زبان گنگ ہے، قلم مفلوج، روح زخمی ہے، دماغ شل اور ندامت کا احساس ہے کہ قلب و نظر کو چھلنی کیے دیتا ہے۔ ایک پوسٹر پر لکھے مقدس نعرے کی بے حرمتی کے الزام میں ہجوم نے عدالت کا روپ دھارا، خود ہی مدعی اور گواہ بنا اور پاکستان میں خدمات انجام دینے والے سری لنکا کے شہری کو موت کی سزا سنائی، سزا پر عملدرآمد کے بعد لاش سرعام جلا دی۔ کسی محدث، فقیہہ اور مفسر نے نہیں، رحمت دو عالمﷺ نے غیر مسلموں کے بارے میں اصول وضع فرمائے، آپ ﷺ نے جنگ موتہ کے لئے لشکر روانہ کیا تو امیر کو نصیحت فرمائی "جو لوگ اپنی عبادت گاہوں میں مصروف ہوں ان سے تعرض نہ کرنا، کسی عورت پر ہرگز ہاتھ نہ اٹھانا، کسی بوڑھے شخص کو نہ مارنا، سرسبز و شاداب درختوں کو ہرگز نہ کاٹنا، ایک موقع پر اہل ایمان سے فرمایا "خبردار اگر کسی شخص نے غیر مذہب رعیت پر ظلم کیا، یا اس کی تنقیص کی یا اس کو تکلیف دی یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات کی تو میں روز قیامت غیر مسلم کی طرف سے مدعی ہوں گا"۔
اسلام اور مسلمان عرصہ دراز سے صرف امریکہ و یورپ نہیں اپنے اپنے ممالک میں بھی ظلم و زیادتی اور ذہنی، روحانی اور جسمانی اذیت سے دوچار ہیں، انہیں تنگ نظر، انتہا پسند، بنیاد پرست اور دہشت گرد قرار دینے والوں میں اپنے اور بیگانے شامل ہیں۔ کبھی اہانت رسول ﷺ کے ذریعے ان کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے اور گاہے قرآن مجید کی توہین سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی اپنے دین اسلام، اپنے پیغمبر اور اپنی مقدس کتاب سے گہری وابستگی اور بے پایاں حساسیت کو ختم کرنا ہے بقول اقبالؒ ؎
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
پاکستان میں توہین رسالتؐ اور توہین قرآن مجید کے بیشتر واقعات کے پیچھے یہی فکر کارفرما ہے۔ اس قبیح جرم کے مرتکب افراد کی عالمی سطح پر بھر پور پشت پناہی اور پذیرائی ہوتی ہے اور انہیں عموماً اپنے کیے کی سزا نہیں ملتی، کوئی عدالت عوامی دبائو پر سزا سنا دے تو امریکہ و یورپ سے پہلے پاکستان میں فنڈ خور این جی اوز ہنگامہ برپا کر دیتی ہیں اور حکومت مجبوراً سزا یافتہ مجرموں کو عزت و احترام کے ساتھ بیرون ملک روانہ کر دیتی ہے جہاں انہیں باقی زندگی عیش و آرام سے گزارنے کا موقع ملتا ہے۔
ماضی کے ان تلخ تجربات کی بنا پر عام پاکستانی مسلمان غیر معمولی حساسیت کا شکار ہے لیکن کسی عاشق رسول ﷺ اور قرآن مجید کی حرمت کے حوالے سے حد درجہ حساس و جذباتی مسلمان کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ وہ تعلیمات رسول ﷺ کو فراموش کر کے کسی مسلم یا غیر مسلم پر گستاخی اور بے حرمتی کا الزاملگائے، خود ہی مدعی، خود ہی شاہد اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ صادر کرے اور سفاکانہ انداز میں عملدرآمد بھی کر ڈالے۔
حضور اکرمﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں وضع کردہ اسلامی نظام عدل میں ہر ملزم کو اپنی صفائی اور اپنے حق میں گواہ پیش کرنے کا حق حاصل ہے، راست گو، باکردار اور دائم اعتدال پسند گواہ کی شہادت کے بغیر کسی کو سزا دی جا سکتی ہے نہ کسی طرح کی ایذا رسانی روا۔ سزا دینے کا حق بھی کسی مشتعل جتھے یا جنونی شخص کو نہیں، قانونی طور پر قائم عدالت کو ہے جو انصاف کے تقاضے پورے کرے، حضور اکرم ﷺ نے لاشوں کا مثلہ کرنے اور زندہ یا مردہ انسانوں کو جلانے کی سختی سے ممانعت فرمائی کہ یہ احسن تقویم کی توہین ہے اور اسفل سافلین کا شعار۔
ہماری مذہبی جماعتوں اور علماء کرام نے مگر اپنے پیروکاروں کو تواتر کے ساتھ یہ درس دیا نہ تسلسل کے ساتھ سمجھایا کہ ایک مسلمان ہر حالت میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا پابند ہے اور کسی کو دشمنی یا مخالفت میں طے کردہ قانونی حدود سے تجاوز کا حق حاصل نہیں، فرمایا "کسی شخص یاقوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف کے راستے سے ہٹ جائو" سپین میں جب ایک سازش کے تحت توہین رسالت کی مہم چلی تو قاضی توہین کے مرتکب کو پہلے اپنے گستاخانہ قول سے مکرنے کا موقع دیتا پھر توبہ کی تلقین کرتا، کچھ دن کی مہلت دی جاتی اور پھر بھی باز نہ آنے پر نظر بند کر کے ایک بار پھر گستاخی ترک کرنے پر آمادہ کیا جاتا۔ سزا کی نوبت بعد میں آتی۔
مقدس شخصیات اور کتب کی توہین پر سزا کا قانون (295سی) اس لئے منظور ہوا کہ اگر کوئی بدبخت اس قبیح جرم کا مرتکب ہو تو لوگ ازخود قانون ہاتھ میں لینے اور گستاخ کو عوامی طرز کے انصاف سے ہمکنار کرنے کے بجائے حوالہ پولیس کریں اور قانونی و عدالتی ادارے حساس معاملہ آئین، قانون اور انصاف کے فطری تقاضوں کے مطابق نمٹائیں، یہ قانون روز اول سے مغرب اور اس سے مرعوب ذہنوں کی طرف سے ہدف اعتراض و تنقید ہے۔ معترضین میں سے بعض انبیا اور الہامی کتب کی تقدیس کے قائل ہیں نہ معاشرے کی حساسیت اور روحانی و مذہبی وابستگیوں کے احترام پر آمادہ۔ لیکن وقتاً فوقتاً اہل ایمان بھی اپنے قول و فعل سے انہیں یہ کہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں کہ پاکستانی مسلمان سدا کے جذباتی اور اقلیتوں کو حیلے بہانوں سے نشانہ ستم بنانے کے عادی ہیں، سیالکوٹ کے واقعہ نے اس سوچ کو تقویت پہنچائی ہے۔
سانحہ سیالکوٹ کی تحقیق و تفتیش سے واقعہ کی نوعیت، فیکٹری کارکنوں کے اشتعال کا سبب معلوم ہو سکتا ہے۔ ذاتی مخاصمت، کسی فرد یا گروہ کی شیطانی منصوبہ بندی یا جاہلانہ نوعیت کی جذباتیت اور اشتعال انگیزی؟ جسے کسی فتنہ ساز نے مذہبی منافرت پھیلانے کے علاوہ ایک آزمودہ دوست ملک سری لنکا کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لئے کامیابی سے استعمال کیا اور ہر کلمہ گو اور سچے پاکستانی کو اپنے غیر مسلم بھائیوں کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ یہ سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے سے بڑی کارروائی ہے، پاکستان کے پرامن تشخص کو تباہ کرنے، ریاستی عملداری پر سوال اٹھانے اور مذہبی جنونیت کے تاثر کو ابھارنے میں مددگار کارروائی۔ گرفتار فرحان ادریس، عمران، احتشام، صبور بٹ اور دیگر سے ان خطوط پر تفتیش کی جائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ سکتی ہے۔
پاکستان پہلے ہی بدنام ہے کہ یہاں اقلیتوں کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مقدس شخصیات اور کتابوں کے احترام کے لئے وضع کردہ قوانین کو لوگ اپنے ذاتی بدلے، سیاسی مقاصد اور گروہی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ دیرینہ دشمنی، لین دین کے تنازع اور معمولی نوعیت کی چپقلش پر مخالفین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیالکوٹ جیسے واقعات سے اس پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے اور مذہبی طبقے کا کمزور طرز عمل مزید ستم ڈھاتا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں سزایابی کیا اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے اور اسوۂ رسول ﷺ کی روشنی میں قابلِ قبول عمل؟ حضور ؐ اس واقعہ سے خوش ہوئے ہوں گے؟
اس کلمہ گو کی کم نصیبی میں کیا کلام جس کے کسی دانستہ یا نادانستہ فعل سے روز قیامت شفیع المذنبین ﷺ کو ملال ہو اور رحمت للعالمین ﷺ غیر مسلم رعیت پر ظلم اور حق تلفی کے الزام میں اپنے ہی اُمتی کے خلاف مدعی بن جائیں۔ دنیا تو ہماری کیا سدھرے گی، ہم تو اپنی آخرت بھی خراب کربیٹھے۔ کسی غیر مسلم کے ساتھ اسلام یا قرآن کے نام پر ناانصافی اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہے جس کی روک تھام حکومت کے علاوہ ہمارے مذہبی رہنمائوں اور دینی جماعتوں کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ ہم روز قیامت اپنے آقا و مولاؐ کے سامنے سرخرو ہوں، نادم و شرمسار نہیں۔
کیا ذاتی مخاصمت یا جاہلانہ تعصب وجذباتیت کی بنا پر ایک غیر ملکی مہمان کو تشدد کا نشانہ بنانے، جینے کے فطری حق سے محروم کرنے اور بے حرمتی کے بعد لاش کو جلانے سے قبل عشق رسول ﷺ اور حب حسین(رضی اللہ عنہ)کے دعویدار ہجوم میں سے کسی نے سوچا کہ اس درندگی پر وہ روز قیامت رحمتہ للعالمین، شفیع المذنبین ﷺ کو کیا مُنہ دکھائے گا۔؟ "فرمایا جس کلمہ گو نے کسی غیر مسلم کو بے جرم قتل کیا اس پر جنت حرام کر دی گئی۔"