ایک نجی پبلشنگ ادارے نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی اجازت کے بغیر کتاب شائع کی، معلوم نہیں کس جذبے کے تحت ملالہ یوسفزئی کو علامہ اقبال قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خاں، محترمہ فاطمہ جناح اور عزیز بھٹی شہید کے ہم پلّہ قومی ہیروز کی صف میں شامل کیا اور تعلیمی اداروں کو بیچنا شروع کر دی، کاروباری بنیادوں پر شائع کی گئی اس کتاب میں ملالہ یوسفزئی کو قومی ہیروز کی صف میں شامل کرنے پر احتجاج ہوا، جس کا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے نوٹس لیا اور غیر قانونی طور پر شائع شدہ کتاب ضبط کر لی، تعلیمی اداروں اور عامتہ الناس نے فیصلے کا خیر مقدم کیا مگر قومی سطح پر یکساں نصاب کی حکومتی کوششوں سے نالاں اور کسی نہ کسی بہانے ملک میں فتنہ و فساد کی آگ جلائے رکھنے کا شوقین ایک طبقہ اس فیصلے پر سیخ پا ہے اور میڈیا کا ایک حصہ اس معاملے کو قومی ہیرو کی تضحیک اور معاشرے میں تعصب و تنگ نظری کی ترویج قرار دے کر جلتی پر تیل ڈالنے میں مشغول۔
مجھے بعض سیاسی نابغوں، تجزیہ کاروں اور مخصوص نقطہ نظر کے حامل دانشوروں کی تنقید سن اور پڑھ کر بھارتی شہر میسور کے ایک یوگی سادھ گوروجگی داسو دیو سے منسوب ایک واقعہ یاد آیا، جو میں نے کسی جریدے میں پڑھا تھا، سادھ گوروجگی داسو دیو دنیا بھر میں یوگا سکھاتے اور ان کی این جی او ایشیا فائونڈیشن تعلیم، صحت اور دیگر سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے۔ سادھ گورو کی صحت، مذہب اور روحانیت پر لکھی گئی کتابوں کو نیو یارک ٹائمز میں بیسٹ سیلر بکس کا اعزاز عطا ہوا، گوروجی کو بھارتی حکومت کی طرف سے پدمابھوشن ایوارڈ مل چکا ہے۔ یوگی سادھ نے دوران گفتگو ایک چائے والے کا واقعہ سنایا جو موج میں ہو تو سچن ٹنڈولکر، ویرات کوہلی اور ایم ایس دھونی کے کھیل پر تنقید کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان بڑے کھلاڑیوں کو کرکٹ کیسے کھیلنی چاہیے، یہ نریندر مودی سمیت مختلف بھارتی حکمرانوں کے انداز سیاست پر بے رحم تبصرہ کرتے ہوئے انہیں بے نقط سناتا اور برملا کہتا ہے کہ ان میں سے کسی کو ریاست اور حکومت چلانے کی تمیز نہیں ورنہ ملک کی حالت یہ نہ ہوتی، وہ ہر کھلاڑی، اداکار، سیاستدان اور دوسرے شعبوں کی اہم شخصیات کو مفت مشورے دیتا ہے لیکن جب اس کی بنائی ہوئی چائے کی چسکی لی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسے تو ڈھنگ سے چائے کی ایک پیالی بنانا نہیں آتی کجا کہ وہ کسی دوسرے کے کاموں میں کیڑے نکالے یا مفت مشورے دے، ویسے بھی کہتے ہیں جس کا کام اُس کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔
میں ذاتی طور پر ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے سازشی کہانیوں کا قائل ہوں نہ اس پر حملے کو جائز سمجھتا ہوں، ایک معصوم بچّی اس ناروا سلوک کی ہرگز مستحق نہ تھی جو جان لیوا حملے کی صورت میں اس سے وطن عزیز میں کیا گیا، بلا شبہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء الدین یوسفزئی نے معصوم بیٹی کی شہرت کو اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور خوب دولت کمائی مگر یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، ملالہ یوسفزئی کے کچے پکّے خیالات کچھ تو برطانیہ میں قیام، تعلیم اور ماحول کے مرہون منت ہیں اور کچھ انہیں نوبل انعام دلوانے والوں کے ایجنڈے کا لازمی حصہ، جس سے کوئی ہوش مند مسلمان اور پاکستانی اتفاق نہیں کر سکتا، بغیر شادی کسی پارٹنر کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش اوربطور ہیرو موہن چند کرم داس گاندھی کا انتخاب ملالہ یوسفزئی کی اسلام، مسلم اخلاقیات اور پاکستانی قوم کے مزاج سے ناواقفیت کا بین ثبوت ہے، جس کا دفاع صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اسلام کے عائلی نظام سے خدا واسطے کا بیر ہے اور جو اسلامیان برصغیر کے مسلّمہ لیڈر قائد اعظم کی عظمت کے منکر، گاندھی کے منافقانہ پن سے قطعی لاعلم ہیں۔ ملالہ یوسفزئی پر جو ظلم ہوا وہ اپنی جگہ لائق مذمت لیکن دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ تو پاکستان میں کم و بیش ستر ہزار شہری بنے جن میں فوج اور پولیس کے دس ہزار اہلکار و افسر شامل ہیں، یہ لوگ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے، اعتزاز نامی نوجوان نے دہشت گردی کی واردات کو ناکام بنانے کے لئے موت کو گلے لگایا، انہیں نظر انداز کر کے ملالہ یوسفزئی کو نصابی کتاب میں ہیرو کا درجے پر فائز کرنے کا آخر مقصد کیا ہے؟ عزیز بھٹی شہید اور ملالہ یوسفزئی میں قدر مشترک کیا ہے؟ اور برطانیہ میں مقیم ایک بچی کو جو حادثاتی طور پر نمایاں ہوئی اور مغربی ایجنڈے کے تحت نوبل انعام کی مستحق قرار پائی، پاکستان کے تعلیمی اداروں میں علامہ اقبالؒ، قائد اعظمؒ، سر سید احمد خان، لیاقت علی کی صف میں کھڑا کرنے کی ضرورت پیش کیوں آ رہی ہے؟ عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی سماجی خدمات کیا بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس سے کم ہیں کہ انہیں تو آج نوبل انعام کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
میڈیا پر دوران بحث بعض نابغوں نے ریاست کے لتے لیتے ہوئے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی گھسیٹ لیا جنہیں کسی حکومت یا ریاست نے ملک بدر کیا نہ ان کی وطن واپسی پر پابندی عائد کی، پاکستان کے مقبول لیڈر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر صاحب کو اپنا مشیر برائے سائنسی امور مقرر کیا، توقع یہ تھی کہ وہ اپنی خداداد ذہانت، علم اور تجربے سے پاکستان اور اس کی نوجوان نسل کو فیضاب کریں گے، مگر جونہی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا موصوف عہدہ، منصب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اٹلی سدھار گئے، انہیں پاکستان سے زیادہ اپنا گمراہ کن عقیدہ عزیز تھا، اس کے باوجود نوبل انعام ملنے کے بعد انہیں حکومت نے پاکستان آنے کی دعوت دی وہ سرکاری مہمان کی حیثیت سے پاکستان آئے اور عزت و احترام کے مستحق ٹھہرے، کسی نے انہیں دھکے دے کر ملک سے نکالا نہ وطن واپسی سے روکا، یہ ان کا آزادانہ فیصلہ تھا آکسفورڈ بکس کی کتاب پر پابندی دو وجوہات کی بنا پر لگی، اوّل یہ کہ نجی پبلشنگ ہائوس نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نصابی کتاب بغیر منظوری شائع کی اور اُسے تعلیمی اداروں کو سپلائی کیا، موجودہ حکومت ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم کے لئے کوشاں ہے تاکہ دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی ہر طبقے کے بچوں کو یکساں معیاری تعلیم کے مواقع دستیاب ہوں اور تعلیمی اداروں میں شتر، گربہ نسل کی پیداوار کا سلسلہ بند ہو حکومتی ہدایات اور عدالتی فیصلے کے مطابق ٹیکسٹ بک بورڈ کی پیشگی منظوری کے بغیر کوئی نصابی کتاب شائع ہو سکتی ہے نہ کسی نجی یا سرکاری تعلیمی ادارے میں برائے تدریس تقسیم، دوسرے از خود ملالہ یوسفزئی کو قومی ہیرو کے درجے پر فائز کیا جس کا یہ ادارہ مجاز نہیں، جو لوگ ملالہ یوسفزئی کو اپنا ہیرو سمجھتے اور اپنے بچوں کو اس بچی کے نقش قدم پر چلانا چاہتے ہیں وہ بخوشی ایسا کریں، کسی کو اعتراض کا حق نہیں مگر سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب میں صرف انہی ہیروز کا تذکرہ مناسب ہے، جو قومی سطح پر واقعی ہیرو قرار پا چکے اور جنہیں کبھی متنازعہ نہیں سمجھا گیا۔ یہ تنازعہ کھڑا کرنے والوں کے مقاصد تو واضح ہیں مگر کاتا اور لے دوڑی کے مصداق ہمارے اہل صحافت نے کتاب کی بندش پر اظہار خیال سے قبل پابندی کے اسباب معلوم کرنے کی سعی کی نہ نجی پبلشنگ ہائوس کے طریقہ واردات پر غور کیا اور نہ یہ جاننے کی زحمت گوارا کی کہ نصابی کتابوں کی اشاعت کا ضابطہ کار کیا ہے؟ میسور کے اس چائے والے کی طرح بس تنقید شروع کر دی کہ نوجوان نسل کو قومی ہیروز کی پہچان سے محروم رکھا جا رہا ہے اور یہ تعصب و تنگ نظری کا شاخسانہ ہے وغیرہ وغیرہ، یعنی قانون شکنی، من مانی اور علمی بددیانتی بھی روشن خیالی کا دوسرا نام ہے۔ سبحان اللہ