یاں بآں شورا شوری یا بایں بے نمکی، مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر اور میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے چند روز قبل حکومت اور نیب کو چیلنج کیا تھا "کہ وہ انہیں گرفتار کرنے کی جرأت کرے، میں مقدمات سے ڈرتی ہوں نہ گرفتاری سے" مگر جونہی نیب نے انہیں طلب کیا وہ ضمانت قبل از گرفتاری کرانے لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئیں، جس پر ان کے مداح اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈرو کارکن حیراں ہیں، پریشان وہ اس بات پر ہیں کہ اگر محترمہ گرفتاری سے خوفزدہ تھیں تو حکومت اور نیب کو للکارنے کی ضرورت کیا تھی اور اگر بے قصور و بے گناہ ہیں تو نیب حکام کے روبرو پیشی سے گریز کا کیا سبب؟ مخالفین اور ناقدین تو ضمانت قبل از گرفتاری کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ حامی بھی دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ مریم نواز شریف نے تو حفاظتی ضمانت کرا لی، نیب آفس کے باہر احتجاج کے لئے جمع ہونے والے دیگر لیڈروں اور کارکنوں کا کیا بنے گا، جو بے چارے وقت کی کمی کے باعث ضمانت قبل از گرفتاری کرا سکے نہ واپسی پر اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کے چھبتے سوالوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ لیڈرانی صاحبہ اگر جیل اور حوالات سے اتنی ہی خوفزدہ ہیں تو انہیں مزاحمتی سیاست کا شوق کیوں چرایا۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں، کارکنوں اور قلمی کارندوں نے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی دلیری، استقامت اور پامردی کا بُت بہت تراشا اور جمہوریت کی بقا و استحکام کے لئے ہر قربانی دینے کے عزم کو دہرایا مگر جب بھی میاں صاحب جیل میں گئے ہر روز ایک نئی کہانی سننے کوملی، یہی حال ان کی جانشیں کا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں صرف تین سیاسی کردار ایسے ملتے ہیں جو جیل جا کر جرأت اور ثابت قدمی میں اپنے ہم عصروں کا مقابلہ نہ کرسکے، ورنہ ہر سیاسی اور مذہبی لیڈر نے ایاّم اسیری یوں کاٹے کہ دیگر زندانی ششدر رہ گئے۔
علامہ حسین میر کاشمیری پاکستانی صحافت کا مزاحیہ کردار تھے۔ اپنے وقت کے بڑے اخبارات میں نیوز ڈیسک پر کام کرنے کے علاوہ اندرون شہر کی ایک بڑی مسجد کے خطیب اور مجلس احرار اسلام سے وابستہ، پولیٹیکل ایکٹو یسٹ۔ انگریز حکومت کے خلاف تحریک عدم تعاون شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ علامہ حسین میر کاشمیری پشاور میں گرفتار ہو گئے۔ لاہور میں علامہ کی جرأت مندانہ گرفتاری کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا کہ دوسرے دن شام کو وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مجلس میں موجود پائے گئے، شاہ جی نے پوچھا آپ نے تو گرفتاری دی تھی پھر یہاں کیسے؟ فرمایا قبلہ! ہم تحریک عدم تعاون چلا رہے ہیں، انگریز جب ہمیں جیل سے باہر رکھنا چاہتا تھا ہم نے عدم تعاون کیا، گرفتار ہو گئے، جیل یاترا کے بعد انگریزحکومت اور جیل حکام سے عدم تعاون کا تقاضا تھا کہ ہم باہر آ جائیں، ہم نے ضمانت کرائی اور رہا ہو گئے، وہاں بیٹھے رہنے کا مطلب تو تعاون ہوتا جس پر ہم تیار نہ تھے۔ قہقہہ پڑا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
علامہ عنایت اللہ مشرقی نے برصغیر میں خاکسار تحریک کی بنیاد رکھی، جس کے کارکنوں نے ایثار و قربانی اورعزیمت و استقلال کی تاریخ رقم کی۔ خاکسار تحریک کی اٹھان ایسی تھی کہ کانگریس، مسلم لیگ اور مجلس احرار ایک بار تو ماند پڑنے لگیں مگر انتہائی سادہ، ریاضت بھری زندگی بسر کرنے والے علامہ گرفتارہوئے تو انہوں نے جیلر کو ایک فہرست تھما دی جس میں قانون کے مطابق بی کلاس قیدی کو حاصل سہولتوں سے استفادے کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور ناشتے، عشائیے، ظہرانے کا مینو درج تھا۔ قانون کے مطابق علامہ مشرقی اس کے حقدار تھے مگر اخبارات و جرائد اور سیاسی حلقوں میں بھداُڑی کہ علامہ جیل جا کر گھبرا گئے اور انہوں نے ایک غاصب حکومت کے سامنے دست سوال دراز کیا؟ اس کے برعکس دیگر مسلم اور غیر مسلم لیڈروں نے جیل جا کر کبھی بی کلاس مانگی، گھر سے کھانا منگوانے کی سہولت طلب کی اور نہ طبی بنیادوں پر رہائی کا مطالبہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سول اور فوجی ادوار میں جتنے بھی سیاستدان اور صحافی حکومتی جبر و تشدد اور غیر قانونی اقدامات کا نشانہ بنے، گرفتار ہوئے، جیلوں میں ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ صرف خان عبدالقیوم پر الزام لگا کہ ایوبی آمریت کے خلاف انہوں نے پہلے تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل جلوس نکالا اور پھر گرفتاری کے بعد اتنا ہی بڑا معافی نامہ دے کر جان چھڑائی۔ نواب آف کالا باغ اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو سب سے زیادہ مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں عمر رسیدہ اور بیمار تھے اور سابق وزیر اعظم، وفاقی وزیر اور بیورو کریٹس بھی، مگر مجال ہے کسی نے اپنے سابقہ منصب کا حوالہ دے کر غیر معمولی مراعات طلب کی ہوں۔
ایک دوست نے جناب فیض احمد فیض کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ بھٹو، نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کی طرح جبر کی سائنس سے واقف نہیں تھے۔ معلوم نہیں فیض صاحب نے یہ بات کہی یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں جبر کی سائنس سے جتنے زیادہ ذوالفقار علی بھٹو واقف تھے امیر محمد خان شاید وباید۔ دونوں اذیت پسند اور جابر حکمرانوں کے دور میں کسی سیاستدان نے ہمت نہیں ہاری اور بحالی جمہوریت کی جنگ جاری رہی مگر اب قوم کو ان مجاہدین جمہوریت سے واسطہ پڑا ہے جو کبھی تو غیر ملکی حکمرانوں سے مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی حکمرانوں اور طاقتور شخصیات پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے انہیں معافی دلائیں، کبھی عدالتوں میں علاج کے بہانے بیرون ملک جانے کی درخواستیں دائر کرتے ہیں اور کبھی گھر کے مرغن کھانے کی فرمائش کے ذریعے مخالف حکمرانوں پر اپنی کمزوری کو عیاں فرماتے ہیں۔ حتیٰ کہ نیب کی پیشی سے قبل حفاظتی ضمانت کے خواہاں کہ مبادا گرفتار ہی نہ کر لے۔
سیاست دان عوام کے آئیڈیل اور رول ماڈل ہیں اور عام آدمی بجا طور پر یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپوزیشن کے زمانے میں ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرے اور برسر اقتدار آ کر ان تمام سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے جو ایک مہذب ملک کے عزت دار شہری کا بنیادی حق ہے، اگر اسے جیل جانا پڑے تو ہنسی خوشی جائے اور صرف انہی سہولتوں سے فیضاب ہو جو دیگر قیدیوں کو حاصل ہیں مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں ؎
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
مسلم لیگ(ن) کے لیڈر بُرا نہ مانیں تو حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز شریف نے نیب پیشی سے قبل حفاظتی ضمانت حاصل کر کے اصلی اور نسلی سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی ناک کٹوا دی ہے گویا اپنے والد گرامی کی طرح وہ مزاحمتی سیاست بھی اس وقت کرتی ہیں جب انہیں گرفتاری کا اندیشہ ہو نہ کسی زیاں کا خوف، روایتی قصیدہ گو دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ یہ مریم صاحبہ کا قانونی حق ہے۔ لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ بھائی اگر آزادی عزیز ہے، عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کا شوق ہے تو سیاست میں مُنہ مارنے اور مزاحمت و تصادم کی راہ پر چلنے کی ضرورت کیا تھی؟ اقتدار کی جنگ میں صرف سرکاری وسائل پر مزہ ہی نہیں، جیلوں اور صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ دلیروں کی طرح صعوبتیں برداشت کریں یا معافی مانگ کر سیاست سے الگ ہو جائیں، جاتی امرا یا لندن کے محلات میں بیٹھ کر دنیا جہاں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ مرد مجاہد اورذوالفقار علی بھٹو بننے کا شوق ہے مگر اس کے انجام سے ڈرتے ہیں یہ دو عملی کب تک چلے گی؟ مریم نواز ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کے لئے آخری حد تک جانے کی دھمکی دے رہی ہیں لیکن ریاست نے ابھی پہلی حد کراس نہیں کی اور آپ رونے لگ گئے۔ سوچیں جب عام شہریوں کی طرح سلوک ہوا تو کیا بنے گا؟ ویسے آج امتحان پنجاب حکومت اور پولیس کا بھی ہے کہ وہ ریاست کی رٹ قائم کرتی یا طاقتور کے سامنے بھیگی بلّی بن کر اپنی اور اپنے لیڈر کی تذلیل کراتی ہے۔