پہلے ڈسکہ، خوشاب اور کراچی کے ضمنی انتخابات، پھر کنٹونمنٹ میں بلدیاتی چنائو اور اب خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست، ایک طوفان کی طرح اٹھنے اور مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کو روند کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والی جماعت نے انتخابی ناکامی کی ہیٹ ٹرک مکمل کر لی، یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے، 2018ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ میں دوسری باراقتدار سنبھالا تو اس کے کارناموں میں دو نمایاں تھے۔ قابل رشک بلدیاتی نظام اور عوام دوست پولیس۔
2018ء کے انتخابات میں پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں ووٹروں نے عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر محاسن کے علاوہ خیبر پختونخواہ کی کارکردگی کو یاد رکھا اور غیر معمولی توقعات وابستہ کیں۔ نظام عدل کی طرح پولیس سے پاکستان کے ہر شہری کو جابے جا شکایات ہیں اور عمران خان نے سب سے زیادہ زور عدل و انصاف اور احتساب پر دیا، تحریک انصاف کی وفاقی اور تین صوبائی حکومتوں سے عوام کو بجا طور پر یہ توقع تھی کہ وہ کچھ اور کریں، نہ کریں پولیس کو عوام دوست بنائیں گے اور ہر ادارے، محکمے میں میرٹ و انصاف کی عملداری ہوگی۔ یہ توقعات کہاں تک پوری ہوئیں؟ اپوزیشن کے منفی پروپیگنڈے اور میڈیا کی تصویر کشی کو بالائے طاق رکھ کر ضمنی، کنٹونمنٹ اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر غور کریں تو عوام کی مایوسی آشکار ہے اور وفاقی حکمرانوں کے لئے سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی۔
دنیا بھر میں بلدیاتی انتخابات بالعموم کسی حکومت کی مقبولیت و عدم مقبولیت اور کامیابی و ناکامی جانچنے کا پیمانہ تصور کئے جاتے ہیں۔ گلی محلے کی سطح پر عوام یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ گزرے برسوں میں کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کی کارگزاری کیسی رہی؟ پاکستان میں اگرچہ وفاقی اور صوبائی انتخابات گلی محلے کی سطح پر ترقیاتی منصوبوں اور کارگزاری کی بنا پر نہیں بلکہ قومی و بین الاقوامی ایشوز پر سیاسی بیانیے کو مدنظر رکھ کر لڑے جاتے ہیں مگر بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں دو چیزیں بہرحال واضح ہوتی ہیں کہ کسی جماعت کا اپنا کارکن کس قدر مطمئن ہے اور نچلی سطح پر عوامی سوچ کیا ہے؟ مہنگائی اور بے روزگاری پاکستان میں دیرینہ مسئلہ ہے مگر تحریک انصاف کے دور حکمرانی میں یہ غیر معمولی انداز میں بڑھی اور بڑھتی ہی چلی گئی، اچھے بھلے معاشی ماہرین بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گندم اور چینی کی غیر معمولی پیداوار کے دعوئوں اور بازار میں ضرب المثل گرانی کے مابین آخر تال میل کیا ہے؟ اور زرمبادلہ کے ذخائر، برآمدات، ترسیلات زر میں روز افزوں اضافے کے باوجود ڈالر کی شرح تبادلہ مستحکم ہونے میں کیوں نہیں آ رہی؟ اِک معمہ ہے سمجھنے کانہ سمجھانے کا۔
کسی بھی حکومتی عہدیدار سے سبب پوچھا جائے تو وہ اعداد و شمار کے ڈھیر لگا دیتا ہے۔ ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی نے جھوٹ کی تین اقسام بیان کی ہیں، جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار، حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بیان کردہ اعداد و شمار مشتاق یوسفی کے دعوے کی تائید کرتے ہیں۔ واقعی اسحق ڈار جیسوں کے نہلے پر یہ اعداد و شمار دہلا ہیں، ضمنی، کنٹونمنٹ اور بلدیاتی انتخابا ت کے نتائج سے صاف لگ رہا ہے کہ ووٹر اب اعداد و شمار پر یقین کرنے کو تیار ہیں نہ معاشی استحکام کے حکومتی دعوئوں پر اعتماد۔ خیبر پختونخواہ تحریک انصاف کا وہ قلعہ تھا، جسے ڈھانے کے لئے اے این پی اور مسلم لیگ برسوں زور لگاتی رہیں مگر جمعیت علماء اسلام نے سب کو حیران کر دیا، ایک مقبول وفاقی جماعت کے ہیوی ویٹ پہلوانوں کی پشاور اور دیگر شہروں میں مولانا فضل الرحمن کے" پٹھوں " کے ہاتھوں پٹائی محض مہنگائی کا شاخسانہ نہیں، دیگر صوبوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی تحریک انصاف اندرونی چپقلش سے دوچار ہے۔
عاطف خان، شہرام ترکئی اور محمود خان کے اختلافات کسی سے مخفی نہیں، پرویز خٹک کے گھر میں لڑائی ہے اور ٹکٹوں کی تقسیم میں ناانصافی پر تحریک انصاف کے مخلص کارکن دلبرداشتہ، خانیوال میں تحریک انصاف کے اپنے دیرینہ کارکن اور 2018ء میں ٹکٹ ہولڈر محمد سلیم نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی کو دھول چٹائی اور خیبر پختونخواہ میں بھی کئی آزاد اُمیدوار تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن اور زخم خوردہ ہیں۔
مہنگائی اور باہمی چپقلش کے علاوہ ناکامی میں تیسرا اہم ترین عنصر صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی ہے، اگر وزیر اعلیٰ عوامی تقریبات میں مہنگائی کے وجود سے انکار کریں اور وفاقی وزراءمہنگائی کو عوام کی قوت برداشت کا کرشمہ قرار دیں تو گرانی کے ستم رسیدہ ووٹروں کا ردعمل کیا ہو گا؟ کم از کم پشاور، صوابی، مردان کے نتائج سے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیں۔ خیبر پختونخواہ کے عوام کا ردعمل صرف موجودہ حکمرانوں کے لئے چشم کشا نہیں، مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ جنہیں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں کم نشستیں ملیں اور قومی سیاست میں مولانا فضل الرحمن کی سودے بازی پوزیشن مضبوط ہوئی۔
خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ ابھی باقی ہے، اگر یہ رجحان برقرار رہا تو عمران خان کی مشکلات بڑھ جائیں گی اور پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے علاوہ 2023ء کے عام انتخابات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے، مولانا فضل الرحمن کی سودے بازی پوزیشن قومی سیاست کے علاوہ پی ڈی ایم میں دو چند ہو گی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں اب مولانا کے مطالبات کو مانیں گی یا حمائت سے محروم ہوں گی، اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب مولانا فضل الرحمن کے نخرے برداشت کرنے پڑیں گے کہ خیبر پختونخواہ میں وہ ایک محض مذہبی قیادت نہیں، سیاسی قیادت کے علمبردار ہیں اور بلدیاتی انتخابات کے نتائج مضبوط دلیل۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات دو ماہ بعد ہوں یا تین چار ماہ بعد، نتائج خیبر پختونخوا سے مختلف شائد نہ ہوں کہ وسیم اکرم پلس سے تحریک انصاف کے کارکنوں کی ناراضی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کوئی احمق ہی کر سکتا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری سے زیادہ بُرا طرز حکمرانی قیامت ڈھا رہی ہے اور عمران خان کے کرپشن کے بیانئے کو بھی یہاں دل کھول کر ملیا میٹ کیا گیا، مور اوور ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور مسلم لیگ (ن) کی تجربہ کار قیادت و سیاست۔
تحریک انصاف اور وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں ناکامی سے سبق سیکھ سکتی ہے اور خود احتسابی سے اپنی کمزوریوں، خامیوں اور غلطیوں کا ازالہ کرنے کے قابل؟ ہمارے ہاں مگر اس کا رواج نہیں۔ حکمرانوں کے خوشامدی مشیر اور نوسر باز درباری بالعموم ناکامی کو بھی بہترین حکمت عملی کے طور پر پیش کر کے داد پاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے عوام نے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنے پر مجبور کیا ہے، دیکھنا مگر یہ ہے کہ وہ پڑھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں یا خواہشات کے گھوڑے پر سوار اور اچھے بُرے کی تمیز سے محروم ع
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا