پارلیمنٹ کے اجلاس میں حکومت نے اپنی عددی برتری ثابت کی۔ ایک دو نہیں کم و بیش تینتیس بل منظور کرا لئے۔ تارکین وطن کو ووٹنگ کا حق اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابی عمل کی تکمیل سرفہرست ہیں۔ اپوزیشن نے حکومت کو دھول تو خیر کیا چٹانی تھی، اپنے اہم اراکین کو بھی اجلاس میں شرکت پر آمادہ نہ کر سکی، کوئی بیماری کے بہانے غیر حاضر رہا اور کسی نے بیرون ملک قیام میں عافیت جانی۔ نوید قمر، نواب یوسف تالپور اور اختر مینگل ایسے نامور پارلیمنٹرین اور سابقہ حکومتی عہدیدار بھی غیر حاضر رہیں تو اپوزیشن رہنمائوں کے شور و غوغا پر کون کان دھرے گا ؎
خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹاکر
حکومت نے پچھلے ہفتے مشترکہ اجلاس بلا کر موخر کیا، تو اپوزیشن نے اسے اپنی کامیابی گردانا، التوا کو حکمران جماعت کے خوف سے تعبیر کیا۔ حکومت کی حکمت عملی کا ادراک نہ کر سکی، جس نے مشاورت کا چکمہ دے کر اپنی صفیں درست کیں، اتحادیوں کو ساتھ ملایا اور پھر اجلاس بلا کر مرضی کی قانون سازی کر لی۔ متحدہ اپوزیشن کے رونے دھونے پر فارسی کا محاورہ یاد آتا ہے، مشتے کہ بعداز جنگ یاد آید برکلہ خود باید زد(جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکا اپنی ناک پر رسید کرنا چاہیے)
اپوزیشن کی حکمت عملی غلط اندازوں پر استوار تھی۔ کنٹونمنٹ کے حالیہ انتخابات میں اپنی بے عملی کے باعث تحریک انصاف کو کئی اہم حلقوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، ڈی جی آئی، ایس آئی کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن میں تاخیر ہوئی، اپوزیشن قیادت نے ان واقعات سے سول ملٹری تعلقات میں دراڑ کا نتیجہ اخذ کیا اور عمران خان کے چل چلائو کی باتیں گردش کرنے لگیں، نالائق مشیروں کی غلطیوں اور عمران خاں کے انداز حکمرانی میں نقائص کا دفاع مشکل۔ مگر کیا محض اس بنا پر حکومت کو چلتا کر کے اسٹیبلشمنٹ اقتدار شریف خاندان اور زرداری خاندان کے حوالے کر دے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں، مشینی ووٹنگ اور تارکین وطن کے حق رائے دہی پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں، مگر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے یا اپوزیشن کی خوش دلانہ آمادگی بھی ضروری ہے؟ اتفاق رائے کے نام پر اکثریت کو اقلیت یرغمال نہیں بنا سکتی اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے حکومت کی کھلم کھلا مخالفت، اپوزیشن کی برملا اعانت پہلے ممکن تھی نہ اب ہے، ویسے بھی 2002ء سے اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے پورا زور لگایا، ہر منتخب حکومت نے مدت پوری کی، وزیر اعظم البتہ تبدیل ہوتے رہے جو آئینی اور جمہوری طریقہ کار ہے مگر مسلم لیگ(ق) پیپلز پارٹی اور مسلم (ن) کی حکومتوں کو پانچ سال ملے، تحریک انصاف کی حکومت کو محض اپوزیشن کی فرمائش پر گھر بھیجنے کا بندوبست وہ ادارے کیوں کریں جن کی مداخلت کا ڈھنڈورا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت تسلسل سے پیٹتی چلی آ رہی ہے ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
کل کے اجلاس میں حکومت کی برتری سے ثابت یہ ہوا کہ اپوزیشن کی قوت و طاقت کا انحصار ارکان کی تعداد پر نہیں موقف کی صداقت اور بیانیے کی اخلاقی برتری پرہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بیس پچیس ارکان پر مشتمل منحنی اپوزیشن نے دو تہائی اکثریت کی حامل حکمران جماعت کو ناکوں چنے چبوائے، آئین میں پانحویں ترمیم کے موقع پر آمر مزاج قائد عوام نے اپوزیشن کے ارکان مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، شیر باز خان مزاری اور دیگر کو "ڈنڈا ڈولی" کر کے ایوان سے باہر پھینکوادیا، جبکہ گزشتہ روز طاقتور و تجربہ کاراپوزیشن پھسپھسی تقریریں کر کے ایوان سے واک آئوٹ کر گئی تاکہ ڈاکٹر بابر اعوان اور فروغ نسیم آسانی سے متعلقہ بل منظور کرا سکیں۔ اپوزیشن کی نارسائی اور بے حکمتی اپنی جگہ مگر من پسند قوانین کی منظوری کے باوجود حکومت کے بارے میں راوی چین نہیں لکھتا۔ واقفان حال یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عمران خان اپنے آپ کو ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے ناگزیرلگے ہیں، یہی زعم باطل حکمرانوں سے پہاڑ جیسی غلطیاں کراتا اور تاریخ کے کوڑے دان میں جگہ بناتا ہے۔
آصف علی زرداری نے کل پتے کی بات کہی کہ" عمران خان کے لگائے ہوئے پودے کا پھل کوئی اور کھائے گا"الیکشن کمشن اور اپوزیشن کو مشینی ووٹنگ پر جو اعتراضات ہیں انہیں یکسر مسترد کرنا عقلمندی نہیں، فرض کیا یہ مشین دھاندلی کا ذریعہ بن سکتی ہے تو پھر بلاشبہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کشتہ ستم ہو گی اور آج مشینی ووٹنگ کے حق میں دیے گئے سارے دلائل موجودہ حکمران جماعت اور اس کی قیادت کا مُنہ چڑائیں گے، اس مشین کو نیوٹرل ایمپائر کے درجے پر فائز کرنے والے عمران خان اور اس کے ساتھی کس منہ سے دھاندلی کا شور مچائیں گے جبکہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کو اگر حصہ بقدر جُثہ نہ ملا تو دھاندلی اور مداخلت کا بیانیہ مزید تقویت حاصل کرے گا۔
مشترکہ اجلاس میں عددی برتری حکومت کی بہتر سیاسی حکمت عملی اور ریاضت کا نتیجہ ہے یا غیبی تائید و حمائت کا ثمر؟ زیادہ دیر کوئی بات پردہ اخفا میں نہیں رہے گی، اتحادی خود آئے یا لائے گئے؟ ناراض ارکان بالخصوص جہانگیر ترین گروپ کے شکوے شکائتیں کیسے دور ہوئے؟ کل نہیں تو پرسوں سب کچھ افشا ہو گا، اس کامیابی کے بعد حکومت کے چیلنجز البتہ بڑھ گئے ہیں اور اگلے عام انتخابات تک عمران خاں کو اپوزیشن کی خامیوں، کمزوریوں کے بجائے اپنی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر جینے کی عادت ڈالنی پڑے گی، وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا، ناگزیر لوگوں سے دنیا بھر کے قبرستان بھرے پڑے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں بے وفائی کی فصل سب سے زیادہ کاشت ہوتی، پروان چڑھتی ہے، مسلم لیگ، پیپلز پارٹی جیسی مضبوط، منظم جماعتیں مزہ چکھ چکیں، تحریک انصاف تو ویسے بھی کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا جوڑ کر بنی، اسی باعث یہ غالباً واحد حکمران جماعت ہے جس کے وزیر مشیر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں تاک ہیں اور ہمیشہ عمران خان کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں تازہ ترین شاہکار تحریک لبیک پر پابندی کا خاتمہ، حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی اور سینکڑوں کارکنوں کا شیڈول 4سے اخراج ہے۔
وفاقی وزیروں شیخ رشید احمد اور فواد حسین چودھری کے دبنگ بیانات کا موازنہ حالیہ واقعات سے کیا جائے تو آدمی سر پیٹ کر رہ جاتا ہے کہ یہ کون سا انداز حکمرانی ہے؟ لیکن یہی خان صاحب کی انفرادیت ہے اور ان کے قریبی ساتھیوں کی زندگی بھر کی سیاسی کمائی، تحریک انصاف کے ارکان پارلیمنٹ اور اتحادی مطمئن ہیں تو اپوزیشن کی دھما چوکڑی پر کسی کو سنجیدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے ع
تم بھی چلے چلو جہاں تک چلی چلے