شدید محاذ آرائی اور ہیجانی کیفیت میں ماننا مشکل ہے مگر حالات پر سیاستدانوں کی گرفت رفتہ رفتہ کمزور پڑ رہی ہے اور جمہوری نظام سے عامۃ الناس کا اعتماد و اعتبار اٹھنے لگا ہے۔ جمہوریت کی یہ قسم صرف پاکستان میں رائج ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن کے سرکردہ رہنما ایک میز پر بیٹھ سکتے ہیں نہ ایک دوسرے سے مکالمہ اور تبادلہ خیال کے روادار۔
1970ء کے انتخابات کے بعد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پیپلزپارٹی اور اس کی مخالف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مابین شدید سیاسی مخاصمت تھی۔ اپوزیشن ذوالفقار علی بھٹو کو سقوط مشرقی پاکستان کے تین کرداروں اور ذمہ داروں میں سے ایک تصور کرتی تھی جبکہ بھٹو صاحب کے نزدیک مخالف سیاسی جماعتیں عوام دشمن، جمہوریت دشمن اور نہ جانے کیا کیا تھیں۔
خان عبدالولی خان کی نیپ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی اور مولانا مفتی محمود کی جمعیت علماء اسلام کو علی الاعلان قیام پاکستان کا مخالف کہتے اور جیالے اس پر سر دھنتے مگر جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے بھٹو کے دورہ بھارت اور آئین کی تشکیل کے موقع پر دونوں نے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے سے تعاون کیا اور قومی مفادات کو سیاسی و ذاتی مفادات پر ترجیح دی۔
ایک تو یہ جماعتیں سیاسی اختلافات کو ذاتی اور خاندانی دشمنی میں تبدیل کرنے کی عادی نہ تھیں حالانکہ بھٹو صاحب نے ایئرمارشل اصغر خان، مولانا شاہ احمد نورانی، میاں طفیل محمد، چودھری ظہور الٰہی، خان عبدالولی خان، ملک محمد قاسم اور عطاء اللہ مینگل اور دیگر کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ سیاسی دشمنی کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کے لیے کافی تھا۔
اپوزیشن نے بھی بھٹو کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سیاسی اختلافات، ذاتی دشمنی میں کیوں نہ بدلے اور آخری دن تک دونوں متحارب قوتوں میں مذاکرات اور افہام و تفہیم کی گنجائش کیوں باقی رہی؟ یہ دلچسپ سوال ہے جس پر موجودہ سیاستدانوں کوغور کرنا چاہیے مگر وہ کریں گے نہیں کہ وہ معاملات کو جس نہج پر لے گئے ہیں وہاں سے واپسی مشکل ہے۔
1970ء کے عشرے میں حکومت اور اپوزیشن کی باہمی محاذ آرائی اس وقت تک جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں بنی جب تک بھٹو اور اس کے مخالفین مولانا ظفراحمد انصاری، مجید نظامی اور مصطفی صادق مرحوم جیسے معتدل مزاج، صلح جو اور رابطہ کاری کے ماہر افراد کی سنتے اور مانتے رہے۔
1990ء کے عشرے میں جب میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین سیاسی اختلافات نے ذاتی دشمنی کا روپ د ھارا تو مجید نظامی مرحوم بروئے کار آئے اور دونوں کے مابین سلسلہ جنبانی ہوا مگر 1999ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے حوصلہ پاکر میاں صاحب نے کارگل ایشو پر اپنے بزرگ مجید نظامی کے مشوروں سے بے اعتنائی برتی تو نتیجہ 12 اکتوبر کی صورت میں برآمد ہوا۔ اب مگر ایک بھی ظفر احمد انصاری ہے نہ مجید نظامی اور نہ مصطفی صادق جو صرف عمران خان اور شہبازشریف و آصف علی زرداری ہی کو نہیں بنی گالا اور راولپنڈی کے مابین رابطہ کاری کا بھاری پتھر اٹھائے اور جس کی شیریں لسانی، منطق و استدلال اور بے لوثی و بے غرضی فریقین کو باہم مکالمے پر قائل کر سکے۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف سے حالیہ الگ الگ ملاقاتوں میں اس تلخی کا مزید اندازہ ہوا جو دونوں کے دل و دماغ پر حاوی ہے اور دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار بلکہ سرگرم۔ نسلی، لسانی، مسلکی تعصبات کا شکار قوم ایک نئی تقسیم سے دوچار ہے، انتہائی خطرناک اور زہر آلود تقسیم۔ موجودہ بحران اور تقسیم سے عہدہ برآ ہونے کی واحد صورت جلد از جلد منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات ہیں مگر فی الحال مخلوط حکومت اس پر آمادہ ہے نہ الیکشن کمیشن تیار، یوں تلخی مزید بڑھ رہی ہے اور سیاسی عدم استحکام میں اضافہ دوچند ہے۔
اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کے مابین تلخی کی لپیٹ میں قومی اداروں کا آ جانا مزید افسوسناک ہے اور اس آگ پر پانی ڈالنے والا کوئی نہیں، البتہ جلتی پر تیل ڈالنے والے ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ 1970ء میں دیگر تباہ کن غلطیوں کے علاوہ یحییٰ خان سے ایک بڑی حماقت یہ ہوئی کہ اس نے انتخابی مہم کا دورانیہ بڑھا دیا اور مشرقی پاکستان میں سیاستدانوں کی تلخ کلامی نے عوامی جذبات اس قدر مشتعل کر دیئے کہ انتقال اقتدار کا جمہوری عمل بھارت کی مداخلت اور ملک کی تقسیم پر منتج ہوا۔
سقوط بغداد کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے دانشور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ملک کی آزادی اور سلامتی خطرے میں تھی مگر اہل علم کوے کی حلت اور حرمت پر بحث کر رہے تھے۔ بجا مگراپنی حالت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی بدترین شکست کا بدلہ پاکستان سے لینے کے درپے ہے، بھارت کو ساتھ ملا کر وہ ہمارے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف، روس اور چین سے ہماری بڑھتی ہوئی قربتوں سے نالاں ہے مگر یہاں ہماری پارلیمنٹ، میڈیا اور دیگر اداروں میں بحث یہ جاری ہے کہ اسلام آباد کو موصول ہونے والا دھمکی آمیز سائفر سازش کاہے یا محض صریح مداخلت۔ گویا ہماری آزادی، خودمختاری، ترقی و خوشحالی اور سیاسی و معاشی استحکام سے زیادہ اہمیت دو الفاظ کی ہے سازش یا مداخلت۔ اقبالؒ کا سبق یہ تھا کہ ؎
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
مگر ہم سازش اور مداخلت کے پیچوں میں الجھ کر بڑھتی ہوئی مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، مسائل طرز کی جنگجویانہ محاذ آرائی اور خانہ جنگی کے خطرات سے آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ روس نے یوکرین کے خلاف باضابطہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے جو خدانخواستہ ایٹمی یا عالمگیر جنگ میں بدل سکتی ہے۔
اس جنگ کے سب سے زیادہ اثرات ہمارے خطے بالخصوص پاکستان پر مرتب ہوں گے مگر ہم اور ہمارے سیاستدان باہم دست و گریباں ہیں اور خوئے انتقام کی تسکین کے لیے بے چین۔ کل تک فوری الیکشن کے علمبرداروں کو شفاف انتخاب کے لفظ سے چڑ ہے اور نہیں بتاتے کہ عام انتخابات کے سوا موجودہ بحران کا پائیدار حل کیا ہے؟
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں!