پروفیسر عزیز شاہد سرائیکی وسیب اور زبان کے اساطیری شاعر نور محمد سائل ڈیروی کے فرزند ارجمند ہیں، سائل ڈیروی گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں درجہ چہارم کے ملازم، درویش منش انسان تھے مگر اپنے شعری مرتبے کی بنا پر ڈیرہ غازی خان کی ادبی محافل میں ہمیشہ کرسی صدارت پر بٹھائے جاتے اور پرنسپل کے علاوہ، کمشنر و ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان سامعین میں بیٹھ کر انہیں داد دیتے۔ سائل ڈیروی کی ایک غزل کے دو اشعار قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ؎
ضمیر یں دی جرأت کو زنجیر پے گئی
لائے لب تے تالے سنبھل کے لوہاراں
دھواں نئیں نکلدا تاں ہتھ لاکے ڈیکھو
تلّے کیری، اونویں میں بکھدا انگاراں
سائل ڈیروی کے صاحبزدے پروفیسر عزیز شاہد نے پیرانہ سالی کے باعث اپنی باری سے قبل ہی مائیک سنبھالا اور محفل لوٹ لی، اپنا کلام سنا کر عزیز شاہد جانے لگے تو سارا ہال کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا کہ کچھ مزید عطا ہو، چنانچہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں لکھا ہوا کلام سنایا، ساٹھ سال قبل کلام کی پختگی نے سامعین کے دل موہ لئے۔ عزیز شاہد کے کلام میں سے چند اشعار ؎
کجھ تاں قسمت کوں ول وی ہوندے ہن
اوندیں زلفیں دے ول وی ہوندے ہن
کہیں مکان اچ زمان وس لہوندن
اینجھے کجھ خاص بل وی ہوندے ہن
اساں ہوندے ہیں، دل وی نئیں ہوندے
لوگ نئیں ہوندے، دل وی ہوندے ہن
انپڑیں باہیں کوں چا ونجن والا
نال باہیں دے گل وی ہندے ہن
ایویں کون کہیں کُوں لٹ سکدے
اپنے اندر دے بل وی ہوندے ہن
٭٭٭
دل ٹھل پیاں بیڑیاں پتڑیں توں
کوئی ہیل ڈکھنڑن دی گُھل پئی اے
توں ہر کہیں دا، توں کہیں دا نئیں
کنڈھ چیڑھی ہئی، ہن کھل پئی اے
میں جمعرات کی دوپہر میڈیا کنکلیو سیشن کا مہمان تھا جس میں معروف و مقبول اینکر و کالم نگاراوریا مقبول جان، جنید سلیم، توفیق بٹ، اشرف شریف، شوکت اشفاق، محسن بھٹی، سجاد جہانیہ، نسیم شاہد، اظہر سلیم مجوکہ، نصیر ناصر اور دیگر دانشوروں، کالم نگاروں نے شرکت کی مگر بوجوہ سیشن میں شرکت سے محروم رہا جس کا افسوس تادیر رہے گا۔
اشرف شریف صاحب نے بتایا کہ میڈیا کنکلیو میں سامعین نے اتنی ہی بھرپور دلچسپی لی جتنی میوزک نائٹ اور مشاعرے میں نظر آئی، ڈاکٹر اطہر محبوب اپنے پرعزم ساتھیوں ڈاکٹر جام سجاد حسین، جاوید حسان چانڈیو، ڈاکٹر شہزاد رانا، ڈاکٹر معظم جمیل، ڈاکٹر ابوبکر، پروفیسر روبینہ بھٹی کے ساتھ مل کر جامعہ اسلامیہ بہاولپور کو مثالی تعلیمی و تدریسی ادارے کے علاوہ علاقائی و قومی ادب و ثقافت، علم و تحقیق کا مرکز بنانے کے درپے ہیں، ادبی و ثقافتی میلہ بھی اس سلسلے کی کڑی تھی جس میں کتابوں کی رونمائی ہوئی اور ملک بھر کے شاعروں، ادیبوں، محققین اوراصغر ندیم سید، خلیل الرحمن قمر جیسے ڈرامہ نگاروں سے اہل بہاولپور بالخصوص جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو روبرو سننے، ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔
بہاولپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظمؒ نے ابتدائی تقریبات میں شرکت کے لئے نواب آف بہاولپور کی ذاتی رولز رائس گاڑی استعمال کی، کہا جاتا ہے کہ مفلوم الحال نوزائیدہ مسلم ریاست کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے نواب صاحب نے ریاستی وسائل وقف کئے جبکہ بہاولپور کے عوام نے ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے بے یارو مددگار قافلوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کیا مگر آج تک ملک کا سب سے بڑا ڈویژن بہاولپور تین اضلاع پر مشتمل ہے۔
پنجاب اور سندھ میں جہاں ہر تحصیل ضلع اور کم و بیش ہر ضلع ڈویژن کا درجہ اختیار کر چکا ہے بہاولپور کے نصیب میں تین ہی اضلاعہیں۔ ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر کا فاصلہ دوسرے سے ڈیڑھ دو سو کلو میٹر کا ہے اور ریاستی عوام ان تعلیمی، طبی سماجی و معاشی سہولتوں اور آسائشات سے بھی محروم جو انہیں نواب صاحب بہاولپور کے عہد میں حاصل تھیں۔ پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں گردے، پیٹ اور آنکھوں کی بیماریاں عام ہیں اور علاج معالجے کی سہولتیں ناکافی، بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال پاکستان کا غالباً منفرد ہسپتال ہے جہاں مریضوں کے علاوہ ان کے لواحقین کے قیام کے لئے الگ عمارت موجود ہے اور نواب صاحب کے دور میں جہاں قیام و طعام کی مفت سہولتیں میسر تھیں، ہر سیاسی جماعت اور حکومت نے بہاولپور کو مثالی صوبہ بنانے کے دعوے کئے مگر تاحال یہ معشوق کا وعدہ فردا ثابت ہوا جو کبھی وفا نہیں ہوتا۔
یوں تو پورا ملک ہی ان دنوں آتش فشاں ہے کہ غربت و افلاس، بھوک پیاس، مہنگائی اور بے روزگاری نے گھروں کے چولہے بجھا دیے ہیں، غریب اور متوسط طبقے کے لئے روح و بدن کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہے اور کاروبار ٹھپ مگر سرائیکی وسیب میں شدت وحدت سوا ہے کہ یہاں مسائل پہلے ہی زیادہ تھے، ریاست اور حکومت کی لاپروائی، وڈیروں، سرداروں اور مخدوموں کا جبر و استبداد اس پر مستزاد اور وسائل کم بلکہ کم تر۔
میں نے ہر ایک سے پوچھا کہ زرداری صاحب کو جنوبی پنجاب سے اُمیدیں بہت ہیں اور وہ جنوبی پنجاب میں انتخابی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں، جواب یہی ملا کہ یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کی کامیابی سے ان کے حوصلے بلند ہیں مگر پورا جنوبی پنجاب ملتان ہے نہ یوسف رضا گیلانی کا حلقہ انتخاب۔ میدان میں اتریں گے تو پتہ چلے گا کہ سرائیکی عوام بالخصوص نوجوان نسل کا موڈ کیا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی محفل مشاعرہ اور دیگر تقریبات میں نوجوان طلبہ و طالبات نے عزیز شاہد، جہانگیر مخلص، جبار واصف، اوریا مقبول جان، خلیل الرحمن قمر، عباس تابش، وصی شاہ اورندیم بھابھہ دیگر شاعروں، دانشوروں اور اہل قلم کے باغیانہ خیالات کو جو پذیرائی بخشی وہ تو کسی اور ہی منزل کا پتہ دیتے ہیں، لیکن دنیا بر اُمید قائم۔ (ختم شد)