حکومت اور اپوزیشن دونوں داخلی انتشار کا شکار ہیں، باہمی توتکار، چپقلش اور آپا دھاپی دیکھ کر صوفی غلام مصطفی تبسم یاد آتے ہیں، اب کا تو علم نہیں ہمارے زمانہ طالب علمی میں " ان کا منظوم کلام نصاب کا حصہ تھا، تیتر اور بٹیر کی لڑائی کا نتیجہ صوفی صاحب نے یہ نکالا ؎
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دم
نوّے کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی لڑائی کا انجام 12اکتوبر 1999کی شام سب نے دیکھا۔ اب ایک بار پھر محاذ جنگ گرم ہے اور اپوزیشن و حکومت دونوں ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے علاوہ داخلی کشمکش کا شکار ہیں، ایسی کشمکش جس کا نتیجہ ایک کی چونچ اور ایک کی دم کے گم ہونے کی صورت میں نہ نکلا تو یہ ناقابل یقین واقعہ ہو گا، مخدوم یوسف رضا گیلانی کی کتاب "چاہ یوسف سے صدا"کا باردگر مطالعہ تو میں نے ماضی کی "حکومت اپوزیشن محاذ آرائی"کے چیدہ چیدہ واقعات جاننے کی غرض سے شروع کیا مگر حکمرانوں کی لاعلمی، سادہ لوحی اور ضعیف الاعتقادی کے بعض دلچسپ اور سبق آموز واقعات نے دامن اپنی طرف کھینچ لیا، سو یہی واقعات کالم کا حصہ ہیں، لکھتے ہیں۔
"انتخابی مہم کے دوران میرے حلقے سے ایم پی اے سید ناظم حسین نے ایک انتخابی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے عوام سے کہا کہ قائد حزب اختلاف غلام مصطفی جتوئی اپنی جماعت کے تنہا ایم این اے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ انہوں نے عوام سے دریافت کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ جلسہ عام میں ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے بلند آواز میں جواب دیا کہ وہ وزیر اعظم بن گیا ہے۔ ناظم حسین جوش خطابت میں جس تیز رفتاری سے جا رہے تھے انہیں اچانک بریک لگ گئی اور پھر اتنے پریشان ہوئے کہ نامعلوم اپنی تقریر میں میں کیا کچھ کہہ گئے۔ ہم نے فوراً ٹیلی ویژن لگوایا تو خبروں سے معلوم ہوا کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر کے اسمبلی تحلیل کر دی گئی ہے اور مصطفی جتوئی کو واقعی نگران وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے۔ میں نے ملتان جانے کی تیاری کی۔ میں نے اپنے ساتھ ڈیوٹی پر مامور پولیس گارڈز کو واپس جانے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو ملتان پہنچائے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
"مرتضیٰ بھٹو کے قتل سے قبل میرے دوست ممتاز میمن کا مجھے فون آیا۔ ان دنوں وہ یونائٹیڈ بنک لمیٹڈ، لندن میں جنرل منیجر تعینات تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات 1986ء میں پیر صاحب پگاڑو کی سالگرہ کے موقع پر کنگری ہائوس کراچی میں ہوئی۔ انہوں نے اپنا تعارف کروائے بغیر کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک ملٹری ماڈل جیپ میں سوار ہیں اور آپ کی ایک ٹانگ جیپ کے اندر اور دوسری جیپ سے باہر ہے، مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ آپ کو اقتدار میں آنے اور جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اس وقت میں ریلوے کا وفاقی وزیر تھا اور پیر صاحب پگاڑو کی عزیز داری، وزیر اعظم جونیجو کی قربت اور علاقائی طور پر دونوں اضلاع ملتان اور خانیوال پر مکمل گرفت کی وجہ سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں وزارت سے ہاتھ دھو سکتا ہوں۔ لیکن جب چند دنوں بعد کابینہ میں ردّوبدل ہوا تو میرا نام نہیں تھا۔ میں اس وقت سے ان کا مداح ہوں اور ان کی پیشین گوئیاں سن کر حیران ہوتا ہوں۔"
"میں نے میمن صاحب سے فون پر دریافت کیا کہ اس وقت آپ کی نئی پیشین گوئی کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ملک میں خون خرابہ(bloodsshed)ہونے والا ہے اور میں وزیر اعظم کو ننگے پائوں ننگے سر گھومتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ میں نے ایوان صدر کی ایک تقریب میں وزیر اعظم سے اس بات کا ذکر کیا تو صدر لغاری نے کہا میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ مگر وزیر اعظم نے کہا کہ آپ مجھے ان سے پوچھ کر بتائیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ میں نے ممتاز میمن سے وزیر اعظم کے کہنے پر اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ لگتا ہے ان کا بہت قریبی عزیز قتل ہو گا، لہٰذا انہیں کہہ دیں کہ وہ ملک کے امن و امان کے لئے انتظامات سخت کر دیں۔ میں نے وزیر اعظم کو ان کے اس جواب سے مطلع کر دیا۔ چند دنوں بعد مرتضی بھٹو کا قتل ہو گیا جن کی تعزیت کے لئے میں لاڑکانہ پہنچا۔ جونہی وزیر اعظم نے مجھے دیکھا تو کہا کہ یہ کیا ہو گیا، آپ نے چند دن پہلے ہی مجھ سے اس بات کا ذکر کیا تھا۔ مجھے خود بھی بڑی حیرانی ہوئی کہ اتفاق سے ممتاز میمن کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔ وزیر اعظم نے مجھ سے کہا کہ ممتاز میمن سے آئندہ آنے والا حالات کے بارے میں پیشین گوئی لوں۔ میں نے ممتاز میمن سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ وزیر اعظم 4نومبر 1996ء سے قبل عمرہ کی ادائیگی کے لئے جائیں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ میں نے وزیر اعظم کو مطلع کر دیا۔ اسی دوران وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری (ایم ایس) تبدیل ہو گئے۔ جب نئے ایم ایس نے چارج سنبھالا تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کر کے کہا کہ وزیر اعظم کے پروگرام میں ملک سے باہر جانے اور تاریخ آپ سے کنفرم کرنے کا لکھا ہے۔ میں نے تاریخ بتا دی مگر وزیر اعظم بوجہ مصروفیات عمرہ کی ادائیگی پر نہ جا سکیں۔"
"1997ء میں ایک دلچسپ واقعہ اس وقت پیش آیا جب میں ملتان کی ایک بستی گَرا میں ایک استقبالیے میں شریک تھا۔ میں نے ریڈیو پر نئی کابینہ کے محکموں کا اعلان سنا۔ میرے کزن سید احمد محمود کو نواز شریف نے وزیر مملکت برائے خوراک و زراعت بنانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ جب اعلان ہوا تو اس کے برعکس وہ بلدیات و دیہی ترقی کے وزیر مملکت بنا دیے گئے۔ میں نے انہیں فون کر کے مبارکباد دی۔ اس وقت تک انہیں اپنے محکمے کا علم نہیں تھا۔ میں نے ازراہ مذاق کہا کہ میں آپ کو خوراک و زراعت کی بجائے بلدیات و دیہی ترقی کی وزارت دے رہا ہوں۔ انہوں نے مجھے کچھ دیر بعد لاہور سے فون کر کے کہا کہ آپ سچ سچ بتائیں کہ مجھے یہ وزارت مل گئی ہے۔ میرے ہاں کہنے پر انہوں نے کہا کہ یوسف بھائی!میں نے اپنے دوستوں سے بھی مشورہ کر لیا ہے، یہ بہت اچھی وزارت ہے، اب آپ نے اسے تبدیل نہیں کرنا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو وزارت ماحولیات کا اضافی چارج بھی دے رہا ہوں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ ماحولیات وہی وزارت ہے جو آصف زرداری کے پاس تھی؟ میں نے کہا کہ ہاں !وہی محکمہ ہے۔ انہوں نے دریافت نہ کیا کہ میں پیپلز پارٹی میں ہوں اور حکومت مسلم لیگ کی بن رہی ہے مگر وہ مجھے کہتے جا رہے تھے کہ اب یہ وزاتیں تبدیل نہیں کرنی۔ میں وزارتوں کی مکمل تفصیل سن چکا تھا میں نے کہا کہ آپ انچارج وزیر ہوں گے اور میں کسی کو ان محکموں کا وفاقی وزیر نہیں بنائوں گا۔ وہ بہت خوش ہوئے غالباً وہ سمجھتے تھے کہ میری دوستی چودھری نثار علی کے ساتھ ہے اور اسی لئے انہوں نے مجھ سے ایک آدھ مرتبہ سرسری سا ذکر بھی کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ میں نے بھی کہہ دیا کہ آپ تو ہمارے تعلقات جانتے ہیں۔ وہ ان محکموں کی خوشی میں اتنے محو ہو چکے تھے کہ انہوں نے مزید سوالات سے گریز کیا۔"اب حکمران کتنے باخبر، دانا اور راسخ الاعتقاد ہیں؟ خدا ہی جانے۔