اڑھائی تین سال سے قومی سطح پر سیاسی جنگ و جدل کے طاقتور فریق اگرچہ شریف خاندان، زرداری خاندان، عمران خان اور خلائی مخلوق ہیں مگر کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ عمران خان اور خلائی مخلوق کے مدمقابل سیاسی عناصر کی شکست و ریخت میں اہم ترین کردار "باپ" کا ہے جو بلوچستان کی جم پل اور مقامی علیحدگی پسندوں کے علاوہ متعصب قوم پرستوں کے لئے مستقل درد سر ہے۔ پی ڈی ایم کی شکست و ریخت کا کریڈٹ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کو مل رہا ہے جس نے سینٹ میں اپنا قائد حزب اختلاف منتخب کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ناکامی پر سیاسی اتحاد کی قربانی دیدی مگر یہ کسی کو یاد نہیں کہ باپ کے چار ارکان مخدوم یوسف رضا گیلانی کی حمائت نہ کرتے تو وہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف بنتے نہ اے این پی اور پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری ہوتے اور نہ ریت کا یہ گھروندا مسمار ہوتا۔ ثناء اللہ زہری کی وزارت اعلیٰ کا خاتمہ، صادق سنجرانی کی بطور چیئرمین سینٹ کامیابی اور اب پی ڈی ایم کی شکست و ریخت ایسے واقعات جنہوں جس نے عمران خان کی کامیابی اور میاں نواز شریف کی ناکامی کی راہ ہموار کی، باپ اور بلوچستان کا ذکر برسبیل تذکرہ ہو تا ہے غالب کردار کے طور پر نہیں۔
بلوچستان کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہ پسماندہ ترین علاقہ انگریز دور سے اب تک طاقتوروں کی باہمی آویزش اور سازشوں کی آماجگاہ چلا آ رہا ہے میں ممتاز صحافی جناب ضیاء شاہد کی کتاب"پاکستان کے خلاف سازش "کی ورق گردانی کر رہا تھا تو بلوچستان کے حوالے سے حیرت انگیز انکشاف پڑھنے کو ملے۔ ہم زندگی بھر قاضی عیسیٰ مرحوم کو تحریک پاکستان کا مرد مجاہد سمجھتے رہے مگر کتاب میں ان کا عجب رخ کردار سامنے آیا، لکھتے ہیں: "انگریز، بلوچستان کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے اور ان کے عزائم اس خطے میں حد درجہ خطرناک تھے۔ ڈی وائی فل کوئٹہ کے پولیٹیکل ایجنٹ تھے اور ان کے تحت حاجی جہانگیر جو نواب جوگزئی کے صاحبزادے ہیں۔ اس وقت اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے یہ 46ء کا بالکل آغاز تھا۔ ایک دن مسٹر فل نے جہانگیر خاں صاحب سے کہا:
"ہم برما اور لنکا کی طرح بلوچستان کو ایک علیحدہ حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ ہم ہندوستان سے اپنی فوجیں ہٹا کر بلوچستان میں لے آئیں گے۔ یہ علاقہ روس کے خلاف ہمارا ایک مضبوط اڈا (Base)ہو گا۔" مئی 46ء میں کیبنٹ مشن کا اعلان ہوا۔ اس میں دستور ساز اسمبلی قائم کرنے کا جو منصوبہ پیش ہوا، اس میں بلوچستان کو نمائندگی نہیں دی گئی تھی۔ بعد میں کانگریس اور مسلم لیگ کے شدید اصرار پر ایک رکنی نمائندگی کا اعلان ہوا۔ انگریزوں کی طرف سے یہ پس و پیش واضح مقاصد رکھتی تھی۔۔
بلوچستان کے ریاستی اور برطانوی علاقوں میں سرداروں کی حیثیت، سیاسی جماعتوں سے زیادہ طاقتور تھی۔ ان سرداروں کی بڑی اکثریت مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں گہری دلچسپی لیتی تھی لیکن چونکہ مسلم لیگ کی قیادت قاضی عیسیٰ کے ہاتھ میں تھی اور قاضی عیسیٰ کسی قبیلے کے سردار نہ تھے اس لئے وہ سردار مسلم لیگ میں شامل ہونے کو تیار نہ ہوئے۔ میر جعفر خاں جمالی خاموشی سے مسلسل بلوچ سرداروں میں پاکستان کے لئے کام کر رہے تھے۔ چنانچہ 45ء میں سبی دربار کے موقع پر سرداروں کی طرف سے قائد اعظمؒ کی خدمت میں تار بھیجا گیا جس میں اپنی حمایت کا پورا پورا یقین دلایا گیا تھا۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ان سرداروں کی طرف سے ایک وفد قائد اعظمؒسے ملنے کے لئے دہلی گیا اور انہیں بلوچستان آنے کی دعوت دی۔۔
شاہی جرگے میں ریاستوں کے سردار بھی شامل تھے، اس میں بلوچوں کی اکثریت تھی۔ عبدالصمد خاں اچکزئی یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ بلوچی غلبے کی موجودگی میں کانگرس کے لئے کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ انہوں نے قاضی عیسیٰ کو اپنے ساتھ ملایا اور ان سے کہا کہ اگر ہم شاہی جرگے سے بلوچی اکثریت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو دستو رساز اسمبلی کے انتخاب میں آپ سے تعاون کروں گا۔ بلوچی اثرات ختم کرنے کا دوسرا فائدہ انہیں یہ نظر آیا کہ اس طرح میر جعفر خاں جمالی بلوچستان کی سیاست سے بے دخل کر دیے جائیں گے۔ اس وقت یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ قاضی عیسیٰ، خان قلات سے ملے اور انہیں یہ نکتہ سمجھایا کہ ان کے سرداروں کو برٹش بلوچستان کے معاملے میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ دستور ساز اسمبلی کے انتخاب کا مسئلہ برٹش بلوچستان کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جب ریاستوں کا مسئلہ آئے گا تو برٹش بلوچستان کے سردار ریاستوں کے معاملات میں دخل نہیں دیں گے چنانچہ خان قلات نے اے جی جی کو ایک درخواست دی جس میں کہا گیا تھا کہ شاہی جرگے میں سے قلات کے سرداروں کو نکال دیا جائے۔ انگریز تو یہ چاہتے ہی تھے چنانچہ شاہی جرگے میں سے ریاستی سرداروں کو خارج کر دیا گیا، اب شاہی جرگے کی تعداد 53رہ گئی۔ اس میں 12میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری اراکین بھی شامل کر لئے گئے اس طرح کل تعداد 65ہو گئی۔
اس فیصلے کا ان لوگوں پر بہت برا اثر ہوا جو پاکستان کے لئے کام کر رہے تھے۔ میر جعفر خان جمالی نے بلوچ سرداروں میں پاکستان کے لئے راہ ہموارکر رکھی تھی مگر اب یہ ساری محنت رائیگاں ہوتی نظر آتی تھی۔ پٹھان قبائل میں ابھی تک کچھ زیادہ کام نہ ہو سکا تھا۔ آخری وقت پر عبدالصمد خان نے قاضی عیسیٰ کو دغا دیتے ہوئے خود انتخاب لڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ وقت پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والوں پر بڑا سخت گزرا۔ میر جمالی بہت پریشان تھے، انہیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ایسے موقع پر پاکستان دوست قوتوں کی نظر نواب جوگزئی کی طرف اٹھی۔ وہ کاکڑ قبیلے کے بااثر سردار تھے لیکن ان کے تعلقات سبھی لوگوں کے ساتھ تھے۔ عبدالصمد خاں اچکزئی کا بھی ان پر اچھا خاصا اثر تھا۔ میر جعفر خان جمالی نہایت نازک صورت حال کے پیش نظر خود نواب جوگزئی کے پاس پہنچے۔ بلوچ اور پٹھان ہونے کی وجہ سے ان میں فاصلے موجود تھے مگر تصور پاکستان نے انہیں ایک ہی منزل کا راہی بنا دیا تھا۔ یہ دونوں قائدین بڑی دیر تک محو گفتگو رہے، گفتگو کے دوران میں طرح طرح کے خطرناک موڑ آئے۔ عبدالصمد خاں کی حکمت عملی یہ تھی کہ ایک سے زیادہ سردار کھڑے ہوں تاکہ شاہی جرگے کے ووٹ بٹ جائیں اور ان کی کامیابی کا راستہ نکل آئے۔ نواب جوگزئی کے اقرار اور انکار پر بلوچستان کی سیاسی قسمت کا صحیح یا غلط فیصلہ ہونا تھا۔ اس موقع پر حاجی جہانگیر خاں نے اپنے والد پر بہت دبائو ڈالا اور آخر کار میر جمالی، جہانگیر خاں اور نسیم حجازی اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے۔ نواب جوگزئی نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا۔ قاضی عیسیٰ کی شکست یقینی تھی چنانچہ انہوں نے اعلان کیا مسلم لیگ کسی ایسے انتخاب میں حصہ نہ لے گی جس میں ووٹ دینے والے رجعت پسند سردار ہوں گے۔ وہ یہ اعلان کر کے دہلی چلے گئے۔۔
اپریل 47ء میں پریشان کن واقعات کا ایک اور سلسلہ شروع ہوا۔ قاضی عیسیٰ صرف سال میں ایک بار مسلم لیگ کا جلسہ دھوم دھام سے بلاتے تھے۔ اپریل 47ء میں بھی انہوں نے مسلم لیگ کا جلسہ منعقد کیا۔ اس بار خلیق الزماں صاحب کو کوئٹہ آنے کی دعوت دی گئی۔ میکمون پارک میں جلسہ ہوا۔ قاضی عیسیٰ نے بڑے پرجوش لہجے میں کہا:
"انگریز یہاں سے رخصت ہونے والے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ تمام سردار جو دراصل انگریزوں کے بچے ہیں وہ بھی یہاں سے رخصت ہو جائیں۔" (جاری ہے)