سابق سفارت کار شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے بہیمانہ قتل کی واردات نے سچی بات ہے وفاقی دارالحکومت کو لرزا دیا، نور مقدم کے والد شوکت مقدم اور ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر جدید تعلیم یافتہ، مالدار اور بارسوخ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں کے بچوں کو اندرون اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور ماڈرن طور طریقے سیکھنے کا موقع ملا، والدین کی طرح ان بچوں کو مغربی آداب معاشرت سے لگائو تھا اور ہر طرح کی مادر پدر آزادی حاصل، اس آزادی کے باعث وہ گھر سے باہر ہوٹلوں، کلبوں اور شبینہ محفلوں میں جاتے اور شب بسری سے لطف اندوز ہوتے، والدین کو کسی قسم کا اعتراض تھا نہ کسی دوسرے کو روکنے ٹونے کی جرات، کہا جاتا ہے کہ مطلق آزادی نوجوان نسل کی ذہنی نشوو نما اور خداداد صلاحیتوں کی نمودمیں اہم کردار ادا کرتی اور انہیں نارمل انسان بناتی ہے، نور مقدم اور ظاہر جعفر اہلخانہ و سماج کے سامنے جوابدہ تھے نہ کسی اخلاقی اور معاشرتی روایت کے روبرو بے بس، مگر ہوا کیا؟ ایک تجارت پیشہ خاندان کے سپوت، امریکہ سے تعلیم یافتہ نوجوان ظاہر جعفر نے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی لاڈلی، تعلیم یافتہ اور آزاد خیال بیٹی نورمقدم کو پہلے اپنے گھر میں یرغمال بنایا پھر وحشیانہ تشدد کا نشانہ اور آخرمیں بے دردی سے گلا کاٹ کر سرتن سے جدا کر دیا، سنگدلی کی انتہا یہ کہ کٹے سر کو فٹ بال بنا کر کھیلتا رہتا۔
1993ء میں شکاگو کے شمال میں پرامن، پرسکون، خوبصورت اور سرسبز قصبے لینا میں مجھے دو راتیں ایک امریکی خاندان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا، نوجوان، خوش رو، خوش گفتار، مارک اور وکی کا خاندان چار افراد پر مشتمل تھا، میاں، بیوی، بیٹا اور بیٹی، وسیع و عریض فارم ہائوس میں مقیم مارک کے والد لینا کے چرچ میں پادری تھے اور وکی بھی خاوند کی طرح جدت پسند مذہبی خاتون، ہفتہ کی دوپہر کھانے کی میز پر پانچویں فرد کا اضافہ ہوا، دس گیارہ برس کی ایک معصوم بچی، مارک اور وکی کی صاحبزادی کے ساتھ شریک طعام تھی، میں نے استفہامیہ نظروں سے بچی کی طرف دیکھا تو خاتون خانہ نے بتایا کہ یہ میری ایک قریبی سہیلی کی صاحبزادی ہے جس نے دوسری شادی کی ہے مگر اس بچی کا سوتیلا باپ نشہ کرتا ہے، میری سہیلی ہفتہ اور اتوار کے دن اپنے دوسرے شرابی خاوند کے گھر میں موجودگی کی وجہ سے اپنی بچی کو میرے گھر چھوڑ جاتی ہے، مبادا نشے کی حالت میں یہ اپنے سوتیلے باپ کی کسی نازیبا حرکت کا نشانہ بن جائے، میں نے پوچھا کیا ایسا ممکن ہے؟ وکی نے بتایا کہ امریکہ میں یہ ہر اُس گھر کا المیہ ہے جہاں جوان بچیاں ہیں اور گھر کا سربراہ کسی بری لت میں مبتلا، معصوم بچیاں فحش فلموں، عریاں ڈراموں اور مادر پدر آزاد ماحول کے طفیل بیگانوں اور سوتیلے باپوں کے علاوہ حقیقی باپاور بھائیوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں "نور مقدم اور ظاہر جعفر ایسے ہی آزاد ماحول میں پلّے بڑھے، والدین نے بے مہارآزادی دی اور اس آزادی کو انجوائے کرنے کے لئے سہولتیں فراہم کیں۔ مگر اس کے نتائج پر کبھی غور نہ کیا کہ امریکہ و یورپ میں جوان بچیوں کے والدین اس آزادی کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔
مجھے نور مقدم کے قاتل ظاہر جعفر کا بیان پڑھ کر اردو کے منفرد شاعر مصطفی زیدی اور شہناز گل یاد آئے، وہی مصطفی زیدی جس کے دو شعر عشروں سے زباں زد عام ہیں ؎
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آئو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
اور ؎
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
مصطفی زیدی کراچی کے اسسٹنٹ کمشنر تھے، یحییٰ خان نے سرکاری ملازمت سے 303افسروں کو نکال دیا، جن میں مصطفی زیدی بھی شامل تھے۔ آزاد منشن، بادہ نوش اور دل پھینک مصطفی زیدی انہی دنوں ایک خوبرو خاتون شہناز گل کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے اس قدر فریفتہ کہ اپنی جرمن بیوی ویرا زیدی اور دو خوبصورت بچوں کو بھی بھلا بیٹھے، کچھ عرصہ تک تو شہناز گل بھی بے روزگار مصطفی زیدی کا ساتھ دیتی رہی مگر پھر ملاقاتوں میں تسلسل نہ رہا، ایک دن مصطفی زیدی نے حبیب بنک پلازہ کے سگنل پر رکی کار میں شہناز گل کو ایک معروف صنعت کار کے ساتھ بیٹھے، خوش فعلیاں کرتے دیکھا تو زود رنج اور حساس، مصطفی زیدی ہوش و حواس برقرار نہ رکھ سکا، وہ تو اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ شہناز گل اس کی چاہتوں کی اسیر ہے، ایک دو دن بعد مصطفی زیدی کی لاش کمرے سے اس حالت میں ملی کہ شہناز گل قریب بے ہوش پڑی تھی، اعلیٰ سطحی کمشن قائم ہوا، مقدمہ چلا اور شہناز گل باعزت بری ہو گئی، مصطفی زیدی نے شہناز گل کے لئے کئی نظمیں اور غزلیں کہیں جن میں سے یہ بہت مشہور ہوئی ؎
فن کارخودنہ تھی، مرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں، بدن کی شریک تھی
اُترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق، ورق
بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی
دنیا میں اِک سال کی مدت کا قرب تھا
دل میں کئی ہزار قرن کی شریک تھی
نو رمقدم اللہ کے حضورو پیش ہو گئی، ظاہر جعفر قانون کی گرفت میں ہے مگر دونوں کے والدین کو زندگی بھر پچھتاوے اور ندامت کا سامنا رہے گا، ظاہر جعفر کے والدین چاہتے تو بیٹے کی پہلی فون کال پر اپنے گارڈز کو نور مقدم کی جان بچانے کا حکم دے سکتے تھے، گارڈز میں سے کسی میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق باقی ہوتی تو وہ معمولی ملازمت اور خوف کو بالائے طاق رکھ کر پولیس کو اطلاع کرتے یا زخمی نور مقدم کو باہر گھر سے جانے دیتے مگر کسی کو بھی ایک قیمتی جان بچانے کا خیال نہ آیا، سب کی آنکھوں پر پٹی بندھی رہی، اب بھی بحث کا موضوع یہ نہیں کہ نور مقدم اور ظاہر جعفر کے غیر قانونی، غیر اخلاقی تعلقات (Solicit) پر دونوں کے والدین کو اعتراض کیوں نہ تھا؟ دونوں میں سے کسی کو فکر کیوں لاحق نہ ہوئی کہ نتیجہ ناخوشگوار بلکہ روح فرسا بھی نکل سکتا ہے؟ جن گھرانوں کے سپوت اپنی غیر منکوحہ دوست کو بے وفائی پر اس بے دردی سے قتل کرنے، گلا کاٹ کر فٹ بال کھیلنے کے عادی ہیں، وہاں غریب گھرانوں کی ملازمائوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہو گا؟ جس ہائی کلاس سوسائٹی کی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ وہ بیٹے کی طرف سے اپنی "دوست" کو قتل کر دینے کی باضابطہ اطلاع ملنے کے بعد بھی دیرینہ دوست شوکت مقدم کی بیٹی کی جان بچانے کا تردد نہیں کرتے بلکہ تھراپی سنٹر والوں کو بھیجتے ہیں کہ وہ جا کر ظاہر جعفر کی کونسلنگ کریں، گویا صاحبزادہ جرم کا مرتکب نہیں، جذباتی عدم توازن کا شکار ہے، وہ عام زندگی میں اپنے عزیز و اقارب دوست احباب اور ماتحتوں کے باب میں کس قدر سنگدلی و سفاک ہے؟ مجرم بلاشبہ ظاہر جعفر ہے اور اس کے والدین بھی شریک جرم مگر قصور وار وہ اکیلا نہیں، وحشت ناک موت کے گھاٹ اترنے والی نور مقدم کے والدین حقوق نسواں کی آڑ میں غیر قانونی، غیر اخلاقی تعلقات کو آزادی اور عہد جدید کی معاشرتی ضرورت قرار دینے والے لبرل فاشسٹ اور ہمارے عائلی نظام کی تباہی کے درپے دانشور، سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔
دروازے کھلے چھوڑ کر رات کو خواب خرگوش کے مزے لینے والے کسی شخص کے گھر میں چوری ہو جائے تو محلے دار اور پولیس اہلکار سب سے پہلے اہل خانہ سے یہی کہتے ہیں کہ چور کو دعوت آپ نے خود دی مگر وزیر اعظم عمران خان عریانی اور فحاشی کو جنسی جرائم کی اہم ترین وجہ بتائیں تو اسے "وکٹم بلیمنگ" قرار دے کر ہر طرف سے مذمت ہونے لگتی ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتی کے اعداد و شمار سے جھٹلانے کی کوشش ہوتی ہے حالانکہ فحش فلموں، ڈراموں اور عریانی کے دیگر مظاہرے سے شہوانی انگیخت پانے والے درندے ہی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ معصوم بچے ان کا آسان شکار ہوتے ہیں۔ ظاہر جعفر کے دولت مند والدین کروڑوں روپے فیس دے کر ملک کے بہترین وکلا کی ریاضت، دھن دولت کی پوجا کرنے والے عدالتی و قانونی نظام اور خوف خدا سے عاری سفارشی کلچر کے طفیل جلد یا بدیر اپنے من کی مراد پا لیں گے کہ یہاں اخلاقیات، قانون، سماجی اقدار و روایات سب پر پیسہ بھاری ہے۔ اے زر تو خدانۂ ولیکن بخدا ستار العیوب و قاضی الحاجاتی