بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ یہ وقت بھی آنا تھا، امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان)کے ترجمان نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان سمیت افغانستان کا کوئی ہمسایہ ہمیں فوجی اڈے دینے کے لئے تیار نہیں اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات میں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ وہی امریکہ ہے جس کے وزیر دفاع کولن پاول نے 9/11کے بعد پاکستان کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو فون کیا اور مطالبات کی ایک فہرست پڑھ کر سنائی تو جواباً کسی حیل و حجت کے بغیر ہر بات مان لی گئی۔ کولن پاول نے بعدازاں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ امریکی انتظامیہ مطالبات کی فہرست تیار کرتے وقت شدید اضطراب کا شکار تھی کہ معلوم نہیں پاکستان کون سا مطالبہ مسترد کرکے ہماری مشکلات میں اضافہ کریگا۔
پاکستان 1954-55ء میں سیٹو سینٹو معاہدوں میں شریک ہو کر امریکی کیمپ کا حصہ بنا، پہلی افغان جنگ کے دوران جب جنرل ضیاء الحق پاکستان میں کوس لمن الملک بجا رہے تھے، دونوں ممالک میں گہرے مراسم قائم ہوئے، امریکی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام آباد میں سی آئی اے کا سب سے بڑا اور وسیع انٹیلی جنس مشن قائم تھا اور اس وقت کے سی آئی اے چیف ولیم کیسی پاکستان یوں تواتر سے آتے جاتے جیسے یہ ان کا سسرالی گائوں ہو، امریکی حکومت نے انہیں 1981ء سے 1987ء تک اس منصب پر برقرار رکھا تاکہ افغان جنگ کے دوران دونوں خفیہ ایجنسیوں سی آئی اور آئی ایس آئی کے درمیان جاری تال میل میں خلل اندازی نہ ہو، اس کے باوجود پاکستان خود سپردگی کی اس سطح تک نہ پہنچا جس کا مشاہدہ جنرل(ر) پرویز مشرف دور میں ہوا، تین پاکستانی فوجی اڈے امریکہ کے زیر استعمال تھے جہاں سے امریکی ہوائی جہاز افغانستان اور ڈرون طیارے پاکستان کی سرزمین پر بم اور میزائل برساتے، ہمارا دفتر خارجہ عملاً عضو معطل بن کر رہ گیا تھا، نیک نام بیورو کریٹ اور وزیر خارجہ عبدالستار اسی باعث اپنے منصب سے مستعفی ہوئے کہ انہیں امریکیوں کا غرور اور پاکستانی قیادت کی ذلت آمیز خود سپردگی پسند نہ تھی۔ ایک واقعہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا جب امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ یعنی وزارت خارجہ کی ڈپٹی سیکرٹری کے مساوی اہمیت کی حامل کرسٹینا روکا اسلام آباد میں وارد ہوئیں، محترمہ ایئر پورٹ پر پہنچ چکی تھیں جب وزارت خارجہ اور عبدالستار کو ان کی آمد کے بارے میں اطلاع ملی کہ براہ راست ایوان صدر جائیں گی، سربراہ حکومت جنرل پرویز مشرف ان کا استقبال کریں گے، مذاکرات ہوں گے، دونوں مشترکہ کانفرنس کریں گے اور وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ و دیگر افسران سے رسمی دعا سلام کے بعد وہ واپس ایئر پورٹ چلی جائیں گی۔ اس سے پہلے کسی پاکستانی سربراہ مملکت کی نچلے درجے کے کسی امریکی اہلکار کے ساتھ پریس کانفرنس کی کوئی مثال ملتی ہے نہ ون آن ون ملاقات کا ثبوت۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دفتر میں جا کر ملاقات کا شرف البتہ منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حاصل کیا، لیکن یہ بعد کی بات ہے اور میاں صاحب کو یہ خفت وزیر خارجہ کا منصب اپنے پاس رکھنے کے سبب اٹھانی پڑی۔
امریکہ کی بغل بچہ سمجھی جانے والی ریاست اب اسے اڈے دینے کے لئے تیار نہیں، ہے نہ حیرت کی بات؟ مگر یہ کایا کلپ ایک دن میں نہیں ہوئی، 9/11کے بعد جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور پرائی جنگ میں پاکستان کو دھکیلا اور قوم کوکئی سبز باغ دکھائے گئے مثلاً اس شراکت داری کے عوض ہم نے امریکہ سے یہ ضمانت حاصل کی ہے کہ وہ (1) مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک سے سروکار نہیں رکھے گا اور جہاد کشمیر پر دہشت گردی کا لیبل نہیں لگائے گا، (2) نیو کلیر پروگرام کے حوالے سے اپنی معاندانہ پالیسی ترک کرے گا اور کبھی سوال نہیں اٹھائے گا۔ (3)بھارت کو پاکستان اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہو گی۔ ہوا مگر اس کے برعکس چند ماہ بعد ہی امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں اور پاکستان پر دبائو بڑھا دیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی حمائت سے دستکش ہو، دہشت گردوں کی رسائی کے خطرے کے پیش نظر نیو کلیر پروگرام پر امریکی نگرانی قبول کرے اور شمالی اتحاد کے ذریعے بھارت کو افغانستان میں رسائی دینے کے ساتھ پاکستان میں مداخلت کی کھلی چھٹی دے دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیموں نے امریکی اڈوں کی موجودگی، جہاد کشمیر سے بے وفائی اور امریکی جنگ میں تعاون کا منفی پروپیگنڈا کر کے بھارتی سرپرستی میں جنگ وجدل کا بازار گرم کر دیا۔ امریکی جنگ میں شرکت، تین فوجی اڈے دینے اور طوطا چشم اتحادی سے تعاون کی پاداش میں پاکستان نے ستر اسی ہزار جانوں کی قربانی دی، اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا اور افغانستان میں اپنی حلیف طالبان حکومت سے بے وفائی کا طعنہ سہا، پاکستان کی موجودہ سیاسی اور فوجی قیادت نے جنرل پرویز مشرف کی احمقانہ پالیسی اور امریکی کی طوطا چشمی سے سبق سیکھا اور عمران خان نے ایک سے زائد بار آئندہ کسی دوسرے کی جنگ میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا اور فوجی اڈے فراہم نہ کرنے کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں ہوا۔
معاملہ مگر صرف فوجی اڈوں کی فراہمی کا نہیں، افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام کا بھی ہے جس میں امریکہ کے گماشتوں اور بھارت کے شردھالوئوں کو افغان طالبان پر سیاسی وعددی اعتبار سے برتری حاصل ہو، افغان طالبان اس کے لئے تیار نہیں اور اشرف غنی حکومت و طالبان کے مابین مذاکرات کی بیل اسی باعث منڈھے نہیں چڑھ رہی، مکمل امریکی فوجی انخلا کے بعد ریاست کی حکمرانی پکے ہوئے پھل کی طرح طالبان کی گود میں گرتی نظر آ رہی ہے، جس کی روک تھام کے لئے امریکہ پاکستان کو بھی پریشرائز کر رہا ہے کہ وہ طالبان کو موجودہ کٹھ پتلی حکومت کے ساتھ شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر راضی کر ے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو سارے فریقوں کے لئے قابل قبول عبوری حکومت قائم نہ ہونے کی صورت میں خانہ جنگی کا شدید اندیشہ ہے، جس سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ پاکستان کی سیکولر بیورو کریسی اور مقتدر اشرافیہ طالبان کی بلا شرکت غیرے حکمرانی سے بھی خوفزدہ ہے کہ اگر افغان طالبان اپنے ملک میں امن و استحکام لانے میں کامیاب ہوئے تو یہاں بھی ویسا ہی سادہ، عوام دوست اور ایماندار طرز حکمرانی رائج کرنے کا مطالبہ زور پکڑے گا اور امریکہ و یورپ کی ذہنی، معاشی اور سیاسی غلامی سے نجات کی جدوجہد تیز ہو گی، یہ خدشہ بے جا نہیں کہ افغان طالبان کی حمائت میں سرگرم مسلکی گروہ کو تقویت ملی تو ایک بار پھر پراکسی وار میں اضافہ ہو گا اور پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ کو مزید طویل دینے پر مجبور ہو گا۔ جس سے ہماری معیشت، سماج اور سیاست سمیت ہر شعبہ متاثر ہونا لازم ہے۔ تنے ہوئے رسے پر گامزن ہمارے فیصلہ ساز دوہری آزمائش کا شکار ہیں، فوجی اڈے نہ دینے کا اعلان مستحسن ہے مگر باقی چیلنجز سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ اگر امریکی دبائو قبول کر کے ہم افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے باوجود ناراض کر بیٹھے تو یہ مشرف دور کی غلطی کا اعادہ ہو گا، اس وقت تک امریکہ کی قوت و طاقت کا زعم پاش پاش ہوا تھا نہ افغان طالبان بلکہ زیادہ درست معنوں میں افغان عوام نے برطانیہ و سوویت یونین کے بعد چالیس رکنی فوجی اتحاد کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا تھا۔ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے افغان طالبان اس کا شکار ہیں مگر ہمیں اس نفسیات کی تباہ کاریوں کا تجربہ ہو چکا ہے، ہم اب تک افغان طالبان کی سرپرستی کا طعنہ سہتے رہے، اب ہمیں دشمنی کا مزہ چکھنے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ چکھ کر بدمزہ ہوا، ہم بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کیوں بنیں؟ بڑی طاقتوں یعنی سپر پاورزکے قبرستان میں مجاور بننے کی کیا ضرورت ہے۔