Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Sazshi Theory (2)

Sazshi Theory (2)

جناب آصف علی زرداری کی اپنے ولی عہد بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ ماڈل ٹائون میں میاں شہباز شریف کے گھر آمد اور عمران حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر اتفاق رائے اس ہفتے کی بڑی خبر ہے، گزشتہ سال سینٹ انتخابات کے موقع پر آصف علی زرداری کی حکمت عملی کامیابی سے دوچار ہوئی، مخدوم یوسف رضا گیلانی نے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے اُمیدوار حفیظ شیخ کو چاروں شانے چت کر ڈالا اور عمران خان کے مخالفین کے علاوہ حامیوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ متحدہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے، کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی اطلاع ملنے پر عمران خان اپنی پارلیمانی پارٹی، اتحادیوں اور اسٹیبلشمنٹ پر خوب گرجے برسے اور حفیظ شیخ کی ناکامی کو اپنے اوپر عدم اعتماد سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت چھوڑنے کا عندیہ ظاہر کیا، ظاہر ہے کہ یہ کسی کو منظور نہ تھا چنانچہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں انہیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا اور ساری نمبر گیم الٹ پلٹ گئی۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں 33قوانین اور قومی اسمبلی و سینٹ سے منی بجٹ کے علاوہ سٹیٹ بنک بل کی منظوری سے مگر قوم کو یہ پیغام ملا کہ حکومت کو ووٹ آئوٹ کرنا آسان نہیں اور چند نشستوں پر ضمنی، کنٹونمنٹس اور خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کرنا سادہ لوحی ہے کہ موجودہ حکومت کے سر سے دست شفقت اٹھ گیا اور اپوزیشن جب چاہے عمران خان کا بوریا بستر گول کر سکتی ہے۔

سینٹ سے سٹیٹ بنک بل کی منظوری کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین چپقلش میں اضافہ ہوا اور کسی درپردہ مفاہمت کے تحت یوسف رضا گیلانی کے علاوہ بلاول بھٹو کو بل منظوری کا ذمہ دار قرار دیا گیا، اس ماحول میں اچانک میاں شہباز شریف کا آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو ظہرانے پر مدعو کرنا اور دونوں باپ بیٹے کا بے حیل و حجت چلے آنا بہت سوں کو حیران کر گیا، بعض واقفان حال نے تاثر یہ دیا کہ چار پانچ سال قبل طے شدہ ظہرانے کی دعوت واپس لینے اور آصف علی زرداری کو خفت سے دوچار کرنے والے شریف خاندان نے یہ دعوت "کسی "کے اشارے پر دی اور مردِ حر نے اسی باعث قبول کی، قارئین کو یاد ہو گا کہ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم آصف علی زرداری کو جاتی امرا میں کھانے پر مدعو کیا مگر آصف علی زرداری کا مشہور زمانہ بیان آیا ("آپ" تین سال کے لئے آتے ہیں مگر سیاستدان سدا رہتے اور سیاست کرتے ہیں) تو انہیں خوش آمدید کہنے سے معذرت کر لی، جو پرلے درجے کی بے مرّوتی اور آداب میزبانی کے منافی حرکت تھی، میاں شہباز شریف ویسے بھی آصف علی زرداری کے ناقد اور پیپلز پارٹی کے دیرینہ مخالف ہیں۔

اب وہی میاں شہباز شریف آصف علی زرداری کو اپنے گھر پر مدعو کریں تو سیاسی، صحافتی حلقوں میں حیرت و استعجاب کا اظہار فطری ہے اور اس سازشی کہانی کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کے بطور طاقتور اور خود مختار وزیر اعظم طرز عمل سے خائف اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کی اشیر باد اس ملاقات کو حاصل ہے، حکومت کی اتحادی اور جناب شاہد خاقان عباسی کے بقول " بیساکھی" ایم کیو ایم کا اچانک اپوزیشن جماعتوں سے میل ملاپ، بلوچستان کی "باپ" کے وفاقی حکومت کے بارے میں تحفظات اور آصف علی زرداری کی چودھری برادران سے متوقع ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سازشی تھیوری میں جان نظر آتی ہے۔

پچھلے سال ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کا نوٹیفکیشن تاخیر کا شکار ہوا تو مجھے عمران خان کے اتحادی سیاستدان نے کہا "جس دن ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے برگشتہ نظر آئے سمجھ لینا کہ ایک صفحہ کی کہانی اختتام پذیر ہے"اس ہفتے کی ملاقاتوں، حکومتی اتحادیوں کے بیانات اور عمران خان کی دھمکی "میں ایوان اقتدار سے نکل کر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا" کو ایک نئے سلسلہ واقعات کی کڑی تصوّر کیا جائے اور عمران خان کی طرف سے عوامی اجتماعات کے اعلان کو بھی اس کا تکملہ سمجھا جائے تو فروری اور مارچ واقعی حکومت کے لئے بھاری نظر آتے ہیں۔

اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو ایک ڈیڑھ ماہ میں رخصت کرنے کے اعلانات محض گیدڑ بھبھکیاں نہیں لگتے لیکن اس منظر نامہ پر یقین کر لینے کے باوجود مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ آ پڑی ہے کہ کیا اپوزیشن کسی اشارے اور اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے بغیر اپنے بل بوتے پر حکومت کو گرانے کے قابل ہے؟ جواب سو فیصد نفی میں ہے۔ میاں نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری اور مریم نواز شریف سے لے کر بلاول بھٹو تک یہ حقیقت جانتے اور تسلیم کرتے ہیں، تبھی اپوزیشن ارکان اسمبلی کے استعفوں پر کبھی اتفاق ہو پایا نہ طویل المیعاد دھرنے اور تحریک عدم اعتماد پر، پی ڈی ایم اسی عدم اتفاق کے باعث گزشتہ سال ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور دوبارہ جڑ نہیں پائی۔

عمران خان کے جملہ مخالفین اور سول بالادستی کے علمبرداروں کا تکیہ اگر اسٹیبلشمنٹ پر ہے تو یہ ایک ایسی شاخ نازک ہے جس پر بننے والا آشیانہ انتہائی ناپائیدار ہو گا۔ پاکستان اس وقت امریکی دبائو کا شکار ہے اور افغانستان میں تاریخی ہزیمت، عمران خان کی طرف سے Absolutely Notکے اعلان کے بعد اندرون و بیرون ملک یہ تاثر پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ یورپی اتحادیوں، عالمی مالیاتی اداروں اور اندرون ملک اپنے گماشتوں کے ذریعے موجودہ حکومت کو نشان عبرت بنانے کے درپے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں رخنہ اندازی ازبس ضروری ہے اور پاکستان میں عدم استحکام لازمی تقاضا۔

میاں نواز شریف و مولانا فضل الرحمن نے کھلے لفظوں میں اور آصف علی زرداری و بلاول بھٹو نے اشاروں کنایوں میں ساڑھے تین سال تک عسکری اداروں اور اس کی قیادت پر دل کھول کر تبرا کیا، عمران خان کی پشت پناہی کا طعنہ دیا اور وقت آنے پر احتساب کی دھمکیاں دیں، اپوزیشن کی باقی جماعتوں نے اس بیانئے کی تائید کی، عمران خان کی رخصتی اور شریف خاندان و زرداری خاندان کے ایوان اقتدار میں داخلے کی قیاس آرائیوں کے ڈانڈے نومبر 2022ء میں اہم تقرر و تبادلوں سے جوڑے جا رہے ہیں۔ گویا عمران خان کی امکانی رخصتی مہنگائی، بے روزگاری، بُری طرز حکمرانی اور ناقص ٹیم کے سبب نہیں مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ہے۔

امریکی ناراضی کے ازالے، ساڑھے تین سال تک ریاستی اداروں کوبے نقط سنانے والوں کی دلجوئی اور نومبر کے تقرر و تبادلوں کے باعث منتخب حکومت کو چلتا کرنے کی خواہش شریف خاندان اور زرداری خاندان کے سوکھے دھانوں پر پانی ڈال سکتی ہے مگر ملک اور جمہوریت کو کیا حاصل؟ اور اسٹیبلشمنٹ کو کتنے نفل کا ثواب؟ ساڑھے تین سال تک ایک سیاسی گروہ سے بے نقط کی سننے کے بعد اگلے ڈیڑھ سال بلکہ چھ سات سال دوسرے، مُنہ پھٹ اور بڑ بولے طبقے کی ملاحیاں سننے کی آرزو کون عقلمند کر سکتا ہے؟ جبکہ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ سول بالادستی کا علمبردار اوّل الذکر گروہ انتقامی جذبے سے سرشار اور ماضی کا سارا حساب چکتا کرنے کا شدید خواہش مند ہے۔

"قومی جذبہ مفاہمت "(این آر او)سے سرشار پرویز مشرف کی عزت افزائی سب کو یاد ہے کہ موصوف پاکستان میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ کامیاب دورہ چین کے بعد روس روانگی کے لئے تیار عمران خان کو محلاتی سازشوں کے ذریعے محروم اقتدار کرنے کا کوئی منصوبہ اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں ہے نہ جمہوریت و ریاست کو سازگار، عمران خان بآسانی اپنے حامیوں اور قوم کو باور کرا سکتے ہیں کہ انہیں کرپٹ عناصر سے دوبدو جنگ قومی خود مختاری پر اصرار، چین سے دوستی اور Absolutely Notکی سزا ملی۔

ہاں البتہ اگر کوئی دانا میاں نواز شریف کا یہ بیانیہ سوفیصد سچ ثابت کرنے پر تُل گیا ہے کہ "چندجرنیل کسی جمہوری حکومت کو چلنے دیتے ہیں نہ انہیں مدت پوری کرنے دیتے ہیں " تو میں بھی سازشی تھیوری پر یقین کر لیتا ہوں، مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔