وزیر اعظم عمران خان لاکھ کہیں وہ تحریک عدم اعتماد سے خائف نہیں، حقیقت، مگر یہی ہے کہ وہ اس کی تپش شدت سے محسوس کر رہے ہیں، چودھری برادران کے گھر کا طواف اور بہادر آباد مرکز پر حاضری ہی نہیں جہانگیر خان ترین اور علیم خان کی دلجوئی کے جتن تحریک عدم اعتماد کے طفیل ہیں ورنہ انا کے کوہ ہمالیہ کو کسی کی کیا پروا تھی؟ چودھری برادران اور ایم کیو ایم والے اتحادی ہیں، جن سے خان صاحب 2018ء کے انتخابات کے بعد متعارف ہوئے وہ نہ دل سے انہیں پسند کرتے ہیں نہ ان کی ناز برداری پر خوشدلی سے آمادہ، جہانگیر ترین اور علیم خان مگر کپتان کے وفادار، ایثار پیشہ اور تجربہ کار کھلاڑی تھے، سیاست کی گھتیاں سلجھانے میں مددگار اور ایوان اقتدار میں داخلے کی چابیاں، بے رحم سیاست نے مگر انہیں خان صاحب سے نہ صرف دور کیا بلکہ وہ معتوب و مردود ٹھہرے۔ ع
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
شوگر سکینڈل آنے کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو جہانگیر ترین لندن چلے گئے اور کئی ماہ تک دیار غیر میں گزارے، 2020ء کے اواخر میں بعض دوستوں کی مداخلت اور "مہربانوں "کی ضمانت پر وہ وطن واپس آئے اور اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے، ایک دن انہیں پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی ایک قریبی شخصیت لاہور میں پولیس اور ایف آئی اے کو جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے علی ترین کے خلاف ایف آئی آر درج اور گرفتار کرنے پر مجبور کر رہی ہے، ترین نے عمران خان سے رابطہ کیا اور اس واردات کے بارے میں بتایا، وزیر اعظم نے وقوعہ سے لاعلمی ظاہر کی اور کہا "یہ کیسے ممکن ہے؟"
جہانگیر ترین نے انہیں ایف آئی آر کی نقل واٹس ایپ کر دی، وزیر اعظم نے اِدھر اُدھر سے معلوم کر کے جہانگیر ترین کو مطمئن کیا کہ حکومت بنیادی طور پر میاں شہباز شریف کی شوگر مل کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے لیکن چونکہ جہانگیر ترین اور علی ترین کی شوگر مل کے خلاف بھی ویسے ہی الزامات ہیں، لہٰذا کاغذی کارروائی کی تکمیل ضروری ہے، آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، جہانگیر ترین فکر مند کیوں نہ ہوتے؟
انہیں علم تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر داخلہ ان کی اور علی ترین کی گرفتاری کے درپے ہیں، سو وہ عدالت پہنچے اور ضمانت قبل از گرفتاری کرائی یہ معاملہ چل رہا تھا کہ سینٹ کے انتخابات کا مرحلہ آ گیا، حسن اتفاق کہ یوسف رضا گیلانی سینٹ کی رکنیت کے لئے متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار تھے اور احمد محمود کی طرح جہانگیر ترین کے نسبتی رشتہ دار، یوسف رضا گیلانی کی آٹھ ووٹوں سے کامیابی کو جہانگیر ترین گروپ کی اعانت کا نتیجہ قرار دیا گیا اور عمران خان نے اسے جہانگیر ترین کی اپنے علاوہ تحریک انصاف کے ساتھ غداری سمجھا، یوں بالواسطہ رابطے منقطع ہو گئے۔
علیم خان کو نیب نے طلب کیا تو اس نے پیشی سے قبل وزارت سے استعفیٰ دیدیا اور دوچار پیشیوں کے بعد قید ہو گئے۔ چند ماہ کی اسیری کے بعد رہا ہوئے تو کپتان سے ملے اور اپنی بے گناہی کے سبب سینئر وزیر کا منصب واپس لینے کی خواہش ظاہر کی، علیم خان کپتان کا جواب سن کر حیران رہ گئے کہ "میں تو تمہیں وزیر بنانا چاہتا ہوں مگر عثمان بزدار نہیں مانتا تم اس کی منت سماجت کرو"2011ء کے جلسہ لاہور کے بعد تحریک انصاف کو بامِ عروج پر پہنچانے کا دعویدار علیم خان سوچتا ہی رہ گیا کہ اب وہ جمعہ جمعہ آٹھ دن پہلے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے عثمان بزدار کے رحم و کرم پر ہے، اب خان صاحب کو جہانگیر ترین اور علیم خان کی ضرورت پڑ گئی ہے اور ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافیوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ میں جہانگیر ترین کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ کبھی چوروں کا ساتھ نہیں دیں گے، جہانگیر ترین اور علیم خان لندن میں بیٹھ کر خان صاحب کے ریمارکس سے محظوظ ہو رہے ہیں ع
کب کھلا تجھ پر یہ راز؟ انکار سے پہلے کہ بعد؟
تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ جو بھی نکلے، وزارت عظمیٰ کا تاج عمران خان کے سر پر سجا رہے یا میاں شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مالک و متولّی قرار پائیں، دونوں صورت میں ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستانی سیاست کے بازار میں 1990ء کی دہائی کی طرح آج بھی لوٹا کریسی، ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی کے دم قدم سے رونقیں ہیں، حکومت کے اتحادی ہوں یا تحریک انصاف کے ارکان ذاتی مفاد کی طرف لپکتے ہیں یا طاقتور حلقوں کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں، عمران خان اور اُن کے ساتھی بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور ڈالروں کی ریل پیل کا الزام بھی لگا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے اپنے سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کا ایمان کمزور نہ ہو اور وہ قومی مفاد میں فیصلے کرنے کی اہلیت و صلاحیت سے بہرہ ور ہوں تو انہیں کوئی غیر ملکی طاقت مرعوب کر سکتی ہے نہ اندرونی ہمہ مقتدر حلقوں کا دبائو مجبور و مسحور اور نہ دھن دولت متاثر۔ انسان کی طبعی ہوس زر، خواہش اقتدار اور اندرونی خوف ہی اُسے ضمیر فروشی اور بے وفائی پر مجبور کرتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی عوامل کارفرما ہیں۔ پاکستان اور عمران خان کی آزاد روی اور قومی خود مختاری پر اصرار نے امریکہ اور یورپ میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور اپنی گھڑے کی مچھلی کو قابو کرنے کے لئے انہوں نے مقامی مچھیروں کو فعال کیا، اندرون ملک مقتدرہ کا کوئی نہ کوئی عنصر شریک کار بلکہ سہولت کار ہے مگر پہاڑ جیسی غلطیاں عمران خان سے بھی سرزد ہوئی ہیں، عثمان بزدار جیسے ناتجربہ کار، نااہل اور مالی حوالے سے کمزوری کے شکار فرد کو ملک کا سب سے بڑا صوبہ سونپ کر آنکھیں، کان اور ناک بند کر لینا، غلطی سے زیادہ حماقت تھی، ماضی میں حکمران جماعت اپوزیشن کی صفوں پر شب خون مارتی اور فارورڈ بلاک تشکیل دیا کرتی تھیں اس بار وزیر اعلیٰ سے نالاں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے تیس چالیس ارکان نے الگ گروپ بنا لیا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، آج عمران خان بہادر آباد مرکز پہنچے، چند روز قبل چودھری برادران سے ملے مگر دونوں کے بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دیں گے یا آصف زرداری سے ملاقاتوں کی لاج رکھیں گے۔ دونوں اتحادیوں جتنی نازبرداری کپتان نے جہانگیر ترین، علیم خان اور ان کے ساتھیوں کی، کی ہوتی اور پنجاب کسی تجربہ کار، دلیر اور نظریاتی کارکن کے حوالے کیا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ سیاست، صحافت اور پارلیمان میں عمران خان نے مفاد پرستوں، ابن الوقتوں اور عہدہ و منصب کے پجاریوں کو گلے لگایا، اپنے نظریاتی کارکنوں، بااُصول و بے لوث حامیوں کو مایوس بلکہ ناراض کر دیا، سیاست و صحافت کے فصلی بٹیرے حسب عادت اپنی اپنی بولیاں بول کر سب اُڑ چکے۔ ع
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رُخِ زیبا لے کر
پنجاب سے عثمان بزدار کی رخصتی اور نومبر میں اعلیٰ ترین عسکری منصب پرتعیناتی کے حوالے سے ادارے کی ترجیحات کے مطابق فیصلہ بروقت نہ ہوا، روائتی ٹال مٹول، ضد و ہٹ دھرمی اور انا کے اکل کھرے گھوڑے پر سواری کا شوق حاوی رہا تو انجام معلوم ؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی