"پہلے تولو پھر بولو" کا اردو محاورہ اب متروک ہوا، عمران خان کے بعض وزیر بس بولتے ہیں، تولنے کی ذمہ داری میڈیا، تحریک انصاف کے کارکنوں اور کپتان کی ہے، تازہ ترین مثال نئے نویلے وزیر خزانہ حماد اظہر کی ہے، جو کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کا اجلاس ختم کرنے کے بعد میڈیا پر نمودار ہوئے اور قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ حکومت نے بھارت سے چینی، کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ اعلان لوگوں کو عجیب لگا، کل تک عمران اور ان کے بااثر وزراء بار بار قوم کو یہ یقین دہانی کراتے رہے کہ جب تک بھارت کی مودی سرکاری 5۔ اگست 2019ء کا غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی فیصلہ واپس نہیں لیتی، مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت بحال نہیں کرتی، کسی بھی سطح پر ہمسایہ ملک سے مذاکرات ہوں گے نہ تجارتی تعلقات بحال، حماد اظہر کے اعلان سے تاثر یہ ملا کہ پاک بھارت تعلقات نارمل ہو چکے اور اب بھارتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے چینی، کپاس اور دھاگے کی درآمد میں کوئی حرج نہیں۔
بدھ کی شام 92نیوز چینل کے پروگرام میں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہر یار خان آفریدی سے جناب معید پیرزادہ نے اس فیصلے کی وجوہات اور افادیت پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا تو عمران خان کے معتمد ساتھی قطعی لاعلم اور پریشان نظر آئے، پتہ چلا کہ حماد اظہر اور کابینہ کی اقتصادی کمیٹی نے پاکستانی اور کشمیری عوام کے دیرینہ دشمن اور عہد حاضر کے ہٹلر نریندر مودی کے بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی سے قبل کشمیر کمیٹی کو اعتماد میں لیا نہ وزارت خارجہ کو اور نہ فیصلے کا اعلان کرنے سے قبل جمعرات کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کا انتظارکیا، جو اقتصادی کمیٹی سے بڑا فورم ہے اور جہاں اس فیصلے کے سیاسی، سفارتی اور سیاسی مضمرات پر سنجیدگی سے غور ہو سکتا ہے، پروگرام کے دوران معید پیرزادہ صاحب نے پوچھا کہ کیا موجودہ حکومت نے امریکہ، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کے دبائو پر مودی کے سامنے سرنڈر کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ سرنڈر تو خیر نہیں لیکن وہ پہلا بلنڈر ہے جس سے یوٹرن نہ لیا گیا تو موجودہ حکومت کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
تحفظ ناموس رسالت ایکٹ اور مسئلہ کشمیر دو ایسے حساس معاملات ہیں جن پر پوری قوم ہمیشہ یکسو رہی۔ سیاستدان، باوردی اور بے وردی حکمران سفارت کار، دانشور اور تجزیہ کار البتہ حسب عادت کنفیوژڈ۔ امریکہ، بھارت اور ان دونوں کے گماشتہ بعض دوست ممالک کے دبائو، مشورے اور ترغیب پر ہمارے منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں نے بار بار کوشش کی کہ وہ عوامی جذبات و احساسات کی پروا کیے بغیر، مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت سے دوستی کریں اور تحفظ ناموس رسالت قانون میں من مانی ترامیم سے نام نہاد عالمی برادری کو خوش کریں، مگر پرویز مشرف کو کامیابی ملی نہ میاں نواز شریف کوکامرانی، دونوں بصدسامان رسوائی اقتدار سے الگ ہوئے اور اب ع
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
بھارت سے تجارت اور تعلقات کی کہانی تو سب کو معلوم ہے۔ مودی کی تاج پوشی کے موقع پر میاں صاحب کا دورہ نئی دہلی اور حریت کانفرنس کی قیادت سے ملے بغیر سجن جندال سے غیر رسمی ملاقاتوں کا تذکرہ بھی کئی بار ہو چکا، مگر تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں تبدیلی کے لئے میاں صاحب کی کوششیں سربستہ راز ہیں۔ 2017-18ء میں حلف نامے میں تبدیلی اور علامہ خادم حسین رضوی کے تاریخی دھرنے کے بعد زاہد حامد کا استعفیٰ بھی سب کو یاد ہے مگر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے میاں صاحب کے پہلے دور اقتدار کا واقعہ اپنی کتاب "چاہ یوسف سے صدا" میں درج کیا ہے۔ لکھتے ہیں۔ 1990ء میں عام انتخابات کے فوراً بعد وزیر اعظم نواز شریف توہین رسالت کے قانون میں ترمیم لانا چاہتے تھے، قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی چند کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ وہ مختلف رہنمائوں سے مل کر انہیں آمادہ کریں کہ اس قسم کی متنازع ترمیم نہ کی جائے، محترمہ نے مجھے اور فاروق احمد خان لغاری کو جونیجو صاحب سے ملاقات کے لئے کہا، ہماری جونیجو صاحب سے ملاقات ہوئی، وزارت ریلوے کے بعد میری ان سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی، وہ بڑی شفقت سے ملے اور کہا کہ ہم سرداروں اور پیروں کی بہت عزت کرتے ہیں انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ اس ترمیم کی مخالفت کے سلسلے میں ہمارا ساتھ دیں گے، ہماری ملاقات کے وقت اعجاز الحق بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے بھی اس ترمیم کی مخالفت کا یقین دلایا، غلام مصطفی جتوئی پہلے ہی اس ترمیم کی مخالفت کر چکے تھے، وزیر اعظم کو مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی میں بھی اس ترمیم کی وجہ سے خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اس بنا پر وزیر اعظم ترمیم نہ لا سکے"
مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھ کر بھارت سے تجارتی روابط اور مل جل کر چپڑیاں اور دو دو کھانے کا خواب پرویز مشرف نے بھی دیکھا اور میاں صاحب نے تو اسے مقصد حیات ہی بنا لیا مگر ہر دو کو ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ کم و بیش گزشتہ تیس چالیس سال سے پاکستان میں بھارت کے شردھالو اور امریکہ و یورپ کے سرمائے سے چلنے والی این جی اوز کے کارندے مسلسل تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں ترامیم اورکشمیریوں کی پروا کیے بغیر بھارت سے تجارتی روابط کے لئے رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں اور نوجوان نسل کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کب تک مسئلہ کشمیر کے یرغمال بنے رہیں گے۔ اب تک یہ پروپیگنڈا بے اثر اس بنا پر رہا کہ تحفظ ناموس رسالت ایکٹ ہو یا مسئلہ کشمیر دونوں کی بنیادوں میں راسخ العقیدہ کلمہ گو پاکستانی اور کشمیری عوام کا خون شامل ہے۔ ایسی مضبوط بنیادوں کو لغو پروپیگنڈے اور شکم پروردی کی خواہشات سے مسمار نہیں کیا جا سکتا۔ 5اگست کے اقدام کے بعد عمران خان نے اپنے آپ کو کشمیری عوام کا سفیر اور ترجمان قرار دیا اور ایمانداری کی بات ہے کہ ماضی کے برعکس پوری قوت سے بھارت اور اس کی فسطائی قیادت کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا، پہلی بار عالمی سطح پر پاکستان کے بجائے بھارت کٹہرے میں کھڑا نظر آیا مگر بدھ کی شام اچانک حماد اظہر نے بھارت سے چینی، کپاس اور دھاگہ درآمد کرنے کا اعلان کیا اور کپتان کی ڈیڑھ پونے دو سالہ جدوجہد پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان اور کشمیری عوام کو یوں لگا کہ سستی چینی اور کپاس کی خواہش میں عمران خان کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر مودی سرکار کو پیش کر دیا۔ جمعرات کو وفاقی کابینہ نے فیصلہ منسوخ کر دیا، اللہ شیخ رشید، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور شیریں مزاری کا بھلا کرے جو کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے خلاف کھل کر بولے۔ اور ڈیمیج کنٹرول کی تدبیر کی۔
سوال یہ ہے کہ کیا حماد اظہر نے یہ فیصلہ بے سوچے سمجھے، کسی کی اجازت کے بغیر لیا اورافشا کیا؟ وفاقی کابینہ کے اجلاس کا انتظار تک نہ کیا، یہ ناتجربہ کاری ہے، کسی کی پشت پناہی سے عوامی موڈ کا اندازہ لگانے کی بھونڈی کوشش یا امریکہ اور دیگر دوست ممالک کے دبائو پر بھارت سے خیر سگالی کا اظہار؟ موجودہ حکومت کے وزیر مشیر آخر اتنے شتر بے مہار کیوں ہیں اور میڈیا کے سامنے آنے کے لئے اس قدر بے تاب و بے قرار کیوں کہ سفارتی نزاکتوں کا احساس کرتے ہیں نہ سیاسی مضمرات کی پروا اور جو منہ میں آئے کہہ گزرتے ہیں۔ خواہ نتیجہ شرمندگی اور سیاسی نقصان کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلے، کیا بھارت سے تجارت کا فیصلہ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کو کرنا چاہیے تھا یاوزارت خارجہ، فوج، وزارت امور کشمیر، حکومت آزاد کشمیر اور دیگر سٹیک ہولڈر کے مشورے سے وفاقی کابینہ کو؟ کیا حساس نوعیت کے اس فیصلے سے قبل پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ اور مشاورت ضروری نہیں؟ یہ باتیں مگر وہاں ہوتی ہیں، جہاں تول کر بولنے کا رواج ہو، جب عادت ہی پہلے بولنے اور پھر تولنے کی پڑ جائے تو ایسے ہی بلنڈر ہوتے ہیں، جو حماد اظہر نے کیا اور وفاقی کابینہ کو ندامت آمیز طریقے سے فیصلہ واپس لینا پڑا۔ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی۔