پنجابی میں کہتے ہیں ویلہے دیاں نمازاں تے کویلے دیاں ٹکراں (وقت پر نماز اور بے وقت کی محض ٹکریں) وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کی کئی تقریروں کی ٹائمنگ، اسلوب اور افادیت پر اعتراض ہوا، ناقدین نے طرح طرح کے سوالات اٹھائے مگر پیر کی شام انہوں نے قوم سے جو خطاب فرمایا وہ ہر لحاظ سے بے مغز، بے ربط اور بے وقت تھا، شروع میں ہی یہ کہہ کر انہوں نے اپنا مقدمہ کمزور کر لیا کہ تحریک لبیک اور ان کا مقصد ایک ہے، مگر طریقہ کار مختلف۔ سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب کے خلاف پاکستان میں احتجاج کی تاریخ درکنار انہیں سن تک یاد نہ تھا، خان صاحب نے کوئی ڈھنگ کا تقریر نویس یا لائق مشیر رکھا ہوتا تو وہ انہیں یہ ضرور ازبر کراتا کہ سلمان رشدی کی دلآزار کتاب کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ہوا اور نوابزادہ نصراللہ خان کی زیر قیادت احتجاجی تحریک میں آئی جے آئی شریک تھی جس کا میاں نواز شریف حصہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ پوری تقریر کے دوران عمران خان نے معاہدہ شکنی کا کوئی معقول اور قابل قبول جواز پیش کیا نہ پانچ ماہ کے دوران معاہدے کے مطابق پارلیمنٹ میں قرار داد پیش نہ کرنے کی وجہ بتائی اور نہ مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کے صاحبزادے مولانا سعد حسین رضوی کی گرفتاری اور تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے حقیقی اسباب بیان کئے، ایک جماعت جس کا مقصد ناموس رسالتؐ کا دفاع اور جذبہ عشق رسولؐ کا فروغ ہے اور وزیر اعظم اس سے متفق ہیں محض طریقہ کار کے اختلاف کی بنا پر دہشت گرد اور کالعدم کیوں قرار پائی؟ وزیر اعظم نے کچھ بتانا پسند نہ کیا۔
تحریک لبیک کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت نے دوبار معاہدہ کیا، پہلی بار فریق اوّل کے طور پر وزیر داخلہ اعجاز شاہ، فریق ثانی کے طور پر علامہ خادم حسین رضوی کے نامزد افراد نے دستخط کئے دوسری بار شیخ رشید احمد اور سعد رضوی کے نامزد افراد نے، جبکہ دونوں بار وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری ضامن، گواہ اور حکومت کے نمائندہ تھے، پہلا معاہدہ کرتے وقت عمران خان اور ان کے لائق وزیروں مشیروں کو یہ احساس ہوا نہ دوسری بار مقررہ مدت میں توسیع کی درخواست اور مشاورت کے دوران یہ ادراک کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے یورپی یونین کس قدر برہم ہو گی؟ ہماری برآمدات اور قومی معیشت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں تحریک لبیک کیا ردعمل ظاہر کرے گی؟ ع
کب کھلا تجھ پر یہ راز انکار سے پہلے کہ بعد
وزیر اعظم یہ تقریر سعد رضوی کی گرفتاری سے قبل کرتے اور تحریک لبیک کے علاوہ قوم کو یقین دلاتے کہ وہ صرف فرانس ہی نہیں ساری مغربی دنیا کو حضور نبی اکرم ﷺ کی عزت و ناموس، تعظیم و توقیر کے حوالے سے عاشقان رسول ﷺ کے جذبات و احساسات سے آگاہ کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں چھپن مسلم ممالک کے سربراہان کو شامل کرنے کے لئے انہیں وقت درکار ہے تو یقینا مفید اور نتیجہ خیز ہوتی، تحریک لبیک کے لئے جاتے فرار نہ رہتی، مگر ایک ہفتہ کی بے حکمتی، بے تدبیری، چار پولیس اہلکاروں اور اس سے زیادہ تحریک لبیک کے کارکنوں کی شہادت، سڑکوں کی بندش، گزشتہ روز چوک یتیم خانہ کے خون آشام واقعات کے بعد یہ تقریر محض اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش تھی، رائیگاں، بے ثمر۔
پہلے بے سوچے سمجھے معاہدہ کیا گیا، حکومت کی ناتجربہ کاری، غیر سنجیدگی، سفارتی نزاکتوں سے ناواقفیت اور وعدہ شکنی کے مضمرات سے قطعی لاعلمی کا تاثر ابھرا، پھر اچانک وعدہ توڑ کر سعد رضوی کی گرفتاری کا غیر حکیمانہ اقدام ہوا جس کے ردعمل میں ملک مفلوج ہوا اور پھر تحریک لبیک پر پابندی لگ گئی، لوگوں کو جب یہ یقین ہو گیا کہ حکومت و ریاست کالعدم تنظیم کی جڑیں کھوکھلی کرنے اور آئندہ ہر طرح کی احتجاجی تحریک، سڑکوں کی بندش اور دھرنوں، مارچوں کا قلع قمع کرنے کا تہیہ کر چکی ہے تو گورنر پنجاب چودھری سرور اور وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کے علاوہ علماء مشائخ کے ذریعے مذاکرات شروع کر دیے گئے، سوال یہ ہے کہ اگر بالآخر مذاکرات ہی کرنے تھے تو سانحہ چوک یتیم خانہ برپا کرنے اور غریب پولیس اہلکاروں کو مروانے، زخمی کرانے کی ضرورت کیا تھی، اس نیمے دروں نیمے بروں پالیسی سے رٹ آف سٹیٹ مضبوط ہوئی یا کمزور؟ وزیر اعظم عمران خان نے سارا زور بیاں اس مفروضے پر صرف کیا کہ یورپی مصنفین، دانشور، کارٹونسٹ حضور سرور کائنات ﷺ کی توہین کا ارتکاب لاعلمی کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ انہیں آج تک کسی نے علمی دلائل، معقول انداز اور حکمت و تدبیر سے مقام مصطفی (ﷺ) سمجھایا نہ یہ باور کرایا کہ آپؐ کی توہین سے سوا ارب مسلمانوں کے دل کس قدر زخمی ہوتے ہیں۔
یہ سادگی کی انتہا ہے، حضور اکرم ﷺ کی حیات طیبہ پر ہر زبان میں لاکھوں کتابیں لکھی جا چکیں، ہزاروں صرف غیر متعصب یورپی مصنفین کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ صدیوں قبل سپین میں توہین رسالت کے واقعات ہوئے تو تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ یہ لاعلمی نہیں، تعصب، خبث، باطن اور اسلام دشمنی کا مرض ہے جو ہر دور میں کم ہونے کے بجائے بڑھا، یہودیوں کو سب سے زیادہ تحفظ سلطنت عثمانیہ سمیت مسلم ریاستوں نے فراہم کیا مگر یہ ہمیشہ سازشوں اور توہین رسالت ﷺ کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہے۔ ہولو کاسٹ پر پابندی کا سبب یہ نہیں کہ مغربی دنیا کو اس شرارتی اقلیت نے علمی دلائل سے متاثر کر لیا بلکہ یہ مغرب کا اندرونی احساس جرم اور عالمی معیشت پر قابض سازشی ٹولے کے شر سے بچنے کی تدبیر ہے، عمران خان چھپن اسلامی ممالک کے سربراہوں کے علاوہ روس اور چین کو ساتھ ملا کر ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں مغرب دلائل سے متاثر ہو گا نہ توہین سے کبھی باز آئے گا کہ یہ "نیو ورلڈ کے ایجنڈے کا حصہ اور اسلام و مسلمان دشمن مائنڈ سیٹ کا لازم جزو ہے، البتہ مسلم ممالک متفقہ طور پر ان تمام ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیں تو دو دن میں سب کے دماغ ٹھکانے آ جائیں گے کہ یہ بدبخت منطق و دلیل اور منت سماجت سے نہیں، محض طاقت سے مرعوب ہوتے ہیں یہ طاقت خواہ جنگی ہو یا معاشی۔
صرف تحریک لبیک ہی نہیں مختلف سیاسی، مذہبی، نسلی، لسانی اور علاقائی جماعتوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکیں بلاک کرنے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس اہلکاروں سے ہاتھا پائی کا جو کلچر متعارف کرایا اس کا قلع قمع ازبس ضروری ہے اور کوئی معقول شخص سٹیٹ کی رٹ کو کمزور کرنے کی کسی کارروائی کا جواز پیش نہیں کر سکتا۔ ترک سلطان محمود ثانی کا ایک مقولہ مشہور ہے کہ "ریاستی رٹ ہے یا پھر کچھ بھی نہیں " لیکن ریاستی رٹ اخلاقی برتری، انصاف، قانون کی حکمرانی، مساوات کے اصولوں کی پاسداری کے ساتھ قائم ہوتی ہے محض ڈنڈے کے زور پر نہیں، ڈاکٹر کے نشتر اور ڈاکو کے خنجر میں یہی فرق ہے کہ ایک کامقصد اصلاح اور بہتری ہے دوسرے کا ذاتی مفاد اور ناانصافی۔ کل کے افسوس ناک واقعات نے عامتہ الناس کے دلوں کو زخمی اور روحوں کو گھائل کیا، ملک کے بڑے شہروں میں کامیاب شٹر ڈائون ہڑتال اس کا مظہر ہے۔ سانحہ لال مسجد اور سانحہ ماڈل ٹائون پرویز مشرف اور شریف خاندان کے دامن کا وہ داغ ہے جو کبھی دھل نہیں سکتا، طاقت کا گھمنڈ حکمرانوں کی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے مگر نتائج ریاست اور کئی نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں، سید ابوالاعلیٰ مودی نے کہا تو یہ فوجی آمروں کے بارے میں تھا مگر صادق ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں پر بھی آتا ہے کہ "یہ نادان غلطیاں بھی نئی نہیں کرتے پرانی دھراتے چلے جاتے ہیں " جو مسئلہ بالآخر مذاکرات سے حل ہونا ہے اُسے تشدد سے گنجلک کرنے کی کیا ضرورت؟ تشدد خواہ مشتعل مظاہرین کی طرف سے ہو یا ریاستی مشینری کی جانب سے کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتا تو سانحہ لال مسجد اور سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ دار آج تک شرمندہ، رسوا اور فطرت کی تعزیر کا شکار نہ ہوتے۔