خدا کا شکر ہے کہ علماء کرام، مشائخ عظام سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کالعدم تحریک لبیک سے بامقصد مذاکرات اور قانونی تقاضوں کے تحت حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی پر آمادہ نظر آتے ہیں، وقتی طور پر ہی سہی رٹ آف سٹیٹ بحال کرنے کے لئے رینجرز اور پنجاب پولیس کے ذریعے بے رحمانہ آپریشن کا خطرہ ٹل گیا ہے اور حکومت کے غیر سیاسی موقف میں لچک پیدا ہوئی ہے، ورنہ بدھ کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد یوں نظر آتا تھا کہ گوجرانوالہ کے اردگرد لال مسجد سے ملتا جلتا سانحہ برپا ہوا کہ ہوا، وفاقی کابینہ کے کچھ ارکان اور مذہبی طبقے سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے مخصوص میڈیائی مسخرے تسلسل سے عمران خان اور حکومت کو باور کرا رہے ہیں کہ رٹ آف سٹیٹ بحال کرنے کا واحد نسخۂ کیمیا طاقت کا استعمال ہے اور تحریک لبیک کے کارکنوں پر یہ نسخہ کیمیا آزمانے کا بہترین موقع دستیاب، پنجاب پولیس تیار نہیں تو رینجرز کے ذریعے یہ مقصد حاصل کر لیا جائے مگر کسی کو یاد نہیں کہ ماضی میں حکومتی رعب و دبدبہ قائم رکھنے اور رٹ آف سٹیٹ بحال کرنے کے لئے یہ نسخہ کیمیا استعمال کرنے کے نتائج کیا نکلے؟ پنجاب حکومت نے رینجرز کو پولیس کے اختیارات دے کر ایک طرف تو پنجاب پولیس کا مورال ڈائون کیا، یہ تاثر دیا کہ پنجاب پولیس مذہبی مظاہرین سے نمٹنے کی اہل نہیں، دوسری طرف رینجرز کو بھی آزمائش سے دوچار کیا، ویسی ہی آزمائش جس سے 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں مارشل لاء نافذ کر کے پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو دوچار کیا۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملک بھر میں مارشل لاء کے نفاذ کا فیصلہ کیا اور وزیر قانون حفیظ پیرزادہ نے آئین میں ترمیم کا مسودہ تیار کر لیا مگر اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل عبداللہ ملک کے بقول"انہوں نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ اس صورت میں قومی سطح پر حکم چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا چلے گا جو آپ نہیں ہوں گے" چنانچہ انہوں نے چار شہروں میں مارشل لاء نافذ کر دیا مگر جب لاہور سمیت دیگر شہروں میں پاک فوج کے جوان اور مذہبی مظاہرین آمنے سامنے آئے، گولی چلی اور نہتے شہریوں کی لاشیں گریں تو تین فوجی بریگیڈیئرز، بریگیڈیئر(ر) محمد اشرف، بریگیڈیئر(ر) نیاز اور بریگیڈیئر(ر) اشتیاق نے استعفیٰ دیدیا۔ بریگیڈیئر محمد اشرف نے ممتاز صحافی رفیق ڈوگر سے انٹرویو میں استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا
"پی این اے والوں کویا جو بھی نعرے لگاتا ہے شور شرابہ کرتا ہے یا جلوس وغیرہ ہی نکالتا ہے اس طرح کے لوگوں کو ہمارا خیال تھا کہ اگر کچھ لوگ اکٹھے ہو کر حکومت کے نعرے لگاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان پر گولی چلا دیں اور انہیں کچل دیں، زیادہ بہتر ہو گا کہ انہیں نعرے وغیرہ لگا کر پرامن طریقے سے منتشر ہو جانے دیا جائے لیکن اگر کوئی آگ لگاتا ہے یا بینک لوٹتا ہے یا اور غیر قانونی کارروائی کرتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ عام طور پر ہمارا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر آپ بہت زیادہ طاقت استعمال کریں گے تو اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اس طرح آپ حکومت کی مدد نہیں کریں گے بلکہ حالات خراب کر کے حکومت کے خلاف جا رہے ہیں۔"
"اکثر افسروں کا یہی خیال تھا کہ آپس میں کوئی سیاسی سمجھوتہ ہونا چاہیے لاہور میں تو میں تھوڑی دیر رہا لیکن باقی جگہوں پر بھی افسروں کی سوچ یہی تھی ان پر بھی اثر تھا وہ کہتے تھے کہ حکومت کو اس سمجھوتے کے لئے کوئی ابتدا کرنی چاہیے۔ یہ افسروں کی عام سوچ بتا رہا ہوں میری اپنی سوچ بھی یہی تھی ان دنوں قریباً ہر روز ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں صورتحال کے بارے میں کانفرنس ہوا کرتی تھی میں اور میرے رفقا نے ان میٹنگز میں کئی بار اصرار کیا کہ حکومت کو صحیح صورتحال سے آگاہ کیا جائے اور مسئلہ کو سیاسی طریقہ سے سلجھانے کی کوشش کرنے کے لئے کہا جائے لیکن بدقسمتی سے وقت گزرتا جا رہا تھااور حالات اور بھی خراب ہو رہے تھے اور جس طرح فوج کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں پورے شہر میں متعین کیا ہوا تھا اس طرح تصادم ناگزیر تھاہمیں یہ تشویش تھی کہ اگر اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی گئی اور حالات مزید خراب ہوئے تو ملک پر مارشل لاء مسلط ہو جائے گا صورتحال پر ہم آپس میں بات کرتے رہتے تھے، ڈویژن کے چار بریگیڈیئرز میں سے ہم تین کی سوچ ایک جیسی تھی اور ہم اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کر رہے تھے چوتھے برگیڈ کمانڈر اپنی رائے کے اظہار میں کافی محتاط تھے ہماری بات کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا اور حالات کی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے اس لئے ہم نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا تاکہ آرمی کی ہائی کمان اور حکومت مسئلہ کی Gravityسے آگاہ ہو اور اسے فوراً حل کرنے کی کوشش کرے۔"
تین بریگیڈیئرز کے استعفوں کے حوالے سے فوج اور جمہوری حکومت کا ردعمل کیا تھا، رفیق ڈوگر صاحب نے یہ سوال جنرل عبداللہ ملک سے کیا تو ان کا جواب تھا، "اس پر دو قسم کے تاثرات تھے ایک فوج کا اور ایک سول حکومت کا، فوج یہ کہتی تھی کہ وہ اپنے فرائض کی حدود کے اندر رہتے ہوئے صورتحال پر قابو پانے کی پوری کوشش کر رہی ہے جبکہ مسٹر بھٹو اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے تھے اور یہ ظاہر کرتے تھے کہ فوج وہ سختی نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہیے مطلب یہ کہ فو ج لوگوں کو اس انداز میں مار نہیں رہی ہے جیسے اسے مارنا چاہیے، اس طرح بے دریغ فائرنگ نہیں کر رہی جیسی فائرنگ حکومت کروانا چاہتی تھی، اشاروں کنایوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ اس سے زیادہ بھی اگر لوگ مارے جائیں تو ہمیں پرواہ نہیں لیکن فوج کو تو اس کی پرواہ تھی کہ آخر وہ اپنے ہی لوگ تھے اور فوج کو پہلے ہی بنگلہ دیش میں ایک تلخ تجربہ ہو چکا تھا اس لئے فوج جو کچھ کر رہی تھی وہ پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے کر رہی تھی مگر حکومت فوج کے اس محتاط انداز کو پسند نہیں کرتی تھی اس دوران میں یہ بھی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں کہ فوج میں نفسیاتی طور پر یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ اگر آپ لوگوں کے ساتھ نرمی سے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں تو تو پھر سختی نہیں کرنا چاہیے، یہ بھی تاثر پایا جاتا تھا کہ حکومت جتنی جلد ممکن ہو اس مسئلہ کو سیاسی طور پر حل کرے تاکہ فوج ایک ناخوشگوار فریضہ سے جان چھڑا سکے فوج پر نفسیاتی طور پر بہت اثر ہو چکا تھا اور حکومت اس سے واقف تھی اس کے باوجود حکومت فوج کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتی تھی۔"
"ان تین بریگیڈیئرز صاحبان کے بارے میں تو مسٹر بھٹو کہتے تھے کہ انہیں مثالی سزا دی جائے اور فوری طور پر سزا دی جائے کوئی دیر نہیں ہونا چاہیے وہ اس کو بہانہ بنا کر باقی فوج اور حالات سے سختی سے نپٹنا چاہتے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق ان کے ساتھ اس وقت سختی کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ایسا نہ کرنا ضیاء الحق کے ان عزائم کے لئے مفید تھا جو بعدمیں سامنے آئے انہوں نے ان بریگیڈیئرز صاحبان کے خلاف انکوائری شروع کرا دی جو کہ ایک لمبا پراسیس ہے اور پھر اپنے روایتی انداز میں وہ اسے ٹالتے ٹالتے وہاں تک لے گئے جب وہ خود ایکشن لینے کی پوزیشن میں آ گئے"
مشرقی پاکستان میں طاقت کے بے دریغ استعمال پر حبیب جالب نے کہا تھا:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو