قانونی اور آئینی بحث تو قانون دانوں کو زیبا ہے کہ وہ آئین اور قانون میں درج ہر لفظ، جملے، نقطے، شوشے کا پوسٹ مارٹم کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بظاہر مگر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 9 اپریل کو صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کرانے کا حکم جاری کر کے اس آئینی، سیاسی اور قانونی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کی سعی مشکور کی جو دونوں صوبوں کے گورنرصاحبان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بے عملی اور گومگو پالیسی کے سبب پیدا ہوا اور قومی بحران میں تبدیل ہورہا ہے۔
آئین واضح ہے کہ "اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے وزراء اعلیٰ صوبائی اسمبلی تحلیل کریں تو گورنر نئے انتخابات کی تاریخ دیں گے جو نوے روز کے بعد کی نہیں ہوگی، الیکشن کمیشن الیکشن شیڈول جاری کرے گا اور نوے روز کے اندر اندر عام انتخابات کا عمل شفاف انداز میں پایہ تکمیل کو پہنچے گا"۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود مگر دو صوبوں کے گورنر اور الیکشن کمیشن اس آئینی شق کو فٹ بال سمجھ کر ایک دوسرے کی طرف اچھال رہے ہیں۔ گویا پاکستان کا آئین مقدس دستاویز، عملدرآمد کی چیز نہیں۔ صدر ضیاء الحق مرحوم کے بقول "کاغذوں کا پلندہ ہے، جسے وہ جب چاہیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں"۔
ہمارے جمہوریت پسند حکمران اور آئین کی بالادستی کے علمبردار، سیاستدان اگر چاہیں تو صدر کے اس اقدام میں مین میخ نکالنے کے بجائے سیاسی بحران کے حل کے طور پر قبول کر کے ڈیڈ لاک کا خاتمہ کرسکتے ہیں مگر وہ جمہوریت پسند اور سیاستدان ہی کیا جو کسی مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل ہونے دے۔ ؎
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
مایہ ناز مورخ ٹائن بی نے لکھا ہے کہ زوال پذیر معاشرے میں مباحث ہر فرد اور طبقے کا من پسند مشغلہ بن جاتے ہیں۔ گھروں میں، قہوہ خانوں مجالس و محافل میں، اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر ہر جگہ بحث ہوتی ہے، بے مغز، لایعنی اور بے نتیجہ، محض وقت گزاری کا ذریعہ۔ مقصد اس بحث کا تفریح طبع اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے، کسی معاملے کو حل یا طے کرنا نہیں، یہی پاکستان میں ہورہا ہے اور قومی زوال میں ہوشربا اضافہ۔
گورنروں اور الیکشن کمیشن کے دلائل اور جواز حیلہ جوئی اور بہانہ سازی کی عمدہ مثال ہیں، غالباً کسی نے انہیں کتاب الحیلہ ازبر کرا دی ہے۔ ان حیلوں بہانوں کو ایک بار درست تسلیم کرلیا گیا تو پاکستان میں کبھی عام انتخابات کی نوبت ہی نہیں آئے گی کہ کبھی گورنر انکار کر دے گا، کبھی الیکشن کمیشن اپنے آپ کو بے بس محسوس کرے گا اور کبھی بدامنی، دہشت گردی اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد مشکوک۔
سابق صدر جسٹس (ر) رفیق تارڑ مرحوم فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف مرحوم کے معتمد جرنیلوں سے ایوان صدر میں ایک ملاقات کا احوال بیان کیا کرتے تھے جس میں باوردی عہدیداروں نے منتخب صدر سے معذرت کی کہ وہ ایک ناخوشگوار فریضہ انجام دے رہے ہیں اور پھر ادھر ادھر کی ہانکنے کے بعد مدعا زبان پر لائے کہ آپ صدر مملکت کے منصب سے استعفیٰ دے کر پرویز مشرف کو موقع دیں کہ وہ عہدے پر فائز ہو سکیں۔
تارڑ صاحب نے حیرت سے سبب معلوم کیا کہ آخر ملک کا ہمہ مقتدر چیف ایگزیکٹو ایک بے اختیار منصب حاصل کرنے کے درپے کیوں ہے جبکہ آج تک میں نے "کار سرکار" میں مداخلت کی نہ رکاوٹ ڈالی۔ پیامبروں نے کہا کہ جنرل صاحب بھارت کے دورے پر جا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مذاکرات وہ چیف ایگزیکٹو کے طور پر نہیں صدر کے طور پر کریں۔ صدر نے کہا کہ اگر میں استعفیٰ نہ دوں تو؟
جواب واضح تھا کہ تب ہمیں زبردستی کرنی پڑے گی اور ایک شاہی فرمان کے ذریعے یہ منصب لے لیا جائے گا۔ صدر نے انہیں کہا کہ مجھ سے صدارت کا منصب ہتھیانے کے لیے آپ لوگوں کو کوئی بہتر جواز تو تلاش کرنا چاہیے تھا آپ کا جواز تو میدان کربلا میں خاندان رسول (ﷺ) کی ایک بچی کے ہاتھ سے چوڑیاں اتارنے والے کوفی کے پیش کردہ جواز سے بھی کمزور ہے جو چوڑیاں اتار رہا تھا اور زار و قطار رو بھی رہا تھا۔ معصوم بچی نے رونے کا سبب پوچھا تو شقی القلب بولا آپ کے ہاتھوں سے چوڑیاں اتارنے پر مجھے ذہنی اور روحانی تکلیف کا احساس رونے پر مجبور کر رہا ہے، بچی بولی تو پھر مت اتارو، کوفی نے کہا بی بی میں نہ بھی اتاروں، کوئی اور اتار لے گا۔
کوئی معقول جواز اور استدلال فوجی آمر پرویز مشرف کے ساتھی جرنیلوں کے پاس تھا نہ اب ان سرکاری عہدیداروں کے پاس ہے جو آئین کے واضح احکامات پر عملدرآمد کے بجائے حیلے تراش رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اعلیٰ حکومتی اور ریاستی عہدیداروں کے احکامات اور فیصلوں کے حسن و قبح پر بحث ہوتی ہے، مضمرات کا جائزہ لیا جاتا ہے، ملک و قوم اور نظام پر مرتب ہونے والے اثرات کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ امریکی فیڈرل کورٹ نے الیکشن جیتنے والے الگور کے خلاف فیصلہ دیا تو اس فیصلے کو محب وطن سیاستدان نے اس بنا پر قبول کیا کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی اور بے یقینی ختم۔ ہمارے ہاں مگر گروہی، ذاتی اور سیاسی مفاد کی آبیاری ہوتی ہے اور اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سعی و تدبیر۔
چیئرمین نیب آفتاب سلطان کے استعفیٰ کے بعد یہ افواہ گردش کر رہی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر بھی اپنا منصب چھوڑ سکتے ہیں، اگر سکندر سلطان راجہ واقعی غیر معمولی دبائو کا شکار ہیں اور انہیں آئین و قانون کے مطابق اپنے فرائض کی ادائیگی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں تو مستعفی ہونا بہترین آپشن ہے لیکن اگر اس کا مقصد عام انتخابات کے انعقاد میں مزید التوا و تاخیر ہے تو یہ صرف ملک و قوم نہیں چیف الیکشن کمشنر کے بھی ذاتی مفاد میں نہیں۔ اگر وہ الیکشن شیڈول جاری کر کے مستعفی ہوئے تو انہیں قاعدے، قانون کے پابند شخص کے طور پر یاد رکھا جائے گاجس نے صدر کے احکامات کو قبول کر کے ملک کو بحران سے نکالا، انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔
1977ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے بعد جب اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر سجاد احمد جان سے پوچھا گیا کہ وہ آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کیوں نہیں کرا سکے؟ تو انہوں نے تاریخی جملہ کہا "ہم نے محنت سے دکان سجائی تھی مگر ڈاکہ پڑ گیا یا ڈاکو پڑ گئے ہمارا کیا قصور؟" موجودہ الیکشن کمیشن بھی قانونی موشگافیوں میں پڑنے کے بجائے صدر مملکت کے احکامات کی بجا آوری کرے تو قوم اس کے جملہ ارکان کی شکر گزار ہوگی۔
سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی زوال کا شکار یہ ملک اور معاشرہ مزید بے یقینی اور عدم استحکام کا متحمل ہے نہ مختلف ریاستی اداروں اور اعلیٰ مناصب کے مابین کھینچا تانی کاروادار۔ ایک کھڑکی کھلی ہے تو اسے بند کر کے حبس اور گھٹن کو بڑھانے کے بجائے کیوں نہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے آرٹیکل 57ون کا فائدہ اٹھا کر آگے دیکھا اور نکلا جائے۔ اگر قانونی موشگافیوں کی بنا پر کسی کو آئین پامال کرنے کا اختیار ہے تو صدر کو کمزور قانونی نکتے کا سہارا لے کر بحران سے نکلنے کا حق کیوں نہیں۔
صدر بادشاہ نہیں مگر گورنروں اور الیکشن کمیشن کی بادشاہت کا اعلان کب ہوا؟ صدر کو صرف قومی اسمبلی نہیں چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ نے منتخب کیا اور ان کا حلقہ انتخاب و مینڈیٹ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنر، الیکشن کمیشن سے کہیں زیادہ وسیع ہے مگر حکومت، اس کے مقرر کردہ گورنروں، الیکشن کمیشن اور ہمنوا دانشوروں کی ضد ہے کہ ملک جائے بھاڑ میں ہم صدر کی ایک نہیں چلنے دیں گے۔