہے جبکہ ہمارے آئین میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ ملک کا نظام حکومت، جمہوریت، ہوگا جس کی بنیادیں قرآن و سنہ کے زریں اصولوں پر قائم ہوں گی لیکن اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں تمام کا زور صرف جمہوریت پر ہی رہا ہے اور قرآن و سنہ کو پس پشت ڈالے رکھا ہے۔
دین کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قوم کو ملائیت کی جانب راغب کیا جائے بلکہ صرف وہ بنیادی تعلیم ہے جو ہر مسلمان کو دی جانی لازم ہے اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے تمام سکولوں میں دینی نصاب تعلیم رائج کریں جو 1973ء کے آئین میں لازم قرار دیا گیا ہے تاکہ ہر پاکستان کو اپنی پہچان مل سکے ورنہ آج ہمارے معاشرے میں جو نظریاتی اختلاف موجود ہے وہ قوم کو ابتری کی جانب لے جا رہا ہے۔ ایسی ابتری جو 1965ء میں انڈونیشیا میں خانہ جنگی کا باعث بنی تھی جس میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کمزوری لاعلاج ہو جائے"۔
"امریکہ کو ہماری کمزوریوں کا ادراک شروع دن سے ہی تھا اور انہی کمزوریوں کو ابھار کر وہ اپنے مقاصد حاصل کرتا رہا ہے جس سے ہمارے قومی مفادات کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ ہم امریکی مفادات کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔ کبھی امریکہ کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جنگ کی اور کبھی امریکہ کی خوشنودی کی خاطر برادر اسلامی ملک افغانستان کے خلاف جنگ میں شامل ہوئے۔ ان غلط فیصلوں کے نتیجے میں ہم پر دہشت گردی کا عذاب مسلط ہے جس کے تدارک کی کوششوں میں ہم نے ہزاروں لوگوں کی جانیں قربان کیں اور پھر بھی ہم سے تقاضا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ غیور افغان قوم کو امریکہ اور اس کے مسلط کردہ حکمران اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لائیں"۔
"یہ ایسے مطالبات ہیں جنہیں پورا کرنا ہمارے لئے بہت مشکل ہے کیونکہ ہم نے غیروں کے ساتھ مل کر افغان قوم کے ساتھ جنگ کی ہے اور ہم نے ان سے ترک تعلق کر لیا۔ یہاں تک کہ افغانی جو دشمن کے خلاف جنگ کر رہے تھے ان کے خاندان والوں کو 2010ء کی دہائی میں پاکستان سے نکالا تو افغانوں کا ہم سے ناراض ہونا ایک فطری بات تھی، جو ہماری حکومتوں کی اس احمقانہ پالیسی کا قدرتی ردعمل تھا۔ ایران کی حکومت نے افغانیوں کا ساتھ دیا، ان کے خاندانوں کو تحفظ دیا اور ہر طرح سے ان کی مدد کی۔ آج امریکہ افغانوں کے ساتھ معاملات طے کرنا چاہتا ہے مگر ہماری صلاحیتیں محدود ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ترکی، روس اور چین کی مدد درکار ہوگی۔ قدرت نے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ اپنی غلطیوں کا مداوا کر سکیں اور افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں کامیابی حاصل کریں"۔
"موجودہ دور میں نظام حکومت چلانا آسان کام نہیں ہے جبکہ ہماری حکومتیں قومی معاملات کو کبھی "کچن کیبنٹ" کبھی "کور کمیٹی" اور کبھی عارضی گروپ(Adhoc Group)کے ذریعے چلاتی رہی ہیں جبکہ مہذب جمہوری حکومتوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ذمہ داریاں دی ہوئی ہوتی ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کونسل ملک کے تمام تحقیقی اداروں، منتخب ٹیکنو کریٹس اور متعلقہ ماہرین کی مدد سے تمام ملکی مسائل پر غور کرکے حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرتی ہے اور حکومت کا سربراہ اپنے وسائل اور حالات کو دیکھتے ہوئے عمل درآمد کا فیصلہ کرتا ہے۔ آج سے تقریباً بیس سال قبل بھارت نے اس طرح کی نیشنل سکیورٹی کونسل تشکیل دی اور فوائد حاصل کئے۔ اس طرح سے حاصل ہونے والی مکمل دانشورانہ رائے کے ذریعے نالج بیسڈ (Knowledge based)پالیسی سازی ممکن ہوتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے حکمران نیشنل سکیورٹی کونسل کے نام سے الرجک اور خوفزدہ ہیں"۔
"ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم زمینی حقائق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حقائق کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے ہیں۔ جب تک کوئی قوم اپنے نظریہ حیات کے مطابق اپنے معاملات کو نہیں چلاتی اس وقت تک اسے قوموں کی برادری میں باعزت مقام حاصل نہیں ہوتا۔ ہمارے نظریہ حیات کی تشریح ہمارے آئین میں موجود ہے لیکن ہم اس سے مسلسل انحراف کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اب اس روش کو ترک کرنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنی اصل(دین اسلام) سے نہیں جڑیں گے تب تک حالات میں بہتری کی توقع دیوانے کے خواب کے مترادف ہوگی۔
ہم جمہوریت، جمہورت کا راگ الاپتے تو تھکتے نہیں لیکن ابھی تک جمہوریت کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے۔ ہمیں نہ تو ووٹ کے تقدس کا لحاظ کھنا آیا اور نہ ہی عوامی رائے کا احترام کرنا سیکھا ہے۔ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں لیکن ہم نے عوامی رائے کو پس پشت ڈالنے کے نت نئے طریقے ایجاد کیے اور من پسند نتائج حاصل کرنے کے لئے قومی اداروں کو ساتھ ملا کر عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی راہ اختیار کر رکھی ہے"۔
"حد تو یہ ہے کہ غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی سے اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اس بھیانک کھیل میں شامل رہی ہے۔ مقتدر قوتوں کی جانب سے چھوٹے صوبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ان کے حقوق کی پامالی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ ہم نے کبھی ان کے مسائل کو سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھا بھی ہے تو ان کو حل کرنے کے لئے ان سے بات چیت کرنے کی راہ اپنانے کی بجائے ان کے خلاف لشکر کشی کی اور طاقت کے بل بوتے پر انہیں تابع بنانا چاہا، جو موجودہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ اگر آج بھی ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ پاکستان پر عمل پیرا ہونے کا تہیہ کر لیں تو ہمارے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ قائد اعظم نے 1947ء کو پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
"آپ کا تعلق چاہے کسی مذہب فرقے یا برادری سے ہو، اصولوں پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے تمام شہریوں کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل ہوں گے"۔
"یہ ہیں وہ اہم مسائل جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں، جنہیں حل کرنے کے لئے ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے آگے بڑھ کر قومی مفادات کو اہمیت دینا ہوگی۔ ارادے کی مضبوطی اور خلوص نیت شرط ہے۔ ہمارے پڑوس میں دو قوموں کی روشن مثال ہمارے سامنے ہے کہ جن کے دلوں میں ان کا نظریہ حیات زندہ ہے اور انہوں نے بڑی ہمت اور عزم کے ساتھ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
افغان قوم نے چند دہائیوں کی مدت میں دنیا کی ہر بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دی جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور انہی چند دہائیوں کے دوران ایران نے امریکہ کے ظلم و ستم اور مالی و تجارتی بندشوں کے باوجود ایک ہی جھٹکے میں مشرق وسطیٰ کے تزویراتی نظام کو بدل کے رکھ دیا ہے اور اب امریکہ ایران سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہے۔ "(ختم شد)